پاکستان کا خواب دیکھنے اور اُس میں حقیقت کا رنگ بھرنے والی نسل آج تہ خاک ہے۔ اگر اُن میں سے کوئی زندہ بھی ہے تو وہ دمِ واپسیں کے مرحلے سے دُچار ہو گا۔ اُن بزرگوں نے پاکستان کو ایک ایسی فلاحی ریاست کے رُوپ میں دیکھا تھا جو اپنے ہر شہری کو سماجی اور معاشی تحفظ فراہم کرے گی۔ کوئی معذور سڑکوں پررینگتا اور بھیک مانگتا نظر نہیں آئے گا۔ بیوائوں، یتیموں اور بیروزگاروں کی ذمہ داری ریاست کے شانوں پر ہو گی اور وہ اُنہیں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور نہیں ہونے دے گی۔ معاشرہ بدعنوانی اور نا انصافی کے تعفن سے پاک ہو گا۔ کرپشن حکمرانوں کا شیوہ نہیں ہو گی۔ نہ جمہوریت پر کوئی ڈاکہ ڈال سکے گا اور نہ توپ و تفنگ کے بل بوتے پر حکومتیں بدلی جائیں گی۔ پاکستان کی سرزمین برصغیر کی اقلیتوں کے لیے جائے پناہ ہو گی، جس میں ہر شخص کو اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے اور زندہ رہنے کی آزادی حاصل ہو گی۔ لیکن ہم نے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کی بجائے اُسے ایک سکیورٹی ریاست میں بدل ڈالا۔ جو ملک ہندو اکثریت کے دبائو سے بچنے کی خاطر معرضِ وجود میں آیا تھا اُس کے اندر اکثریت نے ہر اقلیتی مذہب، اقلیتی فرقے، چھوٹے پیشوں اور چھوٹے صوبوں کا قافیہ تنگ کر دیا۔ اگر پاکستان کا خواب دیکھنے والے اُن بزرگوں میں سے کوئی آج پل بھر کے لیے قبر سے اُٹھ کر ہماری موجودہ حالت کو دیکھ سکتا تو وہ یقینا دوبارہ قبر میں جانا پسند کرتا…کہ ہمارا حشر نہ دیکھنے کے قابل ہے اور نہ سُننے کے لائق! دسمبر 1971ء میں پاکستان دو لخت ہو گیا مگر ہم نے اس افتاد سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا۔ نتیجہ یہ کہ باقی ماندہ پاکستان پر بھی دو بار جرنیل شاہی نے راج کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے قوم پر بڑے ’’احسانات‘‘ ہیں! اُنہوں نے ملک پر قابض ہوتے ہی آئین کو بارہ صفحات کی ایک بے وقعت دستاویز قرار دیتے ہوئے، اُسے پائوں تلے مسلنے اور کچلنے کا شُغل مسلسل 11سال تک جاری رکھا۔ انہوں نے پاکستان سے برداشت اور رواداری کے کلچر کو ختم کیا۔ انہی کے دور میں تنگ نظر مذہبی عصبیت کی تخم ریزی ہوئی۔ آج یہ مرض اس حد تک پھیل چُکا ہے کہ اُس سے نہ کوئی مسجد محفوظ رہی اور نہ کوئی امام بارگاہ! اور اب مزار بھی اِس اندھی آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ آج نفرت کی یہ آگ ہر گھر کے آنگن میں پہنچ چُکی ہے۔ اندھی فرقہ پرستی نے پورے پاکستان کے مسلمانوں کے ایمان بھی چھلنی کر رکھے ہیں اور اُن کے عقائد بھی! اُن میں سے کسی کا نہ تحریکِ پاکستان سے کوئی واسطہ تھا اور نہ قیامِ پاکستان کی وجوہ سے کوئی غرض! نہ کسی کا قائداعظم محمد علی جناح ؒسے کوئی تعلق رہا اور نہ اُن کے نظریات سے کوئی سروکار! پاکستان اور اسلام کے متعلق اُن کی منطق بہت سادہ اور آسان ہے۔ اُن کے نزدیک پاکستان اسلام کے لیے بنایا گیا تھااور اس خطۂ زمین پر اسلام کا اطلاق اب اُن کی دینی ذمہ داری ہے۔ ہر فرقہ اپنی اپنی فقہ کو حقیقی دین سے عبارت قرار دیتا ہے اور اِس راہ میں دوسرے فرقوں کے قتال کو جائز گردانتا ہے۔ اس باہمی کشت و خون، تشدد اور خود کش دھماکوں کے ہاتھوں مارے جانے والے بدنصیبوں کی تعداد تیئس ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور ہو جانے والے بدقسمت شہریوں کا عدد اِس سے دوچند ہے۔ عوام کے لیے زندگی ایک ناقابلِ برداشت جبر کا نمونہ بن چکی ہے۔ ایک جانب بجلی اور گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ ہے تو دوسری جانب مہنگائی کا نہ تھمنے والا سیلاب! اور تیسری جانب ہر مقدس مقام پر لاشوں کے انبار! کوئی سڑک، راہ گزر اور شاہراہ محفوظ نہیں۔ ہر شہر میں جگہ جگہ پولیس کے ناکے، رکاوٹیں اور تلاشیاں میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم ایک سڑک سے دوسری سڑک پر نہیں جا رہے بلکہ ایک محاذ سے دوسرے محاذ کی جانب جا رہے ہوں۔ بدقسمتی کی انتہا دیکھئے کہ یہ تکلیف دہ کیفیت ہمارا روزمرہ بن چکی ہے۔ جب کسی سڑک سے ناکے اور رکاوٹیں اُٹھا دی جائیں تو ہمیں اچانک عجیب عجیب سا لگتا ہے۔ بلوچستان میں محرومی کے شکم سے جنم لینے والی احتجاج کی لہریں ایک شوریدہ سر بغاوت میں بدل چکی ہیں۔ کہیں آباد کار پنجابیوں کے سر قلم ہو رہے ہیں تو کہیں بلوچ قوم پرستوں کے سینے چھلنی ہیں۔ تشدد اور گولی سے بوئی ہوئی کوئی فصل بارآور نہیں ہوا کرتی۔ بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ مل بیٹھنے، اُن کے مسائل سمجھنے اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو سلجھانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ خوفناک صورتحال ایک مکمل تبدیلی کی متقاضی ہے۔ ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے اور اپنا اپنا سر بچانے کا وقت بیت چُکا ہے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور پوائنٹ سکورنگ کی بھی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ آج اس بات کی شدت سے ضرورت ہے کہ سارے سیاسی قائدین، مذہبی جماعتوں کے رہنما اور ملک کے مقتدر ادارے ایک میز پر بیٹھیں اور آگ کی اِس دلدل سے باہر آنے کا ’روڈ میپ‘ قوم کے سامنے رکھیں۔ اِن چیلنجز (Challenges) اور بنیادی مسائل پر ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیے بغیر ملک کا مستقبل بھی مخدوش رہے گا اور عوام کی زندگی بھی!