ایک بڑا عقوبت خانہ

ایک بڑا عقوبت خانہ! آپ پوچھیں گے کتنا بڑا؟ جواب یہ ہے: دُنیا کے بڑے دس ممالک میں سے ایک جتنا بڑا۔ پہاڑوں‘ میدانوں اور صحرائوں سے لے کر ساحلِ سمندر تک۔ شہروں‘ قصبوں اور دیہات پہ محیط۔ کروڑوں افراد کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے۔ دُوسرا سوال یہ ہو گا کہ اس عقوبت خانے کی کتنی عمر ہے؟ یہ کتنے سال پرانا ہے؟ اس کا جواب نہ سالوں میں دیا جا سکتا ہے اور نہ صدیوں میں۔ یہ ہزاروں سال قدیم ہے۔ ہندوستان پر (قبل از تاریخ دور میں) وسط ایشیا سے آریائی (Aryan) نسل کے قبائل کے جارحانہ حملہ سے ہندوستان کی سرزمین ایک پُرامن‘ خوش و خرم اور خوشحال دور سے نکال کر (بزور شمشیر) ایک بہت بڑے عقوبت خانے میں تبدیل کر دی گئی۔ وہ منحوس دن اور آج کا دن‘ کئی دور آئے اور گزر گئے‘ اس عقوبت خانے کی باگ ڈور مختلف شاہی خاندانوں کے ہاتھوں میں آتی اور جاتی رہی۔ سیاسی نظام پر لگے ہوئے لیبل بدلتے رہے مگر اس کی نوعیت نہ بدلی۔ اہرامِ مصر کی طرح مخروطی چوٹی پر حکمران اور درمیان میں حکمرانوں کے کارندے اور بنیاد میں کروڑوں انسان۔ بے بس‘ بے آواز‘ لاچار‘ ستم رسیدہ انسان! جو طرح طرح کی اذیت کا شکار ہیں۔ غربت کا عذاب کیا کم تھا کہ اس میں حکمرانوں کے اہلکاروں کے ہاتھوں تشدد کا عنصر بھی شامل ہو گیا۔ انسانوں کو حشرات الارض کا درجہ دیا گیا۔ بہت لحاظ کریں تو 'رعایا‘ کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں۔ انہیں عوام کہنا ان پر تہمت لگانے کے مترادف ہو گا‘ بدترین مبالغہ آرائی ہو گی! بال جبریل (علامہ اقبال کا پہلا مجموعہ کلام) میں چیونٹی اور عقاب کے مکالے میں بیان کردہ چیونٹی کی طرح‘ اِن کی ساری عمر خاکِ راہ میں اپنا رزق ڈھونڈنے میں گزر جاتی ہے۔
ایک صدی پہلے پنجاب میں کسانوں کی ایک تحریک چلی تھی جس میں ایک نعرہ بلند کیا گیا تھا: ''پگڑی سنبھال جٹا‘‘۔ مٹی میں گرا ہوا جاٹ‘ جس کے ہاتھ زخمی ہوں اور پائوں میں چھالے‘ وہ اپنی گرد آلود پگڑی سنبھالے تو کیونکر؟ 75 سال پہلے کی بات ہے کہ انگریز کا راج تھا اور گورنر صاحب بہادر کے رُعب و دبدبے کا یہ عالم تھا کہ کسی گائوں سے جرم کے ارتکاب یا نقضِ امن کی خبر آتی تو تھانہ سے ایک (صرف ایک) سپاہی اُس گائوں جاتا اور ہتھے چڑھ جانے والے تمام لوگوں کے ہاتھ اُن کی پشت پر ان کی اپنی ہی پگڑی سے باندھ کر اُنہیں مال مویشی کی طرح ہانک کر تھانے لے جاتا اور حوالات میں بند کر دیتا۔ پگڑی سے ہی ہتھکڑی کا کام لیا جاتا تھا۔ پگڑی کی یہ بے حُرمتی دیکھ کر کسانوں (اور جاٹوں نے) سر پر پگڑی باندھنے کی صدیوں پرانی رسم کو رضا کارانہ طور پر ترک کر دیا۔ اب معززین گھر سے باہر جاتے ہیں تو ننگے سر ہوتے ہیں۔ نہ ٹوپی نہ پگڑی! یہاں تک کہ نماز بھی ننگے سر ہی پڑھ لیتے ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ اہلِ وطن (شہری ہوں یا دیہاتی) ایک صدی کے اندر اندر اس سے زیادہ ترقی کے کون سے مراحل طے کرتے یا کر سکتے تھے؟ آپ انصاف سے فیصلہ کریں۔
بات شروع کہاں سے ہوئی تھی اور کون کونسے موڑ کاٹتی ہوئی کہاں جا پہنچی۔ کالم نگار (اپنے بڑھاپے کا جواز پیش کر کے) معذرت خواہ ہے۔ آپ نے ضرور مشاہدہ کیا ہو گا کہ میری طرح کے بزرگ بات قطب شمالی سے شروع کریں تو چلتے چلتے قطب جنوبی پہنچ جاتے ہیں۔ اب وہ زمانہ گیا جب بوڑھا بزرگ باتیں کرتے کرتے خود سو جاتا تھا اور سامعین ذوق و شوق سے اُس کی قصہ گوئی سنتے رہتے تھے‘ ہمہ تن گوش ہو کر۔ اب میری طرح کے بوڑھوں کی باتیں خود کلامی کے زمرے میں آتی ہیں ۔ میں اس اُمید پر دس سالوں سے یہ کالم لکھ رہا ہوں کہ اگر قسمت نے یاوری کی تو اُسے چند افراد ضرور پڑھ لیں گے۔ چار دانگ عالم میں‘ انٹرنیٹ کی بدولت‘ قارئین کڑی تنقید کریں یا تعریف‘ میں دونوں صورتوں میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس طویل تمہید کے بعد اب کام کی بات (پنجابی میں وچلی گل) کی طرف چلتے ہیں۔
پاکستان میں رہنے والا ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ ہمارے ملک میں جسمانی تشدد اور اذیت رسانی کے دو سکہ بند مراکز ہیں۔ ایک سکول و مدارس اور دوسرا‘ تھانے۔ اپنے مدرسوں اور سرکاری سکولوں میں اساتذہ اپنے طالب علموں (جن کی عمریں پانچ اور پندرہ سال کے درمیان ہوتی ہیں) کو تھپڑ مارنے‘ مرغا بنانے اور چھڑی سے بے دریغ اور بے تحاشا مارنے (قطع نظر کہ بچے کے جسم کے کون سے حصے پر 'عنایت اُستادی‘ کی بارش ہو رہی ہے) کے بغیر سارا دن تعلیم و تدریس جیسے مقدس پیشے میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو سرانجام دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بچوں کو پرائمری سکولوں سے ہی اساتذہ کی مارپیٹ اور ایذا رسانی کے عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ ہائی سکول جانے کا مرحلہ آنے تک اساتذہ کے تشدد کے اتنے ہی عادی ہو جاتے ہیں‘ جتنے تھانوں میں پولیس کے تشدد کو برداشت کرنے والے پیشہ ور اور جرم کا اعتراف نہ کرنے والے عادی مجرم۔ میرے پاس نہ کوئی اعداد و شمار ہیں اور نہ ہی کوئی تحقیقی رپورٹ جس کی روشنی میں وثوق سے لکھ سکوں کہ مدرسوں میں سرکاری سکولوں کے مقابلے میں اساتذہ طلبہ پر زیادہ تشدد کرتے ہیں؛ تاہم ایک گمان یا قیاس یہی ہے۔ قارئین ضرور جانتے ہوں گے کہ سارے یورپی ممالک کی طرح برطانیہ میں نہ اساتذہ بچوں پر جسمانی یا ذہنی تشدد کر سکتے ہیں اور نہ والدین۔ اگر وہ ایسا کریں تو وہ جرم کے مرتکب ہوں گے۔ پولیس اُنہیں گرفتار کر لے گی اور عدالت اُنہیں (جرم کی سنگینی کے لحاظ سے) سزا دے گی۔ پہلے صرف وارننگ! دُوسری بار جرمانہ اور تیسری بار قید۔
26 جون کا دن آیا اور گزر گیا‘ شاید ہی میرے کسی ہم وطن کا اس طرف دھیان گیا ہو کہ وہ اقوام متحدہ کے تحت اذیت رسانی کی مذمت کا دن (International Day in Support of Victims of Torture) تھا‘ جو دنیا بھر میں منایا گیا۔ یہ وہ تاریخ ہے جب بین الاقوامی برادری نے (اقوام متحدہ کے پرچم تلے) 1987ء میں ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ہر شہری کو ہر قسم کی اذیت رسانی سے قانونی طور پر محفوظ کیا گیا تھا۔ اس معاہدے (کنونشن) کی روشنی میں اور اس کے مندرجات کو قانونی طور پر نافذ العمل کرنے کے لیے پچھلے برس ہماری پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا تھا جس کا نام تھا Torture and Custodial Death (Prevention and. Punishment) Act, 2022۔ اس قانون کا وہ بھی وہی حال ہوا‘ جو سابق چیف جسٹس جواد خواجہ صاحب کے اُردو کو سرکاری زبان بنانے (جو آئین کے تحت 1988ء تک ضرور ہو جانا چاہئے تھا) کے فیصلے کا ہوا۔ (یہ فیصلہ بھی اُردو میں لکھا گیا تھا)۔ آپ نے غور فرمایا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں نہ آئین کا احترام ہے نہ قانون کی حکمرانی۔ پارلیمان کے منظور شدہ قوانین ہوں یا سپریم کورٹ (اعلیٰ ترین عدالت) کے فیصلے‘ اُنہیں پرکاہ (گھاس پھوس) جتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ یعنی صفر! نچلے‘ متوسط اور غریب طبقے کے قریباً ہر گھر میں بچوں سے ملازم کا کام لیا جاتا ہے (گھر سے باہر اکیلی جانے والی اکثر بچیاں اغوا کر لی جاتی ہیں‘ ریپ کی جاتی ہیں اورکئی بار قتل بھی)۔ بچوں خصوصاً لڑکوں کو والدین جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ بچے سکول جائیں تو وہاں اساتذہ ان پر فراخ دلی سے ڈنڈے برساتے ہیں۔ وہ بڑے ہوں اور پولیس اُنہیں کسی جرم کے ارتکاب کے شبہے میں پکڑ لے تو پھر ان پر تھانوں میں اتنا تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ بے گناہ اور معصوم ہونے کے باوجود جرائم کے ارتکاب کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ پاکستان میں کل دو ہزار تھانے ہیں اور ہر ایک تھانے میں اوسطاً دس افراد حوالات میں بند ہیں تو روزانہ 20 سے 25 ہزار افراد (دوبارہ کہتا ہوں روزانہ) بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔ کیا یہ ہم سب کیلئے لمحۂ فکریہ نہیں کہ کوئی بھی بااثر طبقہ اس ہمہ گیر تشدد کی مذمت کیلئے ایک لفظ بھی نہیں کہتا۔ ہزاروں خاوند اپنی بیویوں پر باقاعدگی سے جو تشدد کرتے ہیں وہ ایک علیحدہ درد ناک اور رُلا دینے والی داستان ہے۔ پاکیٔ داماں کی حکایت کو مملکتِ خداداد میں بہت بڑھایا جاتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم رُک کر اپنے دامن اور بندِ قبا کو دیکھیں جو خون اور تشدد کا نشانہ بننے والوں کے آنسوئوں سے داغدار ہے۔ آئیے ہم اپنی اصلاح کریں اور مہذب دُنیا میں شامل ہونے کی طرف پہلا قدم بڑھائیں۔ اس سے ہماری دُنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں