افغانستان… (آخری حصہ)

’’امیرالمومنین‘‘ حضرت ملا محمد عمر مدظلہ کے دور میں ان کا شمار دنیا کی ٹاپ ٹین میڈیائی شخصیات میں ہوتا رہا۔ مرحوم عدی امین، سابق صدر یوگنڈا اور شاہی مہمان سعودیہ کی مانند وہ کوئی نہ کوئی ایسی کارروائی ضرور فرما دیتے جس کے باعث عالمی سطح پر ان کے نام کا ڈنکا بجنے لگتا۔ اگر حضرت ’’امیرالمومنین‘‘ نے اکیسویں صدی کا افتتاح بودھ کے تاریخی مجسموں کی شکست و ریخت سے کیا تھا تو اسی برس اپنی غیر مسلم رعایا کے لیے یہ حکم جاری کر دیا کہ وہ اپنے گلے میں ایک مخصوص شناختی نشان لٹکا کر باہر نکلا کریں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا پچھلے دو سو برسوں میں کسی مسلم حکمران نے ان کی مانند اپنی غیر مسلم رعایا کے گلے میں شناختی پٹہ ڈالا؟ کیا رسول ؐ اللہ نے ان کی عبادت گاہوں کو گرانے کا حکم دیا؟ کیا خلافت راشدہ میں عیسائی، یہودی اور مجوسی اپنے اپنے طور طریقے پر عبادت نہیں کرتے تھے؟ اگر کسی نے انہیں اپنے مذہبی عقائد کی ادائیگی سے روکا ہوتا تو کیا آج سرزمین عرب پر عیسائی، مجوسی یا یہودی بس رہے ہوتے؟ یا کہیں ان کی کسی عبادت گاہ کا کوئی نشان ہوتا؟ اللہ کا نظام دوسروں کو برداشت کرنا سکھاتا ہے۔ جبر واکراہ اور کشت و خون کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں! دنیا کے وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، اگر وہا ںکوئی ان کے گلے میں شناختی پٹہ ڈالے یا ان کے عقائد کا مذاق اڑائے تو کیا اس بات سے ہمیں تکلیف نہیں پہنچے گی؟ تو پھر ہمیں اپنے ہاں آباد اقلیتوں کو یہی تکلیف پہنچانے کا کیا حق ہے؟ افغانی ’’امیرالمومنین‘‘ کی ان کارروائیوں کی ابھی دھول بیٹھی نہیں تھی کہ ایک نیا طوفان اٹھا دیا گیا۔ انہوں نے انٹرنیشنل ایڈ کے بائیس افراد اس جرم کے تحت گرفتار کر لیے کہ وہ ان کے ملک میں عیسائیت پھیلا رہے تھے۔ گرفتار شدگان میں دو امریکی، دو آسٹروی، چار جرمن اور سولہ افغان باشندے شامل تھے۔ ’’امیرالمومنین‘‘ کی عدالت نے پہلی ہی پیشی میں ان سب کو موت کی سزا سنا دی۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ آٹھ غیر ملکیوں کو وہ رہا کر دیں گے۔ رہ گئے سولہ افغان تو حضرت نے انہیں تختہ ٔ دار پر لٹکا کر اپنے لیے ’’ثواب‘‘ کا اہتمام کر لینا ہے۔ پوری دنیا ان کے اس قدم پر چیخ چلا رہی تھی۔ آزاد روش مغربی دنیا میں پہلی بار یہ دلیل دی جانے لگی کہ یورپ، امریکہ اور دیگر غیر مسلم ممالک میں تو مسلمانوں نے اشاعت اسلام کے مراکز قائم کر رکھے ہیں۔ اگر یہاں انہیں اپنے عقیدے کا پرچار کرنے اور لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی مکمل آزادی حاصل ہے ، تو پھر مسلم ممالک میں یہی حق وہ دوسروں سے کیسے چھین سکتے ہیں؟ اگر وہ اپنے ہاں تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے تو پھر مسلمانوں کے ہاں بھی تبلیغی مشنوں پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ یوں لگتا ہے ’’امیرالمومنین‘‘ جیسے مہربان بالآخر یہ پابندی عائد کروا کر ہی دم لیں گے! دوم یہ کہ ’’امیرالمومنین‘‘ کے ہم وطنوں کا ایمان اتنا ہی گیا گزرا ہے جسے آٹھ غیر ملکی مشنری غارت کر سکتے ہیں، تو پھر اللہ ہی ان پر رحم کرے اور اگر دو چار دس لوگ ایسے نکل آئیں، جن کا عقیدہ ڈھلمل ہو تو ان کو جبراً اسلام کا لبادہ پہنانے سے کیا فائدہ؟ ایسے لوگوں کو ’’لکم دینکم‘‘ کے خدائی حکم کے مطابق اپنی صفوں سے خارج کر دینا زیادہ قرین مصلحت نہیں ہوگا! ’’امیرالمومنین‘‘ اگر اپنے دورِ حکومت پر لمحہ بھر کے لیے غور فرمائیں تو ان کے پاس فروعات میں الجھنے کے لیے کوئی وقت نہیں تھا۔ ان کی بدنصیب رعایا کا ایک چوتھائی حصہ پہلے ہی مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا گلا کاٹ کر ’شہید‘ ہو چکا۔ ایک تہائی حصہ دنیا بھر میں عسرت، عزلت اور ہجرت کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے۔ ملک بھر کے مکاتیب اور درس گاہوں میں پچھلے ایک عشرے سے خاک اڑ رہی ہے۔ درد سے تڑپتے مریضوں کو ڈاکٹر اور طبیب ایسی کوئی سہولت میسر ہے، نہ کہیں دارودوا کا ہی کوئی اہتمام۔ ایک دوسرے سے اقتدار چھیننے کے ’’جہاد‘‘ میں معذوروں ، بیوائوں اور یتیموں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ایسا کوئی شعبہ موجود نہیں جو ان بیچارگان کے سر پر ہاتھ رکھے یا ان کی مالی مدد کرے۔ کوئی نہیں جو ان کا پرسانِ حال ہو۔ اگر حضرت ملا عمر مدظلہ، قوم کے اس عبرتناک حال پر دھاڑیں مار کر رونے کے بجائے ’’امیرالمومنین‘‘ کہلوانے پر بضد ہیں‘ درد سے تڑپ اٹھنے کے بجائے اپنے بستر پر آرام سے سو پاتے ہیں تو پھر امریکہ، یورپ اور یو این کے ’’کفار‘‘ سے کیا توقع رکھیں کہ وہ افغان عوام کے مصائب کا کوئی مداوا کریں گے؟ ’’امیرالمومنین‘‘ نے اپنی غیر مسلم رعایا کے گلے میں خصوصی نشان لٹکانے کا جواز اسلام کے شکم سے کیسے کھینچا‘ یہ تو وہی بتلا سکتے ہیں‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلم اور غیر مسلم دونوں کا ایک ہی حشر ہونا ہے، دونوں نے بھوک اور غربت کا ہدف بنے رہنا ہے، جب دونوں نے ہی بم یا گولی سے مارا جانا ہے تو پھر یہ شناخت پریڈ کروانے سے کیا فائدہ؟ یہ کوئی نو دس سال پہلے کا ذکر ہو گا کہ برطانیہ سے ایک افغان مہاجر طالبہ اپنے عزیزواقارب سے ملنے کی خاطر کابل گئی۔ اس نے ’’امیرالمومنین‘‘ کے جبری پردے کے حکم سے یہ ’’فائدہ‘‘ اٹھایا کہ اپنے خیمہ نما برقعے کے اندر ایک مووی کیمرہ بھی چھپا کر لے گئی۔ بہرطور اس کے مقدر بھلے کہ کیمرے ایسی ’خدا دشمن‘ شے طالبان کے ہاتھ نہیں لگی، ورنہ کیمرے کے ساتھ ساتھ اس کا سر بھی قلم ہو جاتا۔ طالبہ نے چھپ چھپا کر بہت سے مناظر کی فلم بندی کر لی اور برطانیہ واپسی پر اس کی ایک کاپی بی بی سی کے حوالے کر دی۔ جس کسی نے بی بی سی کا یہ پروگرام دیکھا، اس نے شرم سے لامحالہ اپنا سر جھکا لیا۔ رہے غیر مسلم تو انہوں نے جی بھر کر قہقہے برسائے۔ اس فلم کے مطابق ’’امیرالمومنین‘‘ کے ’’جہادی لشکر‘‘ نے ٹی وی اور ٹیپ ریکارڈرز توڑ پھوڑ کر درختوں پر ٹانگ رکھے تھے۔ کوئی پرزہ ایک شاخ سے لٹک رہاتھا، تو کوئی دوسری سے۔ گانے کی کیسٹوں کے فیتے مکڑی کے جالوں کی مانند جابجا لٹک رہے تھے تاکہ یہ ’’شیطانی چرخے‘‘ بنانے والوں کو عبرت ہو اور وہ اس قسم کی ’’غیر اسلامی‘‘ ایجادات سے باز رہیں۔ یونیسف نے افغانوں کیلئے فٹ بال کا ایک گرائونڈ تعمیر کروایا تھا۔ حضرت ’’امیرالمومنین‘‘ کا محکمۂ عدل و انصاف اسی میدان میں بندے لٹکاتا رہا۔ کسی نے وزیر انصاف سے پوچھا کہ یونیسف نے یہ میدان کھیل اور تفریح کی خاطر بنایا تھا، آپ یہاں پر بندے لٹکا رہے ہیں۔ انہوں نے کمال دانشمندی سے جواب دیا: ’’اگر یو این کو فٹ بال سے واقعی اتنی محبت ہے تو پھر وہ ہمیں پھانسی لگانے کے لیے ایک نئی جگہ بنا دے!!‘‘ ان کا یہ جواب بھی بی بی سی سے نشر ہوا۔ حال ہی میں ’’امیرالمومنین‘‘ نے 32اشیاء کے افغانستان میں داخلے پر پابندی عائد کی ہے۔ ان ممنوعہ اشیاء میں عورتوں کی لپ سٹک سے لے کر بیڈمنٹن اور بلیئرڈ تک کا سامان شامل ہے۔ مغربی میڈیا اسلام کے نام پر ان احکام کو ہی اسلام کی ’’اصل روح‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یعنی اسلام مخالف قوتیں اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی جو مقاصد حاصل نہیں کر سکتی تھیں، اب افغانستان سے انہیں مفت میں حاصل ہو رہے ہیں۔ ’’پنجابی پٹھان‘‘ ملائیت کے پیش کردہ اسلام کے حوالے سے دنیا ایک ایسے دین کا مذاق اڑا رہی ہے، جو سب سے احسن بھی ہے اور افضل بھی‘ وسیع النظر بھی ہے اور جدید تر بھی۔ مساواتِ انسانی کا علمبردار بھی ہے اور علم و دانش کا بحر بیکراں بھی۔ رہے ’’امیرالمومنین‘‘ تو انہوں نے آہستہ آہستہ پوری دنیا اپنے خلاف جمع کر لی اور سرزمینِ افغانستان پربسنے والے بیچارے افغان عوام کی گردن ایک نئی افتاد میں پھنسا دی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں