آوازِ خلق

کالم نگار یہ نہیں جانتا اگرآپ نے ابھی تک غور کیا یا نہیں کہ ہمارے ہاں زیادہ تر کن موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے؟ کن مسائل کو اہمیت دی جاتی ہے؟ کن طبقات کے مفادات کی ترجمانی کی جاتی ہے؟ ہماری قومی زندگی کے کون سے پہلوہائی لائٹ کیے جاتے ہیں اور کون سے سپاٹ لائٹ کے مستحق ٹھہرائے جاتے ہیں؟ براہِ مہربانی درج ذیل سطور پڑھ کر اور اپنے قیمتی وقت سے چند لمحات نکال کر اس کالم نگار کی معروضات پر ضرور غور فرمائیں کہ ہم خبروں میں جو کچھ روز پڑھتے ہیں اورجو مناظر دیکھتے ہیں‘ اُن کا تعلق صرف ہمارے حکمران طبقہ (ایک فیصد آبادی کا ایک فیصد) کی کارروائیوں‘ سرگرمیوں‘اس طبقے کے افراد کے درمیان صلح صفائی یا لڑائی‘ اقتدار کے سورج کے طلوع و غروب ہونے‘ دیومالائی فرضی پرندے ہما (جو جس کے سر پر بیٹھ جائے اس کو تخت مل جاتا ہے) کی پروازوں کی تفصیلات سے ہوتا ہے۔
افتادگانِ خاک(آبادی کا 99 فیصد حصہ) نہ صرف بے بس‘ بے کس‘ لاچار اور ناتواں ہوتے ہیں بلکہ بے آواز بھی۔ خبروں کا موضوع بننے کے لیے آپ کا محاورہ کی زبان میں ''چوٹی کے تین افراد‘‘ میں ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ تین میں نہیں تو آپ کوئی نہ کوئی جتن کر کے چوٹی کے 13 میں ہی شامل ہو جائیں‘ آپ کا نام ایک پنجابی کہاوت کے مطابق سرکار کے کاغذوں میں آجائے گا۔
گلگت کے گڈریوں‘ پنجاب میں چاول، کپاس اور گنا کے کاشتکاروں‘ سندھ کے ہاریوں اور بلوچستان کے ماہی گیروں‘ جیلوں میں قید ہزاروں افراد (جو محض جرمانہ ادا نہ کرسکنے کے جرم میں پسِ دیوارِ زنداں ہیں اور نجانے کب تک رہیں گے) سکول نہ جانے والے اور ننگے پائوں پھرنے والے دو کروڑ سے زائد بچے اور بچیاں‘ سکولوں کے ہمہ تن فریاد اساتذہ‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز‘ محکمہ ریلوے کے ملازمین‘ فیضؔ صاحب کے بیان کردہ پوسٹ مین‘ ریڑھی یا چھابڑی لگا کر رزق کمانے والے‘ (پنجابی زبان کے وہ دیہاڑی دار‘ جن کا نہ تو کوئی والی ہے اور نہ کوئی وارث) وہ یتیم‘ جن کے دُکھوں کا نہ کسی فورم پر چرچا ہوتا ہے اور نہ تذکرہ اور وہ تمام افراد جو آئے روز بے قصور‘ کبھی کسی سلنڈر دھماکے تو کبھی ٹرین حادثے میں مارے جاتے ہیں‘ بقول فیضؔ:
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
کبھی ان کے حقیقی مسائل کا آپ نے خبروں میں تذکرہ سنا ہے؟ انہیں کبھی ہائی لائٹ کیا گیا ہے؟ کبھی ان کے مسائل کو لائم لائٹ اور سپاٹ لائٹ میں دیکھا ہے۔ اگر حکمران اشرافیہ کا‘ محاورے کی زبان میں‘ چوری کے مال کی بانٹ پرسمجھوتا ہوجائے تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اگر محنت کش طبقہ کے افراد‘ ماہی گیر‘ چھوٹے کسان‘ ریلوے مزدور‘ اساتذہ‘ کلرک‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور رکشہ ڈرائیور (اچھا ہوا کہ اب نہ تانگے رہے اور نہ تانگے بان) ہڑتال کریں‘ مظاہرے کریں‘ جلسے سے ایک قدم آگے بڑھ کر جلوس نکالیں‘ دھرنا دیں تو ان پر نقصِ امن کا مقدمہ چلایا جائے‘ پولیس ان پر لاٹھی چارج کرے‘ اشک آور گیس کا نشانہ بنائے‘ واٹر کینن سے ان کو اچھی طرح غسل دے تو یہ بڑی خبر نہیں بنتی اور بنے بھی تو اُس میں مظاہرین کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔
شہری آبادی کی بڑی اکثریت دیہی آبادی کے تلخ شب و روز اور اوقات سے قطعاً واقف نہیں اور نہ موجودہ حالات میں ہو سکتی ہے۔ بھلا ہو کراچی کے حافظ نعیم الرحمن‘گوادر کے مولانا ہدایت الرحمن کا‘ ایمان مزاری کا‘ جماعت اسلامی کے سینیٹر جناب مشتاق احمد خان کا اور چند اہلِ قلم کا‘ جو اس گھپ اندھیرے میں روشنی کا چراغ جلائے ہوئے ہیں۔حق گوئی اور اُصول پرستی کا پرچم اُٹھائے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم سے جدا ہوجانے والی عاصمہ جہانگیر‘ کراچی کی سبین‘ لاہور کے جمیل عمر جیسے افراد ہاتھ قلم کر دیے جانے کے واضح اور صاف نظر آنے والے خطرات کے باوجود حکایتِ خونچکاں لکھتے رہے، جو اپنے خاک و خوں سے نئے جہاں پیدا کرنے کی تگ و دو کرتے رہے:
صلۂ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ
اُردو اور انگریزی کے کئی معاصر اخباروں کے بہت سے عوام دوست کالم نگاروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں اس کالم میں آوازِ خلق بلند کروں۔محض چہروں کے بجائے نظام بدلنے اور اس گلے سڑے فرسودہ اور کئی صدیوں پر محیط غلامی کے سانچے میں بنائے جانے والے نظام میں انقلابی تبدیلیوں کی بنیادی اور کلیدی نکات کی اہمیت پرزور دوں۔ میں اس بیانیہ کو نکات کی صورت میں بیان کروں گا۔
شروع میں شکریہ ادا کرنے سے کروں گا۔ سول سوسائٹی کے چند نئے پلیٹ فارموں کا۔ ''The Mediators‘‘ کا۔ قیوم نظامی کی 'جاگو تحریک‘ کا۔ ''پتن‘‘ کے سرور باری کا۔ یہ سب بڑا مفید اور مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت سب سے بڑی ضرورت سول سوسائٹی کی فعال‘ نمائندہ اور ملک گیر تنظیم کی ہے۔ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کے بجائے ایک جامع پلیٹ فارم‘ جو قومی ضمیر کی آواز ہو۔
آوازِ خلق کا مطالبہ ہے کہ ملک بھر میں سارا غیر آباد علاقہ (جو لاکھوں ایکڑوں پر محیط ہے) بے زمین کسانوں کو بے حد آسان قسطوں پر دے دیا جائے تاکہ زرعی پیداوار کئی گنا بڑھائی جا سکے۔
حکومت ِ پاکستان تین بڑے ہوائی اڈوں کو چلانے کا کام غیر ملکی کمپنیوں کوآئوٹ سورس کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ اسے فوراً منسوخ کیا جائے اور اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے تین امریکی کمپنیوں کو جو ساٹھ لاکھ ڈالر بطور مشاورتی فیس ادا کیے جانے ہیں‘ وہ بھی نہ کیے جائیں۔
ہماری ہوا اور پانی کو سب سے بڑا خطرہ سالہا سال سے اکٹھے ہونے والے30 لاکھ ٹن سالانہ فضلے سے ہے جو ایک تہائی سے زائد‘ کیڑے مار دوائیوں کی آمیزش والے فضلے سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہو گیا ہے۔ اس سے تحفظ اور ڈسپوزل کے لیے جلد از جلد جدید مشینری منگوائی جائے۔
یہ بات شاید ہی کوئی ہم وطن جانتا ہو کہ ہم ہر سال دُوسرے ممالک سے 80 لاکھ ٹن فضلہ درآمد کرتے ہیں تاکہ اسے ٹھکانے لگا سکیں۔ اس کی اجازت آئندہ نہ دی جائے۔ مملکت پاکستان کو دُنیا بھر کا کوڑے دان نہ بنائیں۔
چند ماہ قبل مفت آٹے کی تقسیم کے دوران درجنوں مرد و خواتین اور بچے ہلاک ہوئے۔ ''آوازِ خلق‘‘ حکومت کو اس خونِ ناحق کی ذمہ دار ٹھہراتی ہے اور پوچھتی ہے کہ کیا ایک ایٹمی طاقت مستحق لوگوں (زیادہ تر خواتین اور بوڑھوں میں) بطریق احسن مفت آٹا بھی تقسیم نہیں کر سکتی؟
چند ماہ قبل کراچی میں آنکھوں کے چوٹی کے معالج اور ہندو کمیونٹی کے ممتاز فرد ڈاکٹر بیریل صاحب کو قتل کر دیا گیا۔ اس ٹارگٹ کلنگ کی تفتیش اِس وقت تک بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے۔ افسوس کہ ابھی تک کسی بھی مذہبی و سیاسی جماعت کے رہنما (جو کراچی میں بہ افراط پائے جاتے ہیں) نے سوگوار گھرانے سے تعزیت نہیں کی۔ یہ خاموشی مجرموں کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کے مترادف نہیں؟ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں