آوازِ خلق …(2)

پچھلے ہفتے کے کالم میں ''آوازِ خلق‘‘ کے تحت اُٹھائے گئے سات مطالبات بیان ہوئے، کالم کا دامن محدود ہونے کی وجہ سے بات ادھوری رہ گئی تھی۔ اجازت دیجئے کہ آج اس بیانیے کو مکمل کیا جائے۔
شدید بارشوں کی وجہ سے سیلاب کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ متاثرین کو اور اُن کے مال مویشی کو غرقابی سے بچانے کے لیے ایک طرف پاک فوج جیسے پیشہ ور اداروں کو ہر ضلع اور ہر تحصیل کی سطح پرذمہ داری سونپی جائے اور دُوسری طرف مساجد میں عوامی رضا کاروں کی فوج بنائی جائے جو سیلاب زدگان کو خوراک‘ خیمے اور دوائیاں پہنچائے۔ سیلابی آفت ایک منتشر اور بکھری ہوئی قوم (بقول اقبالؔ تسبیح کے ٹوٹے ہوئے دانوں) کو پھر ایک لڑی میں پرو سکتی ہے۔
گوادر میں چلنے والی تحریک کے راہ نما کو قتل کے ایک کیس میں ملزم بنایا اور مقدمہ چلائے بغیر کئی ماہ قید میں رکھا گیا۔ اسی طرح پہلے پشتون رکن اسمبلی کو دو سال سے زیادہ عرصہ قید میں رکھا گیا۔ وہ بصد مشکل ضمانت پر رہا ہوئے تو چند ہفتے گزر جانے کے بعد اُنہیں دوبارہ گرفتار کرکے قید کر دیا گیا اور اب ان کی ضمانت پر رہائی کا مستقبل قریب میں بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ عوام ان کی فی الفور رہائی اور سنگین الزام میں جلد عدالتی کارروائی اور شفاف انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بین الاقوامی معاہدوں کا احترام کرتے ہوئے اور آئین پاکستان میں دی گئی شہری آزادیوں کے مطابق سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات بنا کر گرفتار کرنے اور انہیں ضمانت کے حق سے محروم کرنے‘ انتقامی گرفتاریاں کرنے اور سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کی گمشدگی کی شرمناک روش کو قانوناً ناممکن بنایا جائے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ چند سال پہلے جو شخص منشیات برآمدگی کے کیس میں ناجائز طور پر جیل میں رکھا گیا‘ وزیر داخلہ بن کر وہ خود بھی اس افسوسناک روش پر چلتا رہا۔ ایسا نہ ہو کہ آئندہ جب وہ برسر اقتدار نہ رہیں تو مخالف حکومت دوبارہ کسی اور جھوٹے الزام میں قید کر لے۔ یہ سلسلہ فی الفور ختم ہونا چاہیے۔
کتنا اچھا ہوتا کہ ہم سب (تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں، کسان و مزدور تنظیمیں، وُکلا او رصحافی برادری اور سول سوسائٹی کا ہر شعبہ) مل کر یومِ آزادی (14 اگست) کو یہ حلف اُٹھاتے کہ ہم اپنے 76 سالہ پرانے خواب کی تعبیر کی طرف قدم بڑھائیں گے اور یہ خواب تھا مملکتِ خداداد پاکستان کی عمارت کو ان ستونوں پر کھڑا کرنا: قانون کی حکمرانی۔ فلاحی مملکت۔ سلطانیٔ جمہور۔ قوتِ اُخوتِ عوام پر انحصار۔ عوام دوست نظامِ حکومت۔ احتساب اور شفافیت۔
ہم بیرسٹر ابو ذر سلمان نیازی کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے حکومت(جو ہر چند سالوں کے بعد بدل جاتی ہے) پر تنقید کرنے والوں پر بغاوت کی سنگین دفعات کے 150 سالہ پرانے قانون کے تحت مقدمہ چلانے کے اختیار کو لاہور ہائیکورٹ سے معطل کرایا۔ سوال یہ ہے کہ آزادی کے 76 سال بعد بھی ہمیں انگریز کے ڈیڑھ‘ دو سو سال پہلے بنائے گئے ظالمانہ‘ زائد المیعاد‘ جابرانہ اور استعماری قوانین کو منسوخ کرنے کی توفیق کیوں نہیں ہو رہی۔ کیا ہم جوشیلے نعرے لگانے کے علاوہ کوئی ایسا مثبت کام کر سکتے ہیں جس سے دین اور دنیا‘ ہمارے دونوں جہان سنور جائیں۔
کالم نگار پاکستان کے تمام اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کا شکریہ ادا کرتا ہے اور اُن کا احسان مند ہے کہ وہ بے بس‘ بے آواز اور آفت زدہ عوام کے حق میں اپنی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ اس کڑے وقت میں تمام سیاسی جماعتیں (ماسوائے جماعت اِسلامی اور دیگر چند ایک) عوام دوستی کا بنیادی فرض ادا کرنے کے بجائے صرف مفاد پرستی اور حصولِ اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ تمام کالم نگار‘ صحافی اور اینکرز ہمارے شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے دَھن اور دھونس کی پروا نہ کرتے ہوئے دیانتداری سے عوام دوستی اور حب الوطنی کا حق ادا کیا۔
امسال ماہِ اپریل میں کراچی میں ایک راہگیر خاتون بے دھیانی سے چلتے ہوئے کھلے اور گہرے مین ہول میں گر کر ہلاک ہو گئی‘ اس کو بچانے کے لیے ایک راہگیر مین ہول میں اُترا مگر زہریلی گیس نے اُسے بھی ہلاک کر دیا۔ یہ ہوتا ہے مقامی حکومت کے نہ ہونے کا نقصان۔ ہم کراچی میونسپل کارپوریشن کو ان ہلاکتوں کی ذمہ داری سے ماورا نہیں سمجھتے۔ ہم کراچی کے وُکلا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ورثا کی طرف سے بھاری جرمانے؍ معاوضے کا مقدمہ دائر کریں۔
ماہ جولائی میں یہ المناک خبر ملی کہ ایک شخص بجلی کے کھمبے کو چھو جانے سے (کرنٹ لگ جانے سے) دم توڑ گیا۔ کراچی سمیت متعدد شہروں میں زیادہ بارش کی وجہ سے آنے والے اربن سیلاب کے دوران کئی شہری کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ کیا بجلی کمپنیاں ان ہلاکتوں کی براہ راست ذمہ دار نہیں؟ صد افسوس کہ نہ قومی اسمبلی اور نہ ہی صوبائی اسمبلیوں میں اس سنگین مسئلے پر حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جانوروں کی حادثات میں ہلاکت پر بھی حکومت سے سخت باز پرس کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں چڑیا گھر کے افسران ہاتھی کی حفاظت اور مناسب نگہداشت تک نہیں کر سکتے۔ اسلام آباد میں ایک ہاتھی ہلاکت سے اس لیے بچ گیا تھا کہ ہائیکورٹ نے اُسے فوراً تھائی لینڈ منتقل کرنے کا حکم دیا۔ جہاں اب وہاں وہ خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے۔ کراچی کے چڑیا گھر کی ہتھنی کی بے وقت وفات کی ذمہ دار وہاں کی انتظامیہ ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ چڑیا گھر بند کر دیے جائیں اور جانوروں اور پرندوں کو سفاری پارکوں میں آزاد چھوڑ دیا جائے۔
کالم نگار مطالبہ کرتا ہے کہ تمام افسروں اور وزیروں (خصوصاً وزرائے خارجہ) کے تمام غیر ملکی دورے بند کیے جائیں۔ اسمبلی کے صرف اُن اراکین کو تنخواہ دی جائے‘ جو اس کے مستحق ہوں اور اُن کی کوئی ذاتی آمدنی نہ ہو۔ پانچ اسمبلیاں درحقیقت پانچ سفید ہاتھی ہیں۔ ہم ان پر اربوں روپے سالانہ خرچ کرتے ہیں مگر ہرحکومت اپنا کام آرڈیننس جاری کر کے چلاتی ہے جو بلاشبہ جمہوری اقدار کی نفی ہے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق لیبیا میں اس وقت 20 ہزار کے لگ بھگ پاکستانی غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے لیے خطرناک بحری سفر کرنے کے منتظر ہیں۔ انہیں حکومت فوی طور پر واپس لائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ وہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر لیبیا کس طرح پہنچے؟اور انہیں لیبیا پہنچانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
ایک موقر جریدے کے صفحہ اوّل پر شائع ہونے والی ایک حالیہ خبر کے مطابق ہماری حکومت (جو اب سابقہ بن چکی ہے) ہمارا تاریخی ورثہ (موہنجو دڑو، ہڑپہ اور دیگر) دوسرے ملکوں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو انتہائی تشویشناک ہے اوراگر غلط ہے تو حکومت اس کی تردید کیوں نہیں کرتی؟
نابالغ بچوں اور بچیوں کو گھریلو ملازم یا ملازمہ بنانا جرم قرار دیا گیا تھا مگر اس قانون پر عملدرآمد کی نوبت کب آئے گی؟ ابھی اور کتنی بچیاں اور بچے ظلم و ستم اور تشددکا نشانہ بنیں گے تو پھر ہمیں شرم آئے گی اور ہماری غیرت جاگے گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں