کاش کہ ایک ذہنی زلزلہ آئے

وہ زلزلہ جو ہمارے دیمک زدہ‘ بھوسے سے بھرے ہوئے‘ لکیر کے فقیر‘ طرزِ کہن پر اَڑنے اور آئینِ نو سے ڈرنے والے‘ فرسودہ خیالات اور دقیانوسی نظریات کے گردو غبار میں اَٹے ہوئے‘ مردہ تہذیبی اقدار اور گزرے ہوئے کل میں اپنے پرانے طور اطوار‘ طرزِ بود و باش کو کُل سمجھنے والے دماغ کی ہر دیوار کو گرا دے۔ یہ زلزلہ لمحۂ موجود میں تیسری دنیا کے ہر ملک بالخصوص اسلامی ممالک کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ قدیم مزاروں کے مجاور عصرِ حاضر میں بے وقت کی راگنی الاپ رہے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں تاریخ لکھنے والے ان کے لیے کون سے موزوں ترین مقام کا تعین کریں گے؟
کالم کے محدود الفاظ میں اسلامی ممالک کی انفرادی و اجتماعی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور معاشی زندگی میں دقیانوسیت کے صدیوں قبل ختم ہو جانے کی لگی ہوئی گہری چھاپ کا نہ جائزہ لیا جا سکتا ہے اور نہ اُس پر کوئی تبصرہ یا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ ہماری یہ کمزوری ہمیں لے ڈوبی‘ حتیٰ کہ ترکی اور شام میں آنے والے اور 18برس پہلے پاکستان اور آزاد کشمیر میں آنے والے اور بستیوں کی بستیوں کو تباہ و برباد کر دینے والے قیامت خیز زلزلے بھی ہمیں خوابِ غفلت سے جگانے میں ناکام رہے۔ یہ زلزلے بھی ہماری توجہ ہمارے ناقص ترین طرزِ تعمیر کی طرف نہ دلا سکے۔ کیا متاثرینِ زلزلہ کو بھولے سے بھی یہ خیال آیا ہوگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم رہتے تو زمین کے اس خطہ میں ہیں جہاں زیر زمین فالٹ لائنز کی وجہ سے زلزلے باقاعدگی سے آتے رہتے ہیں‘ لیکن ہمارے طرزِ تعمیر میں زلزلے کو سرے سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ شمالی جاپان میں آئے روز چھوٹے چھوٹے زلزلے آتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار بہت بڑے بھی مگر وہاں عمارتیں کیوں نہیں گرتیں‘ وہاں جانی نقصان زیادہ کیوں نہیں ہوتا؟ جاپان میں ترکی‘ شام‘ ایران اور پاکستان کی طرح صف ماتم کیوں نہیں بچھتی؟ ہمیں اپنے مکانوں کی دیواروں اور چھتوں کے نیچے دَب کر مرجانا قبول ہے مگر یہ سوچنا ہمارے اوپر حرام ہے کہ زلزلوں کا عذاب صرف ہمارے اوپر یا ہمارے جیسے ممالک کے اوپر ہی کیوں نازل ہوتا ہے؟ آخر کوئی وجہ تو ہوگی۔ مندرجہ بالا تمام آفت زدہ ممالک میں‘ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ماہرِ تعمیرات ضرور ہوں گے۔ انجینئرنگ کی اعلیٰ درس گاہیں بھی ہیں۔ سینکڑوں میں نہیں تو درجنوں میں ہیں۔ بہت سالوں سے ہیں۔ کیا وہاں پڑھانے والے اساتذہ یا وہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے کسی ایک طالب علم کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ہمیں مخاطب کر کے بتائے اور سمجھائے کہ بھائی جان! برائے مہربانی اس طرح کے مکان بنائیں جو زلزلے میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر آپ کے اوپر نہ گر جائیں۔ یا ایسے مکان نہ بنائیں جو آپ کی زندگی کا ضامن اور رکھوالا ہونے کے بجائے وہی آپ کی موت کا سبب بن جائیں۔ اس کالم نگار کا فنِ تعمیر کے بارے میں علم صفر کے قریب ہے مگر اپنے مشاہدہ کی بنیاد پر پورے وثوق سے لکھ سکتا ہے کہ برطانیہ میں جو مکان بھی گزری ہوئی ایک صدی میں بنا ہے‘ اس کی ہر بیرونی دیوار دہری یعنی ڈبل ہوتی ہے اور دونوں دیواروں کے درمیان خالی جگہ کو اس مواد (مثلاًFoam) سے بھرا جاتا ہے جو عمارت کو Insulate کر دیتا ہے۔ یعنی نہ دیواروں سے سردی گزر سکتی ہے اور نہ گرمی۔ چلئے یہ تو سہولت کی بات ہوئی۔ اس کا زندگی موت سے کوئی تعلق نہیں۔ آئیے اب ہم ہر تعمیر کی بنیادوں کی طرف چلتے ہیں۔ اس کا مجھے تب پتا چلا جب میں نے لندن کارپوریشن سے (بصد مشکل) گھر کے ساتھ جڑے ہوئے ایک اضافی کمرہ کی اجازت مانگی۔ اجازت تو مل گئی مگر درجنوں کڑی شرائط کے ساتھ۔ سب سے اہم اور آج کے موضوع کے حوالہ سے قابلِ ذکر شرط یہ تھی کہ اگر کمرہ کی دیواریں بارہ فٹ بلند ہوں گی تو ان کی بنیادیں چھ فٹ گہری ہوں گی اور وہ کنکریٹ سے بھری جائیں گی۔ اس حساب سے اگر عمارت کی بلندی 120فٹ (دس منزلوں کی صورت میں) ہو تو بنیادوں کی گہرائی 60فٹ ہو گی۔ آپ نے غور فرمایا کہ قانوناً بنیادوں کی گہرائی عمارت کی بلندی سے (کم از کم ) نصف ہوتی ہے اور وہ بھی کنکریٹ سے بھری جانے والی جن پر کھڑی عمارت کو اس طرح فولادی ستونوں کے ساتھ نصب کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مضبوطی اور پائیداری کے باوصف زلزلوں کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر یہ سچ ہے کہ جاپان کی نقل کرتے ہوئے برطانیہ میں بھی ایسی بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں جو ایک فولادی پلیٹ فارم پر کھڑی ہیں اور پلیٹ فارم کے نیچے اتنے زبردست پہیے لگائے گئے ہیں کہ وہ زلزلہ کے جھٹکوں سے ادھر اُدھر ہلتی رہتی ہیں مگر کسی صورت منہدم ہو جانے کی نوبت نہیں آتی۔
دیواروں اور بنیادوں کے تذکرے کے بعد ہم چھتوں کی طرف چلتے ہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں چھت میں لکڑی‘ مضبوط ہارڈ بورڈ‘ گھاس پھوس اور ٹائلز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ چھت گر پڑے تو کوئی ہلاک تو کجا زخمی تک نہیں ہوتا۔ ادھر ہم ہیں کہ مکان کی چھت اس طرح بنواتے ہیں جیسے دشمن کے ہوائی حملہ سے بچائو کی پناہ گاہ ہو۔ کنکریٹ اور لوہے کی سلاخوں سے بھری ہوئی۔ اگر وہ گرِ جائے (زلزلہ کی صورت میں چھت بہت جلد اور بڑی آسانی سے گر جاتی ہے) تو پھر اس کے نیچے بیٹھے ہوئے یا سوئے ہوئے لوگوں کے زندہ بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ ہم لکڑی اور ہارڈ بورڈ کی چھتیں بنا کر اپنے آپ کو زلزلوں سے ہونے والے انسانی جانوں کے ضیاع اور اتنے عظیم المیے سے کیوں نہیں بچا سکتے؟
اس سے بڑی دکھ بھری اور مہلک حماقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ زلزلوں نے جن ہزاروں عمارتوں کو گرایا‘ ہزاروں افراد کی جان لی‘ ہم ملبہ کو ہٹا کر گرے ہوئے مکانوں کی جگہ پھر اسی طرح کے بدترین اور مہلک طرزِ تعمیر کے مکان بنا لیں جو پہلے بھی قیامت خیز تباہی کے ذمہ دار بنے تھے۔ حدیث پاک ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔ ہم مومن ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن کئی صدیوں سے ایک ہی سوراخ (انتہائی ناقص‘ نامناسب اور جان لیوا عمارتوں کی تعمیر) سے بار بار ڈسے جانے پر اصرار کرتے چلے آئے ہیں۔ جو قوم اس حد تک عقل سے عاری ہو کہ وہ زلزلوں سے آنے والی تباہی کی روک تھام کے لیے Earthquake Proof مکان نہ بنا سکے‘ جاپان کے نقش قدم پر چل کر اس سے ایک انتہائی قیمتی اور جان بچائو سبق نہ سیکھے‘ وہ انگریز کے بنائے ہوئے قوانین کو 75سال گزر جانے کے بعد بھی اپنائے رکھے‘ اپنے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اردو کو سرکاری زبان نہ بنائے‘ بچوں کے سکولوں میں مادری زبان نہ پڑھائے‘ انگریز کے بنائے ہوئے چار صوبوں کو مقدس اکائیاں سمجھے‘ خسارے میں جانے والے قومی اداروں کو وہاں کام کرنے والوں کی ملکیت میں نہ دے‘ لاکھوں بے زمین کسانوں میں کروڑوں ایکڑ غیر آباد زمین کو تقسیم نہ کرے‘ سرکاری ملازمین کے تبادلوں پر اربوں روپے صرف کرے‘ سینکڑوں بدعنوان اور نالائق وزیروں اور مشیروں کو ہر ماہ کروڑوں روپوں کی تنخواہ اور ناجائز مراعات دے‘ 99 فیصد عوام پر ایک فیصد طبقہ کی بالادستی قائم رکھے‘ ہر سال یومِ آزادی منائے مگر ملک میں نہ انسانی حقوق کا احترام ہو‘ نہ قانون کی حکمرانی‘ نہ سلطانیٔ جمہور اور نہ قوتِ اُخوت عوام کی بالادستی تو اس صورتحال پر رویا تو جا سکتا ہے مگر یہ مقامِ حیرت ہر گز نہیں۔ آئیے مل کر دعا مانگیں کہ کاش ہمارے فرسودہ دماغوں میں ایک زلزلہ آئے اور وہ بھی ایسا کہ اس سے ہمارے بھاگ جاگ اُٹھیں۔ کیونکہ بقول اقبال ع
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں