قائداعظم کے پہلے چار جانشین … (1)

قائداعظم کے پہلے چار جانشینوں کا ذکر تو باری باری کیا جائے گا مگر سب سے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ دوسرا جانشین شدید بیمار ہونے کے باوجود سرابرہِ مملکت بنا رہا۔ ہمارے آج کے حکمران تو بالکل صحت مند ہیں مگر ہمارا پیارا ملک مفلوج کر رہے ہیں۔ کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جو صحت مند ہو۔ ہم نے ان گزرے ہوئے 75برسوں میں جو سفر طے کیا ہے‘ جن مراحل سے گزرے ہیں‘ اس کی کئی وجوہات ہیں مگر ہمیں اس حالت میں پہنچانے میں جن لوگوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے‘ وہ پہلے 22برسوں (1947-69ء) میں ہمارے سیاسی اور معاشی نظام کو اپنے اپنے حصے کا ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر منظر سے غائب ہوتے گئے۔ انہوں نے وہ کاری ضربیں لگائیں کہ ان کے لگائے گہرے زخم 75 برسوں میں بھی مندمل نہیں ہو سکے اور غالباًکسی ہمہ گیر عوامی انقلاب کے آنے تک مندمل نہ ہو سکیں گے۔ جس کے بدقسمتی سے اس وقت دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ابھی نہ جانے ہمارے اوپر اور کون سے نئے اور بڑے عتاب نازل ہوں گے۔ ابھی ہمیں ہمارے اجتماعی سماجی گناہوں کی اور کتنی سخت سزا ملے گی۔ اس دکھ بھری اور رلا دینے والی داستان کو شروع کرتے ہیں اپنے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سے۔ وہ زیارت میں قائداعظم کی تیمار داری کے لیے گئے تو قائد نے اپنے ڈاکٹروں کو ان کی خرابیٔ صحت کی اصل صورت حال بتانے سے منع کر دیا اور اپنی بہن کو کہا کہ یہ کراچی سے زیارت کا سفر کرکے محض اس لیے آئے ہیں تاکہ انہیں پتا چل سکے کہ میں اور کتنا عرصہ زندہ رہوں گا۔ جب قائداعظم کا آخری وقت قریب آیا تو ان کے معالجین نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں خصوصی پرواز سے کوئٹہ سے کراچی لے جائیں۔ قائداعظم اور مس فاطمہ جناح اور ڈاکٹروں کی ٹیم کراچی پہنچی تو ان کے استقبال کے لیے وہاں نہ تو وزیراعظم تھے اور نہ کوئی وزیر اور نہ ہی کوئی سرکاری افسر۔ جو ایمبولینس قائداعظم اور مادرِ ملت کو لے کر روانہ ہوئی وہ انجن کی خرابی کی وجہ سے تھوڑا سا فاصلہ طے کر کے کھڑی ہوگئی۔ متبادل ایمبولینس موجود نہ تھی اور وہ جب تک نہ آئی‘ قائداعظم پسینے میں شرابور رہے۔ انہیں ان کی بہن نے ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر سڑک پر لٹایا اور اخبار کا پنکھا بنا کر قائداعظم کے چہرے سے پسینہ خشک کیا۔ پاکستان بنانے والے سے یہ ناروا سلوک کئی سوالات کو جنم دے گیا۔
لیاقت علی خان قائداعظم کی زندگی میں ہی قیادت کی اگلی صفوں میں جگہ بنا چکے تھے مگرقائداعظم کی وفات کے بعد وہ اوجِ کمال تک پہنچے۔ روسی حکومت کا دعوت نامہ نظر انداز کرکے لیاقت علی خان امریکہ کا پہلے سرکاری دورہ کیا۔ امریکہ میں ان کا بڑی دھوم دھام سے استقبال کیا گیا جس سے پاکستان کو امریکہ کا قریبی اتحادی بننے کی کوشش کرنے میں مزید آسانی پیدا ہو گئی۔ یوں یہ طویل عمل‘ شناسائی سے اتحادی بننے کے مراحل طے کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا جو بعد میں امریکہ کی سیاسی‘ عسکری اور معاشی شراکت کی صورت اختیار کر گیا اور 2023ء میں ہمیں دھکیلتا ہوا وہاں لے آیا ہے جہاں سے نہ ہم بھاگ سکتے ہیں اور نہ ٹھہر سکتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد پہلا عام انتخاب پنجاب میں ہوا۔ جس میں دھن‘ دھونس اور دھاندلی کا استعمال کیا گیا۔ لاہور کے ایک حلقۂ انتخاب کی مثال دینا کافی ہوگا۔ ریلوے مزدور اپنے محبوب رہنما مرزا ابراہیم کو ووٹ ڈالتے تھے مگر نکلتے وہ احمد سعید کرمانی کے ڈبے سے تھے۔ یہ تھا پاکستان میں جمہوری دور کا شرمناک آغاز۔ جب جاہ پرست ٹولے کے افراد نے دیکھا کہ ان کے اقتدار پر مکمل قبضہ میں صرف لیاقت علی خان ہی حائل ہیں تو اُنہوں نے اسے راولپنڈی کے ایک بڑے باغ میں ہونے والے جلسہ عام میں دن دہاڑے قتل کرا دیا۔ یہ وہی باغ ہے جسے اب لیاقت باغ کہا جاتا ہے۔ جہاں بہت سال گزر جانے کے بعد سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ قائداعظم کی وفات کے بعد حکمران ٹولے نے خواجہ ناظم الدین کو دوسرا سربراہِ مملکت (گورنر جنرل) بنایا۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد اسی مردِ شریف کو اعلیٰ منصب سے نیچے کی طرف دھکیل کر اگلا وزیراعظم بنایا گیا۔ صرف محلاتی سازش کرکے اور دستور ساز اسمبلی کو فیصلہ سازی میں شریک ہونے کی زحمت دیے بغیر۔ ملک غلام محمد نے اپنے آپ کو اگلا گورنر جنرل بنوا لیا اور اگلے چار برس (1951 تا 1955ء) ہمارا حکمرانِ اعلیٰ بنا رہا۔
قیامِ پاکستان سے پہلے ملک صاحب برٹش راج کی آڈٹ اینڈ اکائونٹ سروس میں بھرتی ہوئے اور ترقی کرتے کرتے پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ بن گئے اور وہاں سے ترقی کرکے ہمارے تیسرے سربراہِ مملکت۔ آج تک یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ انہیں اس عہدے پر انہیں کس نے تعینات کیا۔ ملک صاحب کا ارادہ یقینا کئی سال تخت نشین رہنے کا تھا مگر فالج کے حملہ نے کام بگاڑ دیا۔ وزیراعظم کو غیرقانونی طور پر برطرف کرنے‘ دستور ساز اسمبلی کو غیر آئینی حکم سے تحلیل کرنے اور عدالتِ عظمیٰ سے اس حکم پر انگوٹھا لگوا لینے کے بعد ملک غلام محمد نے جارحانہ رویہ اختیار کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی۔ اس کالم کے قارئین پہلے بھی یہ پڑھ چکے ہیں کہ ملک غلام محمد کا مفلوج ہو کر اپاہج ہو جانا ان کی سرکاری کارکردگی میں بالکل حائل نہ ہوا۔ پاکستان کے بہترین دوست امریکہ نے ایک امریکی خاتون کو گورنر جنرل کا ذاتی سیکرٹری‘ ترجمان اور معتمد اعلیٰ بنوا دیا۔ آپ کو شاید اعتبار نہ آئے مگر سچائی یہ ہے کہ قریباً ایک برس مذکورہ بالا امریکی خاتون نے پاکستان کی حکومت چلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ گورنر جنرل (مفلوج ہو جانے کے بعد) نہ چل پھر سکتے تھے اور نہ بول سکتے تھے۔ وہ اپنے بستر پر لیٹے ہوئے ناقابل فہم آوازیں نکالتے تھے۔ ان کی سیکرٹری ان آوازوں کو سن کر ساتھ والے کمرے میں بیٹھے ہوئے کابینہ کے اراکین کو جا کر بتا دیتی تھی کہ گورنر جنرل نے کیا ہدایات دی ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا اور غالباً نہ ہوگا مگر مملکتِ خداداد پاکستان میں یہ ہوا اور کم از کم ایک سال ہوتا رہا۔ اس تاریخی حقیقت کے پیش نظر یہ بجا طور پر لکھا جا سکتا ہے کہ ملک غلام محمد کے چار سالہ دورِ حکومت نے ہمارے سیاسی اور معاشی تابوت میں دوسرا بڑا کیل ٹھونکا۔ 75سال گزر جانے کے بعد (اور 1971 ء میں آدھا ملک گنوانے کے بعد) ہم آج جو فصل کاٹ رہے ہیں‘ وہ پہلے لیاقت علی خان اور ملک غلام محمد اور ان کے بعد ان کے جانشینوں (اسکندر مرزا اور ایوب خان) نے لوٹی۔ پہلا دور گیارہ برس (1947 تا 1958ء) اور دوسرا بھی گیارہ برس (1958 تا 1969ء) پر محیط ہے۔
گورنر جنرل کے ریفرنس نمبر 1955 پر فیڈرل کورٹ کے قانون کی روشنی میں ملک غلام محمد نے ایک آرڈیننس میں نئی مجلسِ دستور ساز قائم کرنے کا اعلان کیا جس کے اراکین کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں کو کرنا تھا۔ گورنر جنرل (ملک غلام محمد) اس فیصلے پر ہر گز خوش نہ تھے کیونکہ وہ ایسے دستوری کنونشن کا قیام چاہتے تھے جس کے اراکین کو نامزد کرنے کا اختیار خود ان کے پاس ہو اور یہ اراکین انہیں اپنے آقا کا درجہ دے کر ان کی خدمت کرتے رہیں۔ اقتدار کی یہ خواہش بیماری کے حالت میں بھی گورنر جنرل کے دل پر پوری طرح چھائی ہوئی تھی۔ باقی کی کہانی اگلے کالم میں لکھی جائے گی اور وہ بھی گورنر جنرل کے پرنسپل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کی زبانی‘ جو ان کی سوانح حیات (شہاب نامہ) میں درج ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں