وطن کی فکر کر نادان

قریباً سو سال پہلے‘ جب علامہ اقبال نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے لکھا :
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تو اُنہوں نے دوسرے مصرع میں فرمایا کہ آسمانوں میں تیری بربادیوں کے مشورے ہیں۔ پہلا مصرع تو 2023ء کے پاکستان کے لیے 1923ء کے برصغیر کے مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ موزوں‘ مناسب اور حسبِ حال ہے مگر دوسرے مصرع کا آج ہم پر اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ آسمانوں میں جو مشورے ہورہے ہیں‘ وہ ہمیں تباہ و برباد کرنے کے لیے نہیں بلکہ ہمیں کسی نہ کسی طرح سنگین معاشی بحران سے بچانے (جس کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی) کے لیے ہیں۔ سارے کا سارا مغربی بلاک (جس کا قائد امریکہ ہے) جو تائیوان پر چین اور یوکرین پر روس کا قبضہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا‘ اُسی طرح وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین قوت کا توازن اتنا درہم برہم ہو جائے کہ پاکستان سری لنکا یا لبنان بن کر بھارت کے سامنے جھک جائے اور سارا وقت ہاتھ جوڑ کر کھڑا رہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ (بقول مفتاح اسماعیل‘ ایک فیصد طبقہ) اس حد تک مغرب زدہ ہے اور اُس کے مغربی ممالک (بالخصوص امریکہ) کے ساتھ تہذیبی‘ ثقافتی‘ فکری اور سب سے بڑھ کر معاشی اور تجارتی تعلقات اتنے وسیع اور گہرے ہیں کہ وہ یک جان اور دو قالب والا معاملہ ہے۔ مغربی اور یورپی ممالک کے عالمی اقتدار کی بساط بچھانے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ نہر سویز کے اُس جانب ساری تیسری دنیا (تین براعظموں) میں اُن کا جو خدمت گزار اور جان نثار (وہی ایک فیصد) طبقہ سیاسی اور معاشی طور پر برسرِ اقتدار ہے‘ وہ پاکستان کے سوا اور کسی ملک میں اس طرح طاقت میں نہیں۔ نہ مشرقِ وسطیٰ میں‘ نہ مشرقِ بعید میں‘ نہ وسطی ایشیا میں‘ نہ افریقہ میں اور نہ پورے لاطینی امریکہ میں۔ ہمارا حکمران طبقہ سامراجی قوتوں کا منظورِ نظر ہے۔ یہ طبقہ مغربی اجارہ داریوں کا اسیر ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور دوسرے یورپی ممالک کے استحصالی طبقے (اور عالمی سطح پر اربوں کھربوں کی لوٹ مار کرنے والے ماہرین) کی خوشہ چینی سے اس کا (کبھی نہ بھرنے والا) پیٹ نہ بھرے تو پھر وہ بائیس کروڑ عوام کے باقی ننانوے فیصد (21 کروڑ 78 لاکھ) عوام (خصوصاً غریب کسانوں‘ مزدوروں‘ ماہی گیروں‘ دیہاڑی داروں اور ریڑھی بانوں) کا خون چوس کر اپنا ناقابلِ تصور بلند معیارِ زندگی قائم رکھتا ہے۔
جب ہماری حکومتوں کو ہر سال قرضوں کی قسط یا سود ادا کرنے کے لیے مزید اربوں ڈالروں کی ضرورت پیش آئے اور اُن کے پاس گروی رکھنے کے لیے قومی اثاثے نہ بچیں؛ نہ کوئی موٹر وے‘ نہ کوئی ہوائی اڈا‘ نہ کوئی سونے؍ تانبے کی کان‘ تو ہمارے نام نہاد دوست (جو دراصل ہمارے قومی خود مختاری کے دشمن ہیں) ہم سے وہی مانگیں گے جو شیکسپیئر کے ڈرامے Merchant of Venice میں قرض دینے والے Shylock نے اپنے مقروض سے قرض معافی کے معاوضے کے طور پر طلب کیا تھا اور وہ تھا: A Pond of Flesh ۔ ایک پائونڈ گوشت! آئی ایم ایف کی ڈوریاں ہلانے والے اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام پر چھائے ارب‘ کھرب پتی اس گھڑی کا انتظار کر رہے ہیں جب ہم قرض کی قسط ادا نہ کر سکیں اور ہمارے اُوپر دیوالیہ پن کی تلوار لٹک رہی ہو۔ ایسے میں ہمارے پاس صرف ایک ہی قیمتی سرمایہ رہ جائے گا جو ہمارے لیے زندگی یا موت کی حیثیت رکھتا ہے اور وہی ہمارے لیے Pond of Flesh کا درجہ رکھتا ہے اور وہ ہے ہمارے ایٹمی اثاثے۔ اب تو سبھی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ہم سے ایٹمی ہتھیاروں کی سپردگی کا مطالبہ کیا جائے گا اور یقین جانیے کہ ہمارے اُوپر اربوں‘ کھربوں کا قرضہ چڑھانے والے سیاست دان اور اعلیٰ سرکاری افسران یہ کام بھی اُسی دیدہ دلیری سے کر گزریں گے جس کا وہ گزرے 75سالوں سے مظاہرہ کرتے آ رہے ہیں۔
ہر ماہ‘ ہر ہفتہ‘ ہر روز بلکہ ہر لمحہ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ افراطِ زر‘ بے روز گاری اور معاشی ابتری کی بدولت اگر عوام کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا‘ زبردست عوامی ہنگاموں نے بساط اُلٹ دی‘ گلگت سے گوادر تک ہڑتالوں‘ مظاہروں‘ احتجاجاً بازاروں کی بندش سے اس گلے سڑے نظام کو مصنوعی تنفس سے مزید زندہ رکھنا مشکل ہو گیا تو پھر کیا ہوگا؟ کالم نگار پورے وثوق سے لکھ رہا ہے کہ ایک فیصدحکمران طبقے کا ایک فیصد‘ جو 22 ہزار بنتا ہے‘ وہ تو ہوائی جہازوں‘ اپنی کاروں میں یا بار بردار ٹرکوں میں‘ اور اگر یہ سب بھی دستیاب نہ ہوں تو پھر سائیکلوں‘ موٹر سائیکلوں پر جلد از جلد قریب ترین سرحد کو قانونی و غیر قانونی طور پر عبور کرکے وطن عزیز (جو اس کے لیے چراگاہ ہے یا مذبح خانہ) سے فرار ہو جائے گا۔ ذرا سا مشکل وقت آتے ہی یہ سر پر پائوں رکھ کر بھاگ جائے گا۔
اس طبقے کے بہت سے افراد تو پہلے ہی یورپی ممالک‘ کینیڈا و امریکہ کے پاسپورٹ ہولڈر ہیں۔ اگر پاسپورٹ نہیں تو گرین کارڈز ہیں۔ اگر وہ بھی نہیں تو ہر سال تجدیدِ نو ہو جانے والے (Renewable) ویزا ہیں جن کی بدولت اُسے راہِ فرار اختیار کرنے میں قطعاً کوئی دشواری پیش نہ آئے گی۔ یورپ اور امریکہ و کینیڈا کا شاید ہی کوئی ایسا بڑا شہر ہو جہاں اس طبقے کے افراد کی جائیداد نہیں اور بینکوں میں (گزارہ موافق) ہزاروں‘ لاکھوں ڈالرز نہیں۔ کالم نگار گزشتہ 55 برس سے ایک یورپی ملک (برطانیہ) میں مقیم ہے۔ میں مذکورہ بالا قومی لٹیروں اور مجرموں کے طریقۂ وادات کا چشم دید گواہ ہوں۔ ان میں سے کئی ایک مجھے (بڑی فیس دے کر) اپنا قانونی مشیر بنانا چاہتے تھے اور اُنہیں اپنی گناہگار آنکھوں پر اعتبار نہیں آتا تھا کہ اُن کا ایک ہم وطن ضمیر فروشی پر رضا مند نہیں ہوتا تھا۔ پھر وہ انگریز وکیلوں سے رجوع کرتے اور ان کا کام بن جاتا۔
یہ سالِ نو میں میرا پہلا کالم ہے۔ میں نے اپنے قارئین کے لیے نئے سال کی خوشیوں کی دُعا لکھی (ایک فارسی شعر کے مطابق سو بار لکھی) اور پھر کاٹ دی۔ موٹی موٹی لکیروں سے کاٹ دی۔ میں آپ کو کس چیز کی مبارکباد دوں؟ میں آپ کو کون سی (جھوٹی) خوش خبری سنائوں؟ میں سوئے ہوئے لوگوں کو وہ کون سی لوری سنائوں کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ گہری نیند (بقول اقبالؔ خوابِ گراں) سے لطف اندوز ہوں؟ میرتقی میرؔ کو بھی وہ سیلابِ بلا نظر آ رہا تھا جو اُن کے شہر کو سمندر میں ڈبونے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ پھر اقبالؔ‘ فیضؔ اور فرازؔکس کس نے متنبہ نہیں کیا۔ مجال ہے کہ سوئی ہوئی قوم اپنے جعلی حکمرانوں‘ غیرملکی حاکموں کے مقامی کارندوں اور کٹھ پتلیوں ''Theatre of the Absurd‘‘ کے اداکاروں کے طلسم سے نکل کر آنکھیں کھولے۔ بقول جالبؔ: دوستوں کو پہچانو ‘دشمنوں کو پہچانو۔
مگر آپ تاریخ دیکھ لیں۔ ہمیں نہ دوست‘ دشمن کی کوئی پہچان ہے‘ نہ تمیز۔ سو سال پہلے ہمارے اُس وقت کے رہنمائوں نے ہمیں انگریز کا ہندوستان چھوڑ کر افغانستان ہجرت کرنے کی تلقین کی اور ہم نے اُن کی بات مان لی اور ہزاروں گھرانوں کی تباہی و بربادی کی رُلا دینے والی داستان رقم کر دی۔ ترکوں نے پہلی عالمی جنگ کے بعد عثمانی سلطنت کی صف لپیٹ دی اور ایک نئی ترقی پسند مملکت کی بنیاد رکھی اور ہمارے رہنما ہندوستان کے شہر شہر اور قریہ قریہ میں خلافت کی تحریک چلا کر چندہ اکٹھا کرتے اور گاندھی کو مسلمانوں کا رہنما بنائے پھرتے تھے۔ یہ قابلِ فخر ریکارڈ نہیں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ شمالی پنجاب نے احرار کی خطابت اور خاکسار کی بیلچہ بردار خدمت گزاری سے اپنی عقیدت کے باوجود ہزاروں میل دُور بمبے کی مالا بار ہل پر رہنے والے ایک دُبلے پتلے شخص کی پکار سن لی اور صرف سات سالوں میں اتنی زبردست عوامی تحریک چلائی کہ قوتِ اُخوت عوام کی بدولت دُنیا کی پانچویں بڑی مملکت معرضِ وجود میں آگئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں