گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں …(4)

برسہا برس کی تنہائی ختم ہوئی تو کالم نگار (محاورے کے مطابق) پھولے نہ سمایا اور اب اپنے راز داں (محمد اقبال دیوان) کے کمال کے ناول میں لکھی ہوئی باقی ماندہ تجاویز (صفحات 348 تا 354 تک) کی تلخیص بیان کر کے بات ختم کرے گا۔ میں آپ کے صبر و تحمل کا مزید امتحان نہیں لینا چاہتا‘ لہٰذا آج کا کالم ہی اس سیریز کی آخری قسط ہے۔ فاضل مصنف کی جو تجاویز پچھلے کالم میں رہ گئی تھیں‘ وہ باری باری لکھتا ہوں تاکہ آپ کو یقین آ جائے کہ ہمارے مسائل ہرگز ناقابلِ حل نہیں ہیں۔
متعدد دانشوروں اور عوام دوست رہنمائوں نے اپنی اپنی جگہ عوامی شعور کی سطح بلند کرنے‘ آگہی کی روشنی پھیلانے اور افکارِ تازہ کا چراغ جلانے کی جو قابلِ صد تعریف کوششیں کی ہیں‘ اُن کی سو فیصد تائید کالم نگار اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے۔ اب اقبال دیوان صاحب کی ایک کمال کے ناول (وہ ورق تھا دل کی کتاب کا) میں لکھی گئی باقی مثبت‘ کار آمد اور قابلِ عمل تجاویز:
1: پارلیمانی کمیٹیوں کے ذ مے یہ کام لگائیں کہ وہ ہر شعبے کے پانچ بڑے عہدے داروں کا انتخاب کریں۔ کوئی شخص کسی بڑے عہدے پر فائز نہ ہو جب تک وہ ان کمیٹیوں کی جانچ پڑتال کے مراحل سے نہ گزرے‘ جیسے امریکہ میں ہوتا ہے۔ صدر ریگن رابرٹ بورک کو سپریم کورٹ کا جج بنانا چاہتے تھے مگر سینیٹ کی عدالتی کمیٹی نے منظور نہ کیا۔ یہی معاملہ دُوسرے آٹھ جج صاحبان کے ساتھ مختلف ادوار میں ہوا۔ امریکی صدر جب کسی کو اہم عہدے پر فائز کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کا نام متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیتا ہے۔ کمیٹی ممبران اس سے وابستہ تمام افراد اور ان پر معترضین کو بلا لیتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ صرف وہی مردِ میدان اس عہدے پر فائز ہو سکتا ہے جو آگ کا یہ دریا عبور کر پائے۔
2: ایسا عمل وضع کیا جائے کہ مملکت کا کوئی فرد یا ادارہ خود کو اس سے بالاتر نہ سمجھے۔ عدالت عالیہ اور پارلیمانی کمیٹیاں اس فعل میں مکمل طور پر خود مختار ہوں کہ وہ جس کو چاہے طلب کر سکیں اور اُس پر جرح کر سکیں۔
3: ارتکازِ دولت کو روکنے کے لیے ایک‘ دو سے زیادہ کاروبار ایک گھرانے کے پاس رکھنے پر پابندی ہو۔
4: ایک سادگی پسند‘ شفاف‘ اجارہ داریوں کا دُشمن‘ عوام کا دوست اور تحفظِ حقوق کا کمیشن بنایا جائے تاکہ عوام سے متعلق اُمور میں خواتین کی نمائندگی سے لے کر ہر عمل میں سادگی اور کفایت شعاری کو اپنایا جا سکے اور گزشتہ چند دہائیوں میں جو کارٹلز (مافیاز) وجود میں آ چکے ہیں ان کے چنگل سے حکومت اور عوام کو نجات دلائی جا سکے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہو جس پر چند افراد کی خدمات معقول معاوضہ کی بنیاد پر حاصل کی جا سکیں اور حکومت اور عوام سے متعلق کوئی بھی کام اس کے دائرۂ سفارشات سے باہر نہ ہو۔
5: چھوٹی عدالتوں میں ججوں کا تقرر مقابلے کے ایک امتحان کے ذریعے ہو۔ ساری عدالتی تقرریاں انہی جج صاحبان کی ترقی کے ذریعے ہوں۔ اس سے اہل لوگ عدالتی منصب پر فائز ہوں گے۔
6: ہم اپنی سول سروس کو ٹھیک کریں‘ اسے آئینی تحفظ دیں۔ انگریز نے ہندوستان میں تمام کارنامے اسی کے ذریعے سرانجام دیے۔ وہ اسے اپنا سٹیل فریم کہتا تھا۔ سرکاری افسروں نے اپنی سہولت کے لیے بہت سے محکمے بنا لیے ہیں جن کے پاس کرنے کو کوئی قابلِ ذکر کام نہیں۔ اس وقت ہماری 45 فیصد افسر شاہی (بیورو کریسی) جدید علوم سے ناآشنا ہے۔ ان کی تعلیم کا بندوبست کرنا ضروری ہے۔ پولیس کو مقامی حکومت کے ماتحت کر دیں۔ پولیس ایک مقامی فورس ہے اور خالصتاً آپریشنل نوعیت کی تنظیم ہے‘ اس میں مرکز سے بھرتی کیے ہوئے افسران کا کوئی کام نہیں۔ یہ جب مقامی حکومت کی تابع ہو گی تو اس میں مقامی نمائندوں کی وجہ سے جواب دہی کا نظام قائم ہو جائے گا۔ اس میں S.P (DPO) کے اُوپر کے عہدے ختم کر دیں‘ یہ ''ٹاپ ہیوی‘‘ ہو گئی ہے۔ پولیس آرڈر 2000ء نے اس کو اپنے معاملات کا مختارِ کل بنا دیا ہے۔
(نوٹ: روز بروز امنِ عامہ کی بگڑتی صورتِ حال کے پیش نظر ہمیں پرانے زمانے کا ''ٹھیکری پہرہ‘‘ والا نظام دوبارہ متعارف کرانا ہو گا جس میں ہر علاقے میں رہنے والے لوگ رضاکارانہ طور پر جُز وقتی پولیس کے مددگار و محافظ بنیں۔ پیشہ ور پولیس کی کل نفری لاکھوں میں پہنچ چکی ہے مگر وہ 24 کروڑ عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ وہ پولیس جو کچے کے ڈاکوئوں کی سرکوبی نہیں کر سکتی‘ وہ عوام کو بھاری اسلحے سے مسلح دہشت گردوں سے کس طرح بچائے گی بلکہ اب وہ خود اپنی حفاظت تک نہیں کر سکتی۔ ایک آزاد ملک میں عوام نہ صرف غیر ملکی جارحیت کا (یوکرین اور فلسطین کی طرح) بخوبی مقابلہ کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں بلکہ وہ داخلی سکیورٹی میں بھی پولیس کے بہترین مددگار اور اتحادی ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں لوگوں نے اپنے گلی‘ محلوں میں داخل ہونے کے مقامات پر لوہے کے گیٹس خود لگا لیے ہیں اور مل جل کر اپنے چوکیدار بھی بھرتی کر لیے ہیں۔ دورِ غلامی اور آزادی کے 76 سالوں میں نظامِ پولیس میں جو زمین آسمان کا فرق ہونا چاہئے تھا‘ اُس کی ہمارے ہاں کوئی ایک جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ زندگی کے ہر شعبے کی طرح ہم اندرونی سکیورٹی اور سرحدوں کی حفاظت کے معاملے میں بھی طرزِ کہن پر اُس سختی سے کاربند ہیں‘ جس کے لیے انگریزی میں Mulish Obstinaly (خچر کی اَڑ جانے کی خصلت) کی مثال دی جاتی ہے۔ قریب سو سال قبل اقبالؔ نے ہماری اس قابلِ مذمت خصوصیت کو بھانپ کر ہمیں آئینِ نو سے نہ ڈرنے اور طرزِ کہن پر نہ اُڑنے کی تلقین کی تھی)۔
مندرجہ بالا سطور جو قوسین(Brackets) کے درمیان ہیں‘ کالم نگار کا لکھا ہوا ہے، یعنی ضمیمہ میں اقبال دیوان صاحب کی پولیس کے بارے میں تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے حاشیہ آرائی کی گئی ہے۔ براہِ مہربانی اجازت دیں کہ کالم میں باقی رہ جانے والی جگہ کو اچھی طرح استعمال کرتے ہوئے کالم نگار آخر میں اپنی چند تجاویز آپ کے غور و فکر‘ تجزیہ اور تبصرہ کے لیے پیش کرے۔
1: ہماری عدالتوں میں حکم امتناعی جاری کرنے اور ملزموں کی ضمانت نہ لینے‘ دونوں اختیارات کا بہت بڑا اور وسیع استعمال ہوا ہے، اس کی فوراً اصلاح کی جائے۔
2: برطانیہ اور ہر یورپی ملک کی طرح (اچھی شہرت کے قابلِ) ریٹائرڈ افراد پر مشتمل Juries (جرگے) بنائے جائیں جن کے اراکین کو تنخواہ کے بجائے صرف الائونس دیا جائے۔ وہ مساجد کو بطور کمرۂ عدالت استعمال کر سکتے ہیں۔ انہیں دیوانی اور فوجداری مقدمات سننے کے اختیارات دیے جائیں‘ ورنہ زیرِ سماعت مقدمات کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں‘ کروڑوں میں چلی جائے گی۔ یہ بات صرف نظام قانون و انصاف میں بے حد ضروری اصلاحات کی ہے۔ ہمہ گیر انقلابی اصلاحات اور وہ بھی جلد از جلد!
موجودہ سیاسی اور معاشی نظام نیم مردہ ہو چکا ہے اور مصنوعی تنفس کی بدولت زندہ ہے۔ موجودہ حالات دیکھ کر مجھے اس وقت سے خوف آتا ہے کہ جب یہ گلاسڑا‘ فرسودہ اور عوام دُشمن نظام اپنے مفادات کے ملبے کے تلے دب کر دفن ہو جائے گا‘ سارے امیر بھاگ جائیں گے اور کروڑوں لوگ اس نظام کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ شام‘ عراق‘ لبنان اور لیبیا کی طرح! کیا یہ مقامِ عبرت نہیں۔ کیا آج اور ابھی سے اس گلے سڑے فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے کا وقت نہیں آ گیا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں