اچھی حکومت کے چار ستون … (3 )

نجانے کیوں‘ مجھے واٹر گیٹ سکینڈل یاد آ رہا ہے۔ نوجوان قارئین شاید اس سے بے خبر ہوں گے۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن کو محض یہ ثابت ہو جانے پر صدارت کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا کہ اس کے ایک نائب نے پانچ پیشہ ور چوروں کو ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی دفتر میں نقب زنی کرنے اور کاغذات چرانے کے لیے قفل توڑنے کی ہدایت کی تھی۔ اس سیکنڈل کے انکشاف کا سہرا امریکہ کے سب سے پرانے اور مستند اخبار‘ واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر بوب وُڈ ورڈ کے سر باندھا جاتا ہے۔ اس رپورٹر کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ویت نام کی جنگ میں امریکی فوج کے شہری آبادی پر ڈھائے جانے والے ناقابلِ بیان مظالم اور کمبوڈیا پر امریکہ کے فضائی حملے کا جواز پیدا کرنے کے لیے بے آف نانکنگ میں امریکی بحریہ پر خود ساختہ حملے کا پردہ چاک کیا۔ یقینا ان سطور کو پڑھنے والا کوئی ایک بھی ایسا شخص نہ ہوگا جو جولین اسانج کے نام اور کام سے واقف نہ ہو۔ اس نے امریکی جرائم کو بے نقاب کرنے کیلئے لاکھوں خفیہ ای میل دنیا بھر میں پھیلا دیں۔ جس نوجوان نے ای میل کا یہ ذخیرہ اسانج تک پہنچایا وہ سرکاری راز فاش کرنے کے جرم میں عمر قید بھگت رہا ہے۔
چھوٹی مچھلیوں کو تو ہر ملک میں بہ آسانی پکڑ لیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں پاکستان کے چاروں صوبوں کی پولیس کی پھرتی اور برق رفتاری تیسری دنیا کے ہر ملک کے ہم پلہ ہے۔ اصل امتحان تو یہ ہوتا ہے کہ کیا کسی ملک میں مگر مچھوں کو پکڑنے کا بھی کوئی جال موجود ہے یا نہیں؟ یورپ کے ہر ملک اور امریکہ میں اچھی حکمرانی کی بڑی اور بنیادی وجہ اسی جال کی موجودگی اور اس کا مؤثر کردار ہے۔ اس صدی کے گزرے ہوئے 22برسوں میں امریکی محکمۂ انصاف نے جن ارب پتی افراد اور مالیاتی اداروں اور بینکوں کو اتنی عبرت ناک سزا دلوائی کہ ان کا نام و نشان تک مِٹ گیا‘ ان میںWorldCom‘FTX (Digital Currency)‘ Max Madoff-Enronاور Lehman Brother شامل ہیں۔ برطانیہ میں پانچ سو سال سے بیرسٹروں کی بار فعال اور سرگرم عمل ہے مگر آج تک عہدے داروں کے انتخاب کا اہتمام کرنے کی نوبت نہیں آئی کیونکہ اتفاقِ رائے سے تمام عہدے دار بلا مقابلہ چن لیے جاتے ہیں۔ ادھر میرے آبائی ملک میں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایسا کیوں ہے‘ میں یہ سوال اپنی وکلا برادری کے سامنے رکھ کر آگے بڑھتا ہوں۔
یہ کہنا بالکل غلط اور گمراہ کن ہے کہ پاکستان بطور ریاست ناکام ہو چکا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ اب اپنے بنائے ہوئے استحصالی جال میں پھنس کر‘ یہ گلا سڑا نظام مزید چلانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ وہ نظام جس میں نہ سلطانی جمہور کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی فلاحی مملکت کے قیام کا‘ وہ لڑکھڑاتے ہوئے‘ اُفتاں و خیزاں‘ مشکل سے 75 سال گزار کر اوندھے منہ گر پڑا تو ہمیں اس حقیقت کا پتا چلا کہ یہ تو اب مزید نہیں چل سکتا۔ مصنوعی تنفس کے سہارے بھی نہیں۔ آئی سی یو میں رکھ کر بھی نہیں۔ غالباًیہ شیکسپیئر کا قول ہے کہ کئی لوگوں کی وفات اور تدفین میں بہت لمبا وقفہ ہوتا ہے۔ اگر آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ اب جاکر سٹیٹس کو کی تجہیز و تکفین کا مرحلہ آیا ہے حالانکہ اس کی وفات تو برسوں پہلے ہو چکی تھی۔ اگر یہ نظام زندہ ہوتا تو یہاں آمر نہ آتے‘ یہاں قانون کی حکمرانی ہوتی‘ آئین کا احترام کیا جاتا‘ عوام کو اقتدار اور اختیار کا مالک بنایا جاتا‘ کسانوں اور مزدوروں کو معاشی نظام سے انصاف ملتا۔ سائلوں کو انصاف‘ مریضوں کو علاج اور طلبہ و طالبات کو اچھی تعلیم ملتی۔ ملک میں امن و امان ہوتا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ایک فیصد حکمرانوں کا سیاسی اقتدار اور معاشی قبضہ ختم کرکے 99 فیصد کو اقتدار اور اختیارات کا مالک بنا دیں۔ ہم نے ایسا کیا تو موسم خزاں فوراً موسم بہار میں تبدیل ہو جائے گا۔ آزمائش شرط ہے۔ آپ میری بات مانیں یا نہ مانیں مگر انسانی تاریخ کے ہزاروں سال کے تجربہ سے سبق سیکھیں۔ وہ نوشتہ ٔدیوار ہے۔
صدر ضیاء الحق نے وفاقی اور صوبائی محتسب اور صدر پرویز مشرف نے نیب کا ادارہ قائم کیا۔ یہ دونوں احتسابی ادارے نہ صرف ملزموں کو ڈرا کر رکھتے تھے بلکہ اُنہیں ان کے خلاف کارروائی کا بھی پورا حق حاصل تھا۔ یہ سعادت کسی جمہوری حکومت کے نصیب میں نہ آئی۔ بدقسمتی سے ہم نے نیک نیتی سے بنائے گئے اداروں کو بدنیتی سے استعمال کرنے کی اپنی پرانی روش نہ چھوڑی (ہماری استقامت قابلِ داد ہے) اور ان اداروں نے بدعنوان سیاست دانوں اور ان سے بھی زیادہ بددیانت سرکاری افسروں کے خلاف جو مقدمات چلائے‘ وہ یکے بعد دیگرے اس لیے ملزموں کو مجرموں میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ (آصف علی زرداری کو جیل میں بارہ سال قید میں رکھنے کے باوجود) مقدمات کی بنیاد استغاثہ کے شواہدکے بجائے سیاسی انتقام پر رکھی جاتی رہی۔ اب یہ عالم ہے کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد۔ کئی بڑے مجرم (مگرمچھ) نیب کے ساتھ پلی بارگین کرکے چھوٹ گئے۔ پلی بارگین کا دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ سو کروڑ چرانے والا (اپنے تمام آزمودہ نسخوں کو آزمانے کے بعد بھی) پکڑا جائے تو وہ حکومت کو برضا و رغبت 50 کروڑ واپس کرکے بقیہ 50 کروڑ ہضم کر سکتا ہے۔ میاں بیوی راضی ہو جائیں تو بے چارہ قاضی کرے تو کیا کرے؟ آپ کو گردوغبار سے اَٹے ہوئے اس گدلے اور گرد آلود ماحول میں شاید یہ یاد نہ ہو کہ جب پاناما سیکنڈل کا راز فاش ہوا تو اس میں جن افسروں اور سیاست دانوں اور تاجروں کے نام آئے تھے اُن کی تعداد یقینا تین سو (ممکن ہے چار سو) سے زائد تھی۔ یہاں نواز شریف کو پاناما کیس کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک خلیجی ریاست میں اقامہ (ورک پرمٹ) حاصل کرنے پر سخت سزا دی گئی۔ آج تک کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ان سینکڑوں محب وطن اور ملکی قوانین کا دل و جان سے احترام کرنے والوں کا کیا بنا جن کا نام پانا ما سکینڈل میں آیا۔ بات صرف پاناما پر ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں سے شروع ہو کر دبئی میں کئی عمارتیں تعمیر کرانے والوں سے لے کرورجن آئی لینڈاورکے مین آئی لینڈ سے ہوتی ہوئی جنیوا کی جھیل کے چاروں طرف بنے ہوئے بینکوں میں رکھے جانے والے خفیہ اکائونٹس تک جاتی ہے۔
آپ تفتیشی عمل مکمل کرنے کے لیے بیرونِ ملک سفر کرنے کی زحمت نہیں اٹھانا چاہتے‘ نہ اٹھائیں۔ ایک پنجابی محاورے کے مطابق اپنی چارپائی کے نیچے لاٹھی گھمائیں۔ آپ کو وہاں سٹیل مل‘ پی آئی اے‘ پاکستان ریلوے اور ایسے بہت سے قومی اداروں کی تعفن زدہ لاشیں ملیں گی جو ایک زمانے میں سرکاری خزانے کو اربوں روپوں کی آمدنی اور ٹیکس دیتے تھے۔ پھر بدعنوان افسر اور سیاستدان ان کے گوشت پوست کو نوچ کر کھا گئے۔ اب یہ ہمارے اوپر اربوں روپوں کا بوجھ ہیں۔ آئی ایم ایف (جو بار بار ہر مالی بحران میں ہمیں فرسٹ ایڈ پہنچاتا ہے) کو گالیاں دینے میں ہم تھکتے نہیں۔ یہ خیراتی قرضے دینے والا اور ہمیں مصنوعی تنفس کے ذریعہ زندہ رکھنے والا مالیاتی ادارہ ہماری غربت کا ہر گز ذمہ دار نہیں ہے۔ اب آئی ایم ایف ہمیں درسِ اخلاق دیتا ہے تو یہ اس کا حق ہی نہیں‘ فرض بھی ہے۔
سوچیں کہ ہم معاشی طور پر کمزور ہوئے تو کیونکر؟ یہ وہ فصل ہے جو ہم نے خود بوئی ہے۔ 75برسوں کے بعد وہ فصل پک کر تیار ہو چکی ہے۔ اب اسے کاٹنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں