دہکتی آگ

11مئی 1998ء کے دن ٹھٹھرے ہوئے ذہن کے ایک بے زن و بے اولاد ، حواس باختہ شخص نے پوکھران میں اوپر تلے پانچ ایٹمی بم چلا کر دھرتی کی کوکھ میں دہکتی ہوئی آگ بھر دی۔ یہ واقعہ پوری انسانیت کے منہ پر الٹے ہاتھ کی چپت کے مترادف تھا۔ کاش دنیا کی با اثر اقوام نے ماحولیاتی دہشت گردی کی اس ننگی واردات پر کہنہ سال ہندی وزیراعظم کا گھیرائو کیا ہوتا، لیکن یورپ اور امریکہ نے خود کو واجپائی کی زبانی کلامی سرزنش تک محدود رکھا۔
اس بے حس قسم کے رویے کی اس کے سوا اور کیا وجہ ہو سکتی تھی کہ یہ ممالک بذات خود خدائے مہربان کی عطا کردہ کائنات اور اس کے طبعی ماحول کی عصمت بربادکرنے کے بہت بڑے مجرم ہیں۔ اس بات میں کوئی جھول نہیں کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے بیسیوں ایٹمی تجربات کئے : تاہم انہوں نے کوئی تجربہ اپنے ملک کی سرزمین پر نہیں کیا تاکہ وہ خود تباہی سے بچے رہیں۔ ان تینوں ممالک نے اپنے ملک سے ہزارہا کلو میٹر دور بحراوقیانوس کے کم آباد جزیروں میں ایٹمی تجربات کر کے وہاں کے غریب باسیوں کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ ظاہر ہیِِ، انہیں برصغیر کی دھرتی پر ہونے والے ایٹمی تجربات کے نتائج سے کیا غرض ہو سکتی تھی؟ 
پوکھران کے صحرا سے اٹھنے والی ایٹمی دھول ہماری قیادت کے امتحان کا لمحہ تھی۔ پاکستان کے پاس بم تو موجود تھا لہٰذا اسے جوابی دھماکہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ سیاسی مصلحت بھی اسی میں پوشیدہ تھی اور دانسانیت کی بھلائی کا تقاضا بھی یہی تھا بلکہ اپنے ملک کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کا راستہ بھی یہی تھا۔
لیکن ہم نے اپنے جذبات پر قابو رکھنے اور قوم کے جوش پر ہوش کا چھینٹا دینے کے بجائے چاچا واجپائی کی دھوتی مضبوطی سے تھام لی اور چھ عدد جوابی دھماکے داغ مارے۔ چاغی کا پہاڑ سفید کرتے وقت اگر انہوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ اب بابائے قوم ایسی کوئی شے بن گئے ہیں اور انہوں نے دائمی مقبولیت کی ایورسٹ سر کر لی ہے تو وہ انتہائی غلطی پر تھے۔ آگے چل کر 28مئی کا دن ہی ان کے زوال کا ابتدائیہ ثابت ہوا۔ اسی دھماکے کی گونج میں انہوں نے فارن کرنسی اکائونٹ ضبط کر کے اپنے سیاسی مستقبل اور ملک کی معیشت پر تمت بالخیر کی مہر ثبت کر دی۔
مئی 1998ء میں واجپائی اورنواز شریف دونوں نے اپنے اپنے عوام کو یہی باور کرایا تھا کہ ان ایٹمی دھماکوں کے تابکاری اثرات بالکل ظاہر نہیں ہوں گے ؛ حالانکہ ایٹمی دھماکہ اگر تابکاری کے اثرات پیدا نہیں کرتا تو پھر وہ ایٹمی دھماکہ نہیں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ چار ہزار سنٹی گریڈ کی وہ حرارت جس میں پہاڑ جل کر خاشاک ہو جائیں وہ ہوا کو آلودہ نہ کرے؟ یا وہ ماحولیاتی عناصر کے طبعی توازن کو خراب کرنے کا موجب نہ بنے؟
ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی ان ایٹمی دھماکوں سے پہلے ہی خطرے کا سائرن بجا رہی تھی۔ پچھلے دس برسوں سے بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں میں بارشوں میں مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی۔ اس صورتحال کا حتمی نتیجہ پانی کی شدید قلت، فصلوں کی تباہی اور قحط کی صورت ہی میں نکلنا تھا۔ عالمی ماحولیاتی ادارے کی یہ رپورٹ واجپائی، نواز شریف اور ان کے 'بم بستہ‘ حواریوں کی نظر سے شاید نہیں گزری ہو گی کہ ( ایک دوسرے پر ایٹم بم چلائے بغیر ہی) صرف پچاس برس بعد آدھا بنگلہ دیش، کراچی اور ممبئی سمیت پاک و ہند کے بیشتر ساحلی علاقے سمندر کی تہہ میں غرق ہونے کا خدشہ ہے۔ اس موسمی تغیر و تبدل کے پس پشت عالمی ماحولیات کا کتنا اثر ہے اور خود ہمارا کتنا گناہ...اس بات کا تجزیہ کسی نے نہیں کیا؟
1960ء کی دہائی کے آخر اور 70ء کی دہائی کے اوائل میں یہ خبر بارہا عالمی میڈیا میں گونجتی رہی کہ امریکہ اپنا ایٹمی فضلہ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں دفن کر رہا ہے۔ امریکہ (اور سارے یورپ) کی یہ مشترکہ پالیسی رہی کہ وہ اپنا ایٹمی فضلہ افریقہ اور ایشیا کے غریب ممالک میں ڈھیر کرتے رہے۔ یہ زہر پھانکنے کے عوض ان پسماندہ ممالک کو بھاری سود پر قرضے یا باہمی کشت و خون کے لیے اسلحہ 'عنایت‘ کر دیا جاتا رہا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ایٹمی فضلے کے ڈرموں سے (زود یا بدیر) تابکاری کے اخراج کو نہیں روک سکتی۔
ایتھوپیا اور صومالیہ میں خشک سالی اور قحط کی ایک بڑی وجہ ان ممالک میں دفن کیے گئے ایٹمی فضلے سے تابکاری کا اخراج تھی۔ اگر پاکستان میں واقعی ایٹمی فضلے کے ڈھیر موجود ہیں تو پھر اس امکان کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان سے کہیں تابکاری کا اخراج نہ ہو رہا ہو۔ اندریں صورت ان ڈھیروں کا فوری معائنہ کیا جانا اور نقصانات کی ذمہ داری امریکہ پر ڈالنا اشد ضروری ہے۔ 
بہرطور مئی 1998ء میں کیے گئے گیارہ دھماکوں نے فضا اور ماحولیات کو مکمل طور پر مکدر کرتے ہوئے برصغیر کو تاریخ کی بدترین خشک سالی اور قحط کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ یہ ان ذروی(ایٹمی) دھماکوں کے ماحولیاتی نتائج کی پہلی قسط تھی۔ مئی 98ء کے بعد سے چاغی، پشین اور قلعہ عبداللہ کے علاقے میں بارش کا ایک بھی قطرہ نہیں ٹپکا۔ ایک عام اندازے کے مطابق صرف چاغی اور اس کے نواحی علاقہ جات میں اب تک ساڑھے سات لاکھ سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔
موت، قحط، طوفان، بم، بارود اور بدبختیوں کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ وہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی کو نہیں دیکھتے ؛ چنانچہ چاغی والے دھماکوں کا دائرہ اثر اگر قندھار تک تھا تو پوکھران کے دھماکوں سے پھیلنے والی شدید تابکاری کے باعث چولستان اور تھر کے پاکستانی علاقے بھی شدید خشک سالی کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔ ان علاقوںمیں بھی مئی 1998ء کے بعد سے کوئی بارش نہیں ہوئی تھی۔ ایک عام اندازے کے مطابق عمر کوٹ میں 17فیصد اور تھر میں 10فیصد مویشی ہلاک ہو چکے تھے۔ چولستان میں 65ہزار سے زائد مویشی لقمۂ اجل بنے اور اس کی 80فیصد آبادی پنجاب کی جانب ہجرت کر گئی۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق چار سو سے زائد افراد قحط کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ خوراک کی کمی کے باعث ٹی بی اور دوسرے امراض انتہائی تیزی سے پھیلے۔ دوسری جانب اس بات کا شدید خطرہ بھی موجود تھا کہ جب بارشیں شروع ہو گئیں تو ان کی کثرت کہیں سیلابی تباہی کی شکل اختیار نہ کر لے۔
بھارت کے تھر میں کل جانی اور مالی نقصان کا صحیح عدد تو میرے پاس موجود نہیں لیکن عالمی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق بھارت کے علاقے میں قحط اور خشک سالی کی شدت ہم سے زائد رہی۔ مختصراً یوں جانیے کہ دونوں پاک، بھارت جنگوں میں جانبین کا اتنا جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا جتنا قحط سالی کے ہاتھوں ہوا۔ یہ نقصان ایٹمی دھماکوں کا ایک ہلکا سا ٹریلر ہے۔ جس دن اصل 'ایٹمی گھمسان‘ پڑے گا اس روز پورا برصغیر پوکھران اور چاغی کی مانند ہو جائے گا!
اگر واجپائی اُس خشک سالی کے دور میں بھی گنگا جل سے اشنان فرما رہے تھے تو اِدھر اسلام آباد کے سرکاری محلات میں بھی معدنی پانی کی کوئی کمی ، قلت یا قحط نہیں تھا۔ہمارے ایک اسیر رہنما کا قوم اور عوام کے لیے صرف ایک ہی پیغام تھا کہ انہیں جیل میں صحیح خوراک نہیں دی جا رہی۔ ادھر بڑے بڑے مجتہدین کی آرام گاہوں میں ایئرکنڈیشنر چل رہے تھے تو دوسری طرف ہمارے سیاستدانوں کا طائفہ بھی زندگی کی ہر سہولت سے فیضیاب تھا۔ اگر جج اور وکلاء قانونی موشگافیوں میں مشغول تھے تو صنعتکار اور دکاندار ادائیگی محصولات کی تحریک چلانے میں مصروف۔ سرحد کے اس پار اگر 'محسن ہندوستان‘ ڈاکٹر ابوالکلام خیر وعافیت سے تھے تو اِس جانب 'محسن پاکستان‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی راضی و خوش۔ رہی خشک سالی اورقحط تو وہ آگ کے صحرا میں جلتے دہقانوں یا خشک پہاڑوں پر ٹھوکریں کھاتے چرواہوں کا مقدر تھے؟ کچھ لوگ یہ بیان دینے میں مصروف تھے کہ عوام اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ یوں تو اللہ سے معافی مانگنا ہر انسان پر فرض ہے لیکن مسئلہ اگر گناہوں کی معافی طلب کرنے کا تھا تو پھر اُن لوگوں کو اللہ سے معافی مانگنی چاہیے جنہوں نے مادرِ فطرت کی کوکھ میں ایٹمی آگ بھڑکائی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں