منحصر قرضے پہ ہو جس کی اُمید

غالبؔ کی ایک کمال کی غزل کے پہلے مصرع کے دوسرے لفظ کو تبدیل کرنے سے آج کے کالم کا عنوان بنا۔اُس دیدہ دلیری کے بعد کالم نگار کا حوصلہ اتنا بڑھا کہ اس نے دوسرے مصرع کا پہلا لفظ بھی بدل دیا: ؎
پُرامیدی اُس کی دیکھا چاہئے
مناسب ہوگا کہ غالبؔ کا اصل شعر یہاں درج کر کے ہم آگے بڑھیں۔ ؎
منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
نا اُمیّدی اُس کی دیکھا چاہئے
ہماری حکومت کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ اس لئے مندرجہ بالا شعر کے دونوں مصرعوں میں تبدیلی ضروری ہو گئی۔ بفضل تعالیٰ ہم زندہ قوم ہیں۔ زندہ رہنا جانتے ہیں اور ہم زندہ رہنے کے ڈھنگ بھی جانتے ہیں۔ چھوٹی چھو ٹی مشکلات (مثلاً دیوالیہ پن کا شدید خدشہ۔ بدترین معاشی بحران۔ تنخواہوں او رپنشن کی عدم ادائیگی۔ ضروری درآمدات کیلئے زرِمبادلہ کی عدم دستیابی۔ ہر لحظہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے روایتی گھریلو خاتون (سکینہ بیگم زوجہ اللہ دتہ) کیلئے دال خرید کر چولہا چلانے کے بجائے صرف اپنا دل جلانے پر اکتفا کرنا) کو ہم خاطر میں نہیں لاتے۔ ہمیں سکولوں میں ہمارے اساتذہ نے یہ شعر زبانی یاد کرا دیا تھا۔
؎ تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کیلئے
جب ہم اقبال کو اپنا پیرو مرشد مانتے ہیں تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اقبال کے حوالے سے ہمارا عقاب (شاہین) سے کسی نہ کسی قسم کا رشتہ قائم ہو گیا۔ غالب کی نااُمیدی اُنہیں اس حد تک لے گئی کہ انہوں نے موت کو اپنی اُمیدوں کا محور و مرکز بنا لیا۔ زندہ دلانِ پاکستان (جو فرزندانِ توحید ہونے کے بھی بجا طور پر دعویدار ہیں) وقتی مجبوریوں کے تحت اپنی متاعِ غرور کا ایک بار پھر سودا کر لیں تو کیا مضائقہ ہے؟ وہ اب اس کام میں 75 سال کی مہارت اور تجربہ کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ جس ملک کی آمرانہ حکومت نے اپنے مائی باپ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اور امریکی دبائو کے تحت پاکستان کی لاکھوں ایکڑ زرعی زمین کو ہزاروں سالوں سے سیراب کرنے والے چھ دریائوں میں سے تین بھارت کے ہاتھ نہ صرف فروخت کر دیے بلکہ وہ بھی محاورہ وائی کوڑیوں کے دام ۔
قومے فروختنہ وچہ ارزاں فروختند
ہم کشکولِ گدائی (جسے کئی سال پہلے توڑنے کی نیم دلی سے ناکام کوشش کی گئی تھی)لے کر مغربی سامراج کے ساہو کار (IMF)کے دروازوں پر ایک بلین ڈالر (زیادہ مل جائیں تو کیا کہنے) کی خیرات (اور وہ بھی بطور قرضہ) مانگنے کیلئے (پنجابی محاورہ کے مطابق) زمین پر ناک سے لکیریں لگا (یعنی کھینچ) رہے ہیں۔ شاید ہمارے موجودہ وزیر خزانہ (جو محض ایک عامAccountant ہیں اور دو اور دو جمع کرنے کے ماہر ہیں اور علم معاشیات کی الف ب بھی نہیں جانتے)سرکاری مصروفیات کے بوجھ تلے دب کر اپنا وہ بیان بھول گئے جو اُنہوں نے (غالباً2014ء میں) قومی اسمبلی میں دیا تھا اور وہ یہ تھا کہ ان کو ملنے والی مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی سرمایہ داروں کے سوئس بینکوں میں دو سو بلین ڈالر (چوری کا مال جو غیر قانونی طور پر Money Laundering کر کے بیرون ملک پہنچایا گیا) پڑے ہیں اور نئے (ترمیم شدہ) سوئس قانون کے تحت حکومت پاکستان اُس زرِخطیر کی بازیابی اور بحقِ سرکار ضبطی کا حق رکھتی ہے۔ وزیر خزانہ کا تجاہلِ عارفانہ بھی بے مثال ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اب یہ راز فاش ہو چکا ہے کہ دبئی میں پاکستانی شہریوں کی ملکیت میں اربوں ڈالر کی پراپرٹیز ہیں۔ وزیر خزانہ نے نہ آج تک پانامہ کا نام سنا ہے اور نہ وہاں چھپائے گئے سینکڑوں پاکستانیوں کے اربوں ڈالروں کی اُن کے کانوں میں بھنک پڑی ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ دنیا بھر میں سب سے نااہل ‘ نالائق اور کام چور قومی اسمبلی اور Senate کے اراکین پر ہر سال قومی خزانہ سے اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں حالانکہ وہ بجٹ کی کسی ایک صفحہ کی ایک سطر بھی نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔ کیا وہ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ وفاقی وزیروں کی فوج ظفر موج۔ اُن کو ملنے والی بلا جواز مراعات حفاظتی عملہ اور سیکورٹی کا قومی خزانہ پر ہر سال کتنے ارب روپے کا بوجھ بنتا ہے؟ اگر ہم وزیروں اور مشیروں (جو قومی خدمت کے جذ بہ سے سرشار ہونے کا بلند بانگ دعویٰ کرتے ہیں) کو ایک روپیہ بھی بطور تنخواہ دینا بند کر دیں تو کیا ان میں کسی وزیر‘مشیر کے گھر (جو سرکاری رہائش گاہ جتنا بھی شاندار ہوگا) میں چولہا سرد ہو جائے گا؟ سرکاری رہائش گاہ واپس لے لی جائے تو وزیر‘مشیر بے گھر ہو جائے گا اور کروڑوں سیلاب زدگان کی طرح بال بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے سڑک کے کنارے بیٹھنے پر مجبور ہو جائے گا؟ وزیر خزانہ کی اس غفلت کیلئے مجرمانہ کا اسم صفت استعمال کیا جا سکتا ہے کہ ان کی حکومت چوٹی کے صنعتی اور تجارتی اداروں کو اربوں روپے کی سرکاری رعایت(Subsidy) دیتی ہے۔ ہر سال سرکاری افسروں کے تبادلوں پر (اس رسم کا کسی آزاد ملک میں نام و نشان نہیں ملتا) ہر سال اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ غیر ملکی سرکاری دوروں (جو محض سیر و سیاحت اور شوقِ خریداری کو پورا کرنے کے لیے کئے جاتے ہیں) پر خرچ (بالکل ضائع) ہو جانے والے کروڑوں ڈالر بھی خسارہ دینے والے اسباب میں جمع کر لیں۔ پی آئی اے ہو یا سٹیل مل یا ریلوے۔ یا نیو یارک میں روز ویلٹ ہوٹل ۔ ایک زمانہ وہ تھا جب یہ سارے قومی ادارے منافع بخش تھے۔ پھر نالائقی اور بدترین اور کرپشن کی دیمک نے انہیں اتنا کھوکھلا کر دیا کہ وہ سالانہ اربوں روپے کا خسارہ دینے کا باعث بن گئے۔ (انگریزی محاورہ کے مطابق) جب ہماری گردن کو کئی ٹن وزنی کنکریٹ کا بوجھ اُٹھانا پڑا تو اس عالم میں ہم ایک چھوٹی سی ندی کو بھی تیر کر عبور کر سکیں تو کیونکر؟ اگست 1947 ء میں معرضِ وجود میں آنے والے ملک کا خزانہ خالی تھا۔ نظام آف حیدر آباد اورنواب آف بہاول پور کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے بڑے نازک وقت میں ہمارا ہاتھ تھاما ۔ ہمارا پہلا قومی بجٹ بھی خسارے کا نہ تھا (جو ایک لمبے عرصہ سے مسلسل چلا آرہا ہے) اور ہمارے اُوپر کسی غیر ملکی قرضہ کے ایک ڈالر کا بھی بوجھ نہ تھا۔ کیا پاکستانی عوام کو یہ حق نہیں کہ اُنہیں سرکاری ترجمان (یا ماہرین معیشت) بتائیں کہ وہ کون سا سال تھا جب ہم نے خسارہ کی دلدل میں پہلا قدم رکھا؟ درآمدات کو برآمدات سے بڑھنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ ایک زرعی ملک نے گندم‘خوردنی تیل اور کپاس درآمد کرنی کب شروع کی؟ توانائی کے شعبہ میں اربوں روپے کے گردشی قرضہ کی لعنت کے ہم کب پہلی بار شکار ہوئے اور کیوں؟ ہمارے ماہرین کو بچے کچھے تین دریائوں‘ نہروں اور ندیوں سے پن بجلی اور سارا سال چمکنے والے سورج سے شمسی توانائی حاصل کرنے کا خیال کیوں نہ آیا؟ ہم نے چین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بھارت کے ساتھ اپنے کشمیر پر شدید اختلافات کوایک طرف رکھتے ہوئے‘ دو طرفہ تجارت کیوں شروع نہیں کی؟ ہم نے اپنی معیشت کو دستاویزی بنانے اور لاکھوں دکانداروں سے ٹیکس وصول کرنے کیلئے کون سے ٹھوس اقدامات اُٹھائے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ وسیع پیمانے پر بجلی کی چوری کی وجہ سے بجلی کے ہر تین صارف چوتھے نادہندہ کا بل بھی ادا کرنے پر مجبور ہیں؟نمازیں پڑھنے‘ روزے رکھنے‘ لوگ ہر سطح پر ہر طرح کی بدعنوانی‘رشوت ستانی‘ کرپشن یا بے ایمانی کریں گے تو اُن کا وہی برُا حال ہوگا جو ہمارا ہو چکا ہے اور مزید ہونے والا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں