اچھی حکومت کے چار ستون … (2 )

بات ہو رہی تھی ایک اچھی حکومت کے چار بنیادی ستونوں کی! یہ چار ستون کون سے ہیں؟ آپ کی یاد دہانی کے لیے دوبارہ لکھتا ہوں: احتساب، شفافیت، قانون کی حکمرانی اور جواب دہی یعنی اکائونٹبیلٹی۔ صرف سرکاری اور حکومتی سطح پر نہیں بلکہ ہر سطح پر۔ اشیائے ضرورت بنانے یا فروخت کرنے والا ہر ادارہ اور ہر فرد اپنے صارفین کے سامنے جواب دہ ہو۔ ڈاکٹر مریضوں کے سامنے جوابدہ دہ ہو۔ اساتذہ طلبہ اور طالبات اور اُن کے والدین کے سامنے۔ حکمران اور بڑے سرکاری افسران عوامی نمائندوں کے سامنے۔ شاہراہ بنانے والے اس شاہراہ کو استعمال کرنے والوں کے سامنے۔ قومی خزانے کو خرچ کرنے والے ٹیکس اور محصولات دینے والوں کے سامنے۔ اختیارات استعمال کرنے والے ان سے متاثر ہونے والوں کے سامنے۔ لیڈر صاحبان اپنے پیچھے چلنے والوں کے سامنے۔ جوابدہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ بات بہ بات لٹھ لے کر دوسروں پر پل پڑیں‘ جیسے پاکستان میں اکثر مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ مریضوں کے لواحقین ڈاکٹروں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر کوئی دوائی یا ٹیسٹ لکھتا ہے تو اس سے سوال کیا جا سکے کہ اس کی کیا ضرورت ہے، یہ کیوں کرانا چاہیے، جوابدہی سوال کی حد تک ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ اگر مندرجہ بالا صورتِ احوال نہ ہو تو پھر ہر بااختیار شخص یا ادارہ شتر بے مہار بن جائے گا۔ سیاہ و سفید کا مالک! نہ کوئی روک نہ ٹوک‘ نہ تفتیش و جرح! گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے۔ خلفائے راشدینؓ کی عظمت کی لاتعداد وجوہات ہیں مگر میری عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل کے قبائلی دور میں بھی وہ احتساب اور جواب دہی کے بلند ترین معیار پر اس طرح پورا اُترے کہ آج بھی ان کی مثال ڈھونڈنا ممکن نظر نہیں آتا۔
امریکی آئین بنانے والوں کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے عدلیہ کو یہ اختیار بھی دیا کہ وہ پارلیمان (Congress) کے منظور کردہ قوانین اور سرکاری احکامات کی سختی سے جانچ پڑتال کرے کہ وہ آئین کی رُوح سے متصادم تو نہیں؟ اور اگر ہوں تو اُن پر خطِ تنسیخ پھیر دے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی عدالتیں قومی ضمیر کی آواز کا کام بھی کرتی ہیں۔ خلیل جبران نے کہا تھا: اُس قوم کی حالت قابلِ رحم اور قابلِ ماتم ہے جس میں چوکیدار اور چور کے درمیان دوستانہ تعلق قائم ہو جائے۔ جس طرح مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر نے اور بعد میں کئی دیگر نے اُس دیانت داری، اُصول پرستی اور غیر جانبداری کا مظاہرہ نہ کیا جس کی آئین اُن سے بجا طور پر توقع رکھتا تھا‘ اور ''نظریۂ ضرورت‘‘ کی بنیاد پر متنازع اور مشکوک فیصلے سنائے‘ اس طرزِ عمل نے ریاست کی بنیادیں ہلانے اور ملک میں انصاف کا بول بالا نہ ہونے دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ہم پی سی او (ڈکٹیٹروں کے نادر شاہی فرمان) کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کرنے والے جج صاحبان کو ٹوپی اُتار کر سلام کرتے ہیں۔ اُن کی قربانیوں کی وجہ سے ہی ہمارے ملک میں انصاف کا ٹمٹماتا ہوا چراغ ابھی تک جل رہا ہے۔
اب میں اُن واقعات کو مختصراً بیان کروں گا جو برطانیہ و یورپ اور امریکہ میں جواب دہی اور احتساب کے دو زریں اُصولوں کی پاسداری کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ برطانیہ میں مالی امداد کے نگرانِ اعلیٰ نے ایک ماہ قبل Santander بینک کو تین سنگین لغزشوں کے ارتکاب پر جو جرمانے کیے‘ میں نے اُنہیں جمع کیا تو میزان نکلا 107793300 یعنی 10کروڑ77لاکھ اور 93 ہزار 3سو پائونڈز۔ اس بینک نے جرمانہ ادا کرنے کے بعد کانوں کو ہاتھ لگائے اور اتنی معافیاں مانگیں کہ ایک ماہ گزر جانے کے بعد بھی بینک چلانے والے بدستور ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں۔ Barclays (Lloyds کے بعد) برطانیہ کا دوسرا بڑا بینک ہے۔ دسمبر کا مہینہ اُس کے لیے بھی بڑا وحشت ناک ثابت ہوا۔ اُسے منی لانڈرنگ کے قوانین پر سختی سے عمل نہ کرنے کا جرم ثابت ہو جانے پر 55ملین (ساڑھے 5کروڑ) پائونڈز کا جرمانہ کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمانے کی اتنی بڑی رقوم کی ادائیگی کے بعد ان بینکوں کے اعلیٰ ترین افسران کی خوشی سے باچھیں کھلی ہوئی تھیں کہ جرمانہ (چاہے وہ کتنا بڑا ہو) ادا کرنے کے بعد اُن کی جان چھوٹ گئی۔ ان کا وہ حال نہ ہوا جو ربع صدی قبل پاکستانیوں اور عربوں کے مشترکہ بینک BCCI کا ہوا تھا۔ (آغا حسن عابدی اس کے سربراہ تھے)۔ اس بینک کو بے ضابطگیوں کے ارتکاب پر بند کر دیا گیا تھا۔ وسطی لندن میں اس بدنصیب بینک کا دفتر اُسی سڑک پر تھا جہاں اٹھارہویں صدی میں ہندوستان پر قبضہ کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کا دفتر تھا۔ اس بینک کے مرکزی دفتر میں کام کرنے والے افراد معمول کی بے فکری کے ساتھ ایک دوپہر لنچ کرکے واپس لوٹے تو دیکھا کہ ان کا دفتر مقفل ہے۔ وہ واپس جاکر اپنا سامان بھی نہیں اُٹھا سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مندرجہ بالا دونوں سزا یافتہ بینکوں نے کروڑوں پائونڈز جرمانہ ادا کرکے بہ آواز بلند کہا: جان بچی سو لاکھوں پائے۔
وسطِ دسمبر میںجب اہالیانِ یورپ سالِ نو کا جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف تھے‘ ایک زلزلے نے اُنہیں ہلا کر رکھ دیا۔ یہ زلزلہ اس سنسنی خیز خبر کے نشر ہونے سے آیا کہ بلجیم کی پولیس نے یورپی پارلیمنٹ کی نائب صدر خاتون (Eva Kaili) کو قطر کی حکومت سے‘ مراکشی خفیہ پولیس کے کارندوں کے ذریعے‘ بہت بھاری رقم بطور رشوت وصول کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا ہے۔ اُس کے گھر پر چھاپہ مار کر پولیس سے قریباً 20لاکھ یورو برآمد کر لیے۔ مزید تفتیش لازم کر دی گئی ہے۔ ملزمہ پراسی صورت میں مقدمہ چلایا جائے گا کہ استغاثہ کے پاس ٹھوس شواہد ہوں اور جو عدالتی کارروائی میں پیش کیے جا سکتے ہوں؛ یعنی Admissible ہوں۔ اس خبر سے مجھے پہلی بار پتا چلا کہ مراکشی خفیہ ایجنسی ''مخزن‘‘ کہلاتی ہے۔
بینکوں کو کروڑوں پائونڈز کے جرمانے کی سزا کا تذکرہ آپ یوں سمجھیں کہ آپ نے دیگ میں سے چاول کا ایک دانہ چکھا ہے۔ برطانیہ کی طرح یورپ کے جن ملکوں میں بادشاہ یا ملکہ سربراہِ مملکت ہے (مثلاً ہالینڈ، بلجیم، سپین، ناروے اور سویڈن) وہ بھی عوامی احتساب سے بالاتر نہیں۔ سپین کے موجودہ بادشاہ کے باپ کو اپنے بیٹے کے حق میں تخت سے دستبردار ہونا پڑا کیونکہ اُس پر یہ سنگین الزام لگایا گیا تھا کہ وہ کسی عرب ملک کے شاہی خاندان سے رشوت لے کر اُسے ایک تجارتی معاہدے میں خفیہ مدد کرنے کی سازش میں شریک ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کے عوام اپنے اُوپر کسی قسم کی روایتی یعنی اخلاقی پابندی کو قبول نہیں کرتے مگر اپنے حکمرانوں سے اعلیٰ ترین اخلاقی کردار کی توقع رکھتے ہیں اور اگر وہ پکڑے جائیں تو ان کی سخت شامت آجاتی ہے اور اُنہیں اکثر اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر ہی جان بچانا پڑتی ہے ورنہ اُنہیں کھلی انکوائری یا مقدمہ چلا کر معزول کر دیا جاتا ہے۔ ابھی اس خبر کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ امریکہ کے محکمہ وصولی محصولات (ٹیکس ریونیو) نے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر پر چھاپہ مار کر اُن کے وسیع کاروبار سے متعلقہ سارا ریکارڈ، آمدنی اور اخراجات کے گوشوارے(ٹیکس ریٹرنز) ضبط کر لیے۔ یہ خبر بھی امریکہ کے ہر بڑے اخبار میں شہ سرخی بن کر شائع ہوئی کہ امریکی حکومت کے ماتحت کام کرنے والے اٹارنی جنرل (جو نظامِ انصاف کا سربراہ ہے) کے محکمے نے امریکی صدر (جو بائیدن) کی سرکاری رہائش گاہ (وائٹ ہائوس) پر چھاپہ مار کر ہزاروں ای میلز اپنی تحویل میں لے لیں۔ سرکاری عمال کے پاس وہ شواہد تھے جن سے اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ صدر کا بیٹا اپنے باپ کی سرکاری پوزیشن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دوسرے ممالک کے ساتھ جو کاروبار کر رہا ہے‘ اُس سے بددیانتی کی بُو آتی ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق‘ وہ جن شرائط پر تجارتی معاہدے کرتا تھا وہ Cutting the corner کے زمرے میں آتی ہیں جس کی امریکی قانون اجازت نہیں دیتا۔ اگر استغاثہ کے پاس مضبوط شواہد ہوئے (جس کا فیصلہ ہزاروں ای میلز کو پڑھ کر کیا جائے گا) تو پھر صدر کے بیٹے کو عدالت میں ملزم کے کٹہرے میں کھڑے ہونے سے اُس کا صدر باپ بھی نہیں بچا سکتا۔ جب باپ (صدر ہونے کے باوجود) اپنے آپ کو احتساب اور جوابدہی سے نہیں بچا سکتا تو اُس کا بیٹا کس شمار قطار میں ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں