مہنگائی اور بجلی بلوں کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں‘ جمعہ کے روز ملک کے اکثر شہروں میں تاجر تنظیموں کی کال پر ہڑتال کے سبب تجارتی مراکز بند رہے۔ یہ سلسلہ ہفتہ کے روز بھی جاری رہا‘ پاکستان گڈز ٹرانسپورٹرز کی تنظیم نے ہفتہ کو تمام بکنگ ایجنسیاں بند کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ بجلی بلوں اور مہنگائی کے خلاف عوامی احتجاج کا دائرہ پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔ مہنگائی پر عوامی احتجاج بجا ہے کیونکہ اگست کے ایک ماہ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فی لیٹر 60 روپے تک کا اضافہ ہوچکا ہے‘ چینی جیسی بنیادی چیز بھی عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ جب بجلی و گیس کے بل اور آٹا‘ چینی اور پٹرول جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ عام شہریوں کی دسترس سے باہر ہوں گی تو وہ حکمرانوں سے شکوہ کناں تو ہوں گے۔ عوام ریلیف کے خواہاں ہیں لیکن لگتا ہے کہ خزانہ خالی ہونے کی بنا پر حکومت کیلئے عوام کو ریلیف فراہم کرنا آسان نہیں۔ ارباب حل و عقد چاہتے ہیں کہ عوام مسائل کی سنگینی کا خود ادراک کریں اور احتجاج سے گریز کریں‘ حکمرانوں کا یہ رویہ عوام کی مشکلات کو دوچند کر دیتا ہے۔مشکلات آخر عوام کا مقدر ہی کیوں؟ عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پچھلے آٹھ دس برسوں میں ایسی کیا آفت آن پڑی کہ ہم معاشی بحران کا شکار ہو گئے؟ حکمرانوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ‘ پھر عوام حکمرانوں کی ناکامیوں کے بوجھ تلے خاموشی سے زندگی کیوں گزاریں؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ عوام کو احتجاج سے کوئی ریلیف ملنے والا نہیں‘ عوام سراپا احتجاج ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ بیداری کی لہر پیدا ہو رہی ہے‘ جسے پُرتشدد فسادات میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ایسے موقع پر اگر عوام کے دکھوں کا مداوا نہ کیا گیا تو پھر سب کا سکون برباد ہو جائے گا۔
ماضی قریب میں ہونے والے سیاسی احتجاج بندوبست کا نتیجہ تھے اس لئے محدود پیمانے پر رہے اور جب اشارہ ملا تو احتجاج بھی ختم ہو گیا اب کی بار حالات ذرا مختلف ہیں۔ اکثر سیاسی جماعتیں حکومت کا حصہ رہی ہیں اس لئے ان کے پاس احتجاج میں شامل ہونے کا کوئی جواز نہیں کیونکہ وہی دراصل موجودہ حالات کی ذمہ دار ہیں۔ وہ احتجاج میں کیونکر شامل ہوں گی؟ پاکستان تحریک انصاف عتاب کا شکار ہے‘ احتجاج میں شامل ہونے کی پوزیشن میں نہیں‘ لے دے کر جماعت اسلامی رہ جاتی ہے جو مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاجی مہم چلائے ہوئے ہے‘ اس لئے حالیہ احتجاج خالصتاً عوامی احتجاج ہے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے حقائق کے برعکس مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کے بلوں کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے‘ نگران وزیراعظم کے بقول پاکستان میں اس وقت کوئی بحران نہیں ‘ ایک منصوبہ بندی کے تحت بے یقینی اور مایوسی پھیلائی جا رہی ہے۔ چونکہ پاکستان کے عمومی حالات میں اپنی ناکامی چھپانے کیلئے ہنگامے برپا کر کے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کی روش پائی جاتی ہے اس لئے نگران وزیر اعظم نے موجودہ حالات کو بھی اسی پر قیاس کیا۔ ہم دو ادوار کے موازنے سے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسلم لیگ( ن) 2018ء سے پہلے کی کارکردگی پیش کرتی ہے کہ اُس وقت ہر شعبے میں ترقی ہورہی تھی جسے ڈی ٹریک کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن)کی طرف سے یہ اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں کہ ڈالر 105 روپے کا‘ غیر ملکی ذخائر20ارب ڈالر‘ آٹا38 روپے کلو‘ بجلی آٹھ روپے فی یونٹ‘ پٹرول72روپے فی لٹر‘ جی ڈی پی گروتھ ریٹ 6.1‘ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم ڈھائی ارب ڈالر سے زائد جبکہ آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہا جا چکا تھا۔ یہ درست ہے کہ تبدیلی کے نام پر ملک کو ترقی سے محروم رکھنے کی ایک سازش کی گئی لیکن اگست 2018 ء سے مارچ 2022ء تک کے تحریک انصاف کے دور کا موازنہ بھی پیش کیا جانا چاہئے اسی طرح اپریل 2022ء سے اگست 2023ء کے سولہ ماہ کا موازنہ بھی پیش کیا جانا چاہئے۔ پچھلے پانچ برسوں میں ایسی کیا تباہی آئی کہ ڈالر 105 روپے سے 300سے تجاوز کر گیا۔ آج اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی اہم وجہ ڈالر کی قیمت ہے تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کو مستحکم رکھنا کس کی ذمہ داری تھی؟ ڈالر کی شرح میں اضافے پر باقی چیزوں کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔
فی کس آمدن سے کسی بھی ملک کے شہریوں کے معیارِ زندگی کو جانچا جا تا ہے‘ اس ضمن میں دیکھا جائے تو پاکستان کا شمار کم ترین فی کس آمدن والے ممالک میں ہوتا ہے‘ گزشتہ سال کی نسبت رواں سال میں فی کس آمدن میں کمی ہوئی ہے جس سے شہریوں کی قوت ِخرید متاثر ہوئی ہے۔ اب لوگوں کی سکت جواب دے گئی تو وہ سراپا احتجاج ہیں ‘مگر یہاں عوام کا درد سمجھنے والا کوئی نہیں۔ قوتِ خرید کو سادہ لفظوں میں ''جیب اجازت نہیں دیتی‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے‘ اگر عام شہری کی جیب بنیادی ضروریات کی بھی متحمل نہیں تو اربابِ اختیار کیلئے یہ سوچنے کا مقام ہونا چاہئے۔ ماضی میں مارشل لا ء ادوار کا جائزہ لیں تو کسی درجے میں نام نہاد ہی سہی انتخابات کرائے گئے اور عوام کو کم از کم جینے کا حق حاصل تھا‘ بنیادی ضروریات کی اشیا عوام کی دسترس میں تھیں اب بظاہر جمہوری ادوار ہیں مگر عوامی قوتِ خرید کو مدنظر رکھے بغیر قیمتوں میں اضافے کو ہی ہر مسئلے کا حل سمجھ لیا گیا ہے۔ اہل ِاقتدار ایک بات سے بے خبر ہیں کہ جب بھوکے ننگے اور مجبور عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ان کے آگے مضبوط سے مضبوط حکومتیں بھی ٹھہر نہیں سکتی ہیں۔
قانون کی بے توقیری کے ساتھ کوئی بھی معاشرہ ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا‘ کل تک جن سیاسی رہنماؤں کو شکوہ تھا کہ ریاستی مشینری کو پوری قوت کے ساتھ ان کے خلاف استعمال کیا گیا اقتدار میں جب انہیں موقع ملا تو برسوں سے جاری سیاسی انتقام کے حربے کو پوری شد و مد کے ساتھ دہرایا گیا۔ صورتحال یہ ہے کہ عدالتیں بریت کا فیصلہ سناتی ہیں‘ ضمانت پر رہا کرتی ہیں مگر جیل یا تھانے کے گیٹ پر ہی ملزم کو کسی دوسرے کیس میں دھر لیا جاتا ہے۔ جمعہ کو لاہور ہائی کورٹ نے چودھری پرویز الٰہی کو رہا کرتے ہوئے پولیس کو واضح احکامات دیئے تھے کہ انہیں کسی مقدمہ میں گرفتار نہ کیا جائے‘ جبکہ انہیں کسی قانون کے تحت نظر بند بھی نہیں رکھا جا سکے گا‘ تاہم پولیس چوہدری پرویز الٰہی کو لے کر ابھی ان کے گھر تک بھی نہیں پہنچی تھی کہ اسلام آباد پولیس نے انہیں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم پر تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کر لیا۔ اگر 77سالہ چوہدری سابق وزیر اعلیٰ کی نظر بندی مقصود تھی تو وہ گھر پر بھی کی جا سکتی تھی‘ جیسے ماضی میں سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کیا جاتا رہا ہے۔ امید تھی کہ اتحادی حکومت ختم ہوتے ہی حالات معمول پر آ جائیں گے کیونکہ نگران حکومتیں غیر جانبدار ہوتی ہیں‘ اور ان کا اولین مقصد شفاف انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے‘ تاہم نگران دور میں بھی سابق دور ہی کی پالیسیاں جاری ہیں اور سیاسی حریفوں کو تحفظات ہیں کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انتخابات سے فرار ہرگز مسائل کا حل نہیں ‘ جب انتخابات کی طرف ہی جانا ہے تو پھر بلاوجہ تاخیر کیوں؟ گزشتہ ایک سال میں معاشی نقصان کا تخمینہ کئی دہائیوں سے زیادہ سے ہے‘ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ اعلیٰ سطح پر حالات کی سنگینی کا ادراک کر لیا گیا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کا دورانیہ کم کر کے 30نومبر تک مکمل کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ نگران حکومت کی تشکیل کی طرز پر اگر عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو یکساں لیول پلینگ فیلڈ مہیا نہ کیا گیا تو انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھیں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے یکساں مواقع فراہم کرنا الیکشن کمیشن اور اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔اس سے رو گردانی ملک کو مزید مسائل سے دوچار کر سکتی ہے۔