سحر کی اذاں ہو گئی اب تو جاگ …(2)

کالم نگار نے ساٹھ کی دہائی کے پہلے سات برس فیصل آباد اور لاہور کے تین کالجوں (جن میں ایچی سن بھی شامل تھا) میں سماجی علوم پڑھانے اور ترقی پسند اور عوام دوست سیاسی جماعتوں کے ساتھ قریبی روابط رکھنے اور گمنام کارکنوں کی آخری صف میں بیٹھ کر حتی المقدور اپنا کردار ادا کرنے میں صرف کیے۔ سب سے زیادہ ذہنی قربت بابائے سوشل ازم کہلانے والے کسان راہ نما شیخ محمد رشید صاحب‘ جو بعد میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر صحت بنے‘ میاں محمود علی قصوری‘ میاں افتخار الدین‘ میجر اسحاق محمد‘ ریلوے مزدوروں کے راہ نما میرزا محمد ابراہیم‘ ملک معراج خالد اور ڈاکٹر مبشر حسن سے تھی۔ اب یہ سب کے سب جہانِ عدم سدھار چکے ہیں اور اپنے سیاسی پس ماندگان کو یتیمی کی حالت میں چھوڑ کر ہم سے بہت دُور جا چکے ہیں۔ وہ تو سب صدقِ دل سے عوام دوست اور محنت کشوں کے ساتھی تھے۔ اُنہوں نے اپنی ساری زندگی کسانوں اور مزدوروں کی بھلائی اور پاکستان کو فلاحی مملکت بنانے پر صرف کر دی۔ اُن میں سے ہر ایک پر محض ایک کالم نہیں بلکہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے (اور غالباً لکھی بھی جا چکی ہیں)۔ ان کی عمر بھر کی کاوش‘ جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ پیپلز پارٹی کے معرض وجود میں آنے (اور پھر برسر اقتدار آ جانے) کی صورت میں نکلا۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہزاروں عوام دوست کارکنوں، محنت کشوں، کسانوں اور مزدوروں کی عمر بھر کی جدوجہد اور قربانیوں‘ جس میں حسن ناصر اور جمیل عمر کی طرح کئی شہدا بھی شامل تھے‘ کا سیاسی اور منطقی نتیجہ پیپلز پارٹی کو‘ اپنے سارے اندرونی تفاوات اور جناب بھٹو کی ایوب خان جیسے آمر مطلق کی کابینہ میں شمولیت کے باوجود‘ مسندِ اقتدار پر بٹھانے کی صورت میں نکلا۔
1966-71ء کے دوران اسلامی سوشلزم کے نعرے میں تازگی‘ رعنائی اور توانائی تھی۔ پیپلز پارٹی کو اقتدار ملنے کے سات برس بعد (1977ء میں) یہ نعرہ رُسوا اور بے آبرو ہو کر کوچۂ اقتدار سے رُخصت ہوا۔ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چودھری فتح محمد اور غیاث الدین جانباز اور اُن کے سینکڑوں ساتھیوں کی شب و روز محنت کی بدولت 23 مارچ 1970ء کو اُن کے قصبے (جو اب شہر بن چکا ہے) میں ایک تاریخی کسان کانفرنس منعقد ہوئی۔ مہمانِ خصوصی مشرقی پاکستان سے آنے والے مولانا عبدالحمید بھاشانی تھے اور پچاس ہزار سے زیادہ شرکا کی آخری صف میں‘ مٹی پر بیٹھنے والوں میں یہ کالم نگار بھی شامل تھا جو اس تاریخی اجتماع میں شرکت کرنے خاص طور پر لندن سے ٹوبہ ٹیک سنگھ گیا تھا۔
مذکورہ بالا عوام دوست راہ نمائوں‘ سندھ میں جتوئی اور پلیچو صاحبان اور خیبر پختونخوا میں افضل بنگش جیسے افراد کی ساری محنت اور عمر بھر کی جدوجہد ایک لحاظ سے اکارت گئی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پہل سول مارشل لا سے کی۔ پہلا قدم ہی غلط تھا۔ اگر ہم ایک قدم مزید پیچھے جائیں تو ہماری آنکھیں آنسوئوں سے روتی ہیں اور دل خون سی بھر جاتا ہے۔ بھٹو صاحب نے ایک آمر (یحییٰ خان) کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کے عوام کا جائز سیاسی مطالبہ (شیخ مجیب کے چھ نکات جو وفاقی نظام کی رُوح کے عین مطابق تھے) تسلیم نہیں کیے اور شیخ مجیب الرحمن (جس کی پارٹی کی نشستیں بھٹو صاحب سے دو گنا تھیں) کو وزیراعظم بن جانے سے روک کر ملک میں خانہ جنگی کو ناگزیر بنا دیا۔ مشرقی پاکستان میں آپریشن کے بعد وہی ہوا جس کا ہر محب وطن کو خدشہ تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کا بنایا ہوا ملک دولخت ہو گیا۔ لاکھوں‘ کروڑوں محب وطن پاکستانیوں کے دل بھی ٹوٹے مگر اُن کا کوئی حساب نہیں۔ اُستاد گرامی پروفیسر غلام جیلانی اصغر (جو عمر بھر گورنمنٹ کالج سرگودھا سے وابستہ رہے) کا ایک بھولا بسرا شعر اچانک یاد آ گیا:
دل کہ اُلفت کی سیاست سے بہت واقف ہے
خود تو رو لیتا ہے سینے کے نہاں خانوں میں
آنکھ بدنام یونہی ہوتی ہے۔
لمحۂ موجود کا بڑا المیہ یہ ہے کہ لوہا گرم ہے۔ محاورے کی زبان میں‘ اب اجتماعی شعور کی سطح بلند ہو چکی ہے۔ طبقاتی جدوجہد ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ کسانوں‘ مزدوروں اور مزارعین کی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ کالم یہاں تک پہنچا تو کراچی سے ریلوے مزدور یونین کے ایک راہ نما کا پہلی بار فون آ گیا۔ بوڑھے کالم نگار نے حوصلہ افزائی کرنے والے الفاظ سنے تو اُس کے دل کو وہ خوشی ملی جو الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بقول اقبالؔ اب وہ دن گئے جب کالم نگار انجمن میں تنہا تھا۔ اب میرے ''رازداں‘‘ کراچی سے پشاور تک‘ ہر شہر اور ہر قریہ میں ہیں۔ راز دار اور ہم خیال اور بھی ہیں۔ عمر بھر عوام دوستی کا پرچم اُٹھانے والے جناب سرور باری اِن دنوں لندن آئے ہوئے ہیں اور اپنے ہم خیالوں کی محفلوں کی رونق بڑھانے میں مصروف ہیں مگر وہ بھی کالم نگار کے اس دُکھ میں شریک ہیں کہ پاکستان میں عوام دوست (اپنی واضح موجودگی کے باوجود) چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کی بہتات ہے مگر جامع مسجد (مشترکہ محاذ اور متحدہ محاذ) ایک بھی نہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں اُس کے بن جانے کے آثار نظر آتے ہیں۔
حاصلِ کلام یا حاصلِ تحریر یہ ہے کہ تبدیلی لانے کے لیے جن دو بنیادی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے‘ وہ ہیں؛ ساز گار معروضی حالات اور کارکنوں کی ایسی جماعت کا وجود جو نظریاتی طور پر پختہ ہو اورکسانوں‘ مزدوروں کی جدوجہد میں اُن کا ساتھ دے کر اُن کا اتنا اعتماد حاصل کرے کہ اُنہیں حرکت میں لا سکے، یعنی انہیں موبلائز کر سکے۔ چائے خانوں میں بیٹھ کر گفتگو اور بحث کرنے (خواہ وہ کتنی ہی عالمانہ ہو) سے ہرگز کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ آج میں جب لگ بھگ چھ ہزار میل کے فاصلے سے وطن عزیز کو دیکھتا ہوں تو ایک شکستہ صف اور دل شکن منظر دیکھتا ہوں اور بقول اقبالؔ وہ منظر ہے:
میر سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف
میں (اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ) مئی 1967ء میں شمالی انگلستان پہنچا تھا جہاں سے مجھے اور میری اہلیہ کو (برطانیہ میں ایک دن بھی کوئی جماعت‘ کوئی کورس پڑھے بغیر) ایک کالج میں سماجی علوم پڑھانے کی ملازمت کی پیشکش کی گئی۔ (محض ایچی سن کالج میں میرے ساتھ پڑھانے والے انگریز اساتذہ کی سفارش کی وجہ سے) خوش قسمتی سے مجھے چند ہفتوں کے بعد ایک ضروری کام سے لندن جانا پڑا۔ کام کیا تھا‘ پاکستان ہائی کمیشن (سفارتخانہ) میں فرسٹ سیکرٹری سے ملاقات‘ جو اس وقت رائو رشید صاحب تھے جو بعد ازاں محکمہ پولیس میں انسپکٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور پھر بھٹو صاحب کے قریبی ساتھی اور پیپلز پارٹی کے رہنما بنے۔
میرا کام تو ایک گھنٹے میں ہو گیا مگر ایک مفید اور خوشگوار ملاقات کے بعد میرے پاس فرصت کے کم و بیش چھ گھنٹے تھے جو میں نے وسطی لندن کی پیدل سیر کرنے اور شمالی لندن میں (ہائی گیٹ کے علاقہ میں) ایک ایسے قبرستان کی زیارت کرنے میں صرف کیے جہاں کارل مارکس اور اُس کے سارے اہل خانہ ایک ہی قبر میں مدفون ہیں۔ قبر کے اُوپر مارکس کا داڑھی والا شاندار مجسمہ نصب تھا اور لوحِ قبر پر یہ الفاظ کندہ تھے ''فلاسفر اپنی ساری زندگی سماجی تجزیوں‘ تنقید اور تشریح میں گزار دیتے ہیں مگر بات تب بنتی ہے جب وہ عملی طور پر انسانی سماج اور ریاست کو بدل دیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں