تحریک انصاف کی انتخابات میں عدم شمولیت سے الیکشن کی شفافیت پر سوالات اٹھیں گے۔ اگر تحریک انصاف کو الیکشن سے باہر رکھنے کی دانستہ کوشش ہوئی اور جیسے تیسے کر کے انتخابات ہو گئے تو آگے چل کر سیاسی جماعتوں کیلئے اپنے اس عمل کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا‘ اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں کسی ایسے عمل کی حمایت سے باز رہیں جو کل کسی دوسری جماعت کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہو۔ تسلیم کہ تحریک انصاف پر باقاعدہ منصوبہ بندی سے نو مئی کو قومی اداروں پر حملوں کا الزام ہے‘ چیئرمین پی ٹی آئی پر سیاسی مقاصد کیلئے مقتدرہ مخالف بیانیہ تشکیل دینے اور سوشل میڈیا کے ذریعے کارکنوں کو اُکسانے کا بھی الزام ہے‘ لیکن ان کیلئے سب سے بڑی سزا پارٹی کا بکھرنا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف ایسے مقام پر کھڑی ہے کہ قافلہ تو ہے مگر اسے منزل تک لے جانے والے رہنما نہیں ۔
اب انتخابات میں تحریک انصاف کی بھر پور نمائندگی و شمولیت کیلئے کچھ آوازیں اٹھنے لگی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ آغاز کہاں سے ہو؟ کیونکہ چیئرمین پی ٹی آئی جب اقتدار میں تھے تو وہ اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہ تھے‘ ان کے مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد بھی ان کے پاس مذاکرات کے متعدد مواقع آئے مگر مقبولیت کی بنا پر وہ اپنی شرائط سے پیچھے ہٹ کر مذاکرات کیلئے تیار نہ تھے۔ نو مئی سے چند روز قبل گیم چیئرمین پی ٹی آئی کے ہاتھ میں تھی۔ تحریک انصاف کا پی ڈی ایم حکومت پر الیکشن کی تاریخ کیلئے دباؤ کافی حد تک کارگر ثابت ہو رہا تھا اور حالات کو معمول پر لانے کیلئے غیر جانبدار حلقے انتخابات کیلئے کسی ایسی تاریخ کی تجویز دے رہے تھے جو تمام فریقوں کو قابلِ قبول ہو۔ شنید ہے کہ پی ڈی ایم حکومت لچک کا مظاہرہ کرنے کیلئے تیار تھی مگر پی ٹی آئی چیئرمین معمولی لچک کیلئے بھی آمادہ نہ تھے۔ وہ سپریم کورٹ سے الیکشن کی تاریخ کے معاملے کا حل چاہتے تھے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں کیس چلتا رہا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو الیکشن کیلئے فنڈز جاری کرنے کے احکامات بھی جاری کیے مگر اس پر عملدرآمد نہ کیا جا سکا۔ متعدد سماعتوں کے بعد اُس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے الیکشن کی تاریخ کا مسئلہ حل کریں تو بہتر ہو گا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے الیکشن کی تاریخ کا معاملہ سیاستدانوں پر چھوڑ دیا مگر چیئرمین پی ٹی آئی نہ سمجھے اور اپنی شرائط پر اڑے رہے۔
الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان رواں برس 27اپریل کو مذاکرات کا پہلا دور ہوا۔ مذاکرات میں حکومت کی طرف سے اسحاق ڈار‘ اعظم نذیر تارڑ‘ خواجہ سعد رفیق‘ یوسف رضا گیلانی‘ سیدہ کشور زہرا اور سید نوید قمر شامل تھے۔ تحریک انصاف کے وفد میں وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی‘ سینئر نائب صدر فواد چودھری اور سینیٹر سید علی ظفر شامل تھے۔ مذاکرات کے تین دور ہوئے مگر چیئرمین پی ٹی آئی نے شرط عائد کر دی کہ جب تک 14مئی کو تمام اسمبلیاں تحلیل نہیں کر دی جاتیں‘ بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ تحریک انصاف کے پاس یہ بہترین موقع تھا‘ اگر سیاسی بصیرت اور لچک کا مظاہرہ کیا جاتا تو سب کچھ گنوانے کی بجائے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا۔ شاید ایسے ہی مواقع کیلئے کہا گیا ہے کہ لمحوں نے خطا کی تھی‘ صدیوں نے سزا پائی۔
مذاکرات ناکام ہونے کے محض چند روز بعد نو مئی کے ناخوشگوار واقعات پیش آگئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی اپنے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر گیم اُلٹ گئی۔ معلوم ہوا کہ کچھ نہیں‘ بلکہ بہت کچھ غلط ہو گیا ہے۔ پھر 28مئی کو اپنے طور پر شاہ محمود قریشی‘ پرویز خٹک‘ اسد قیصر‘ حلیم عادل شیخ‘ عون عباس بپی‘ مراد سعید اور حماد اظہر پر مشتمل سات رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا اس لیے پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ کسی نے مذاکرات کرنا گوارا نہ کیا اور پی ٹی آئی‘ جو کل تک مذاکرات کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہ تھی‘ یہ کہتی دکھائی دی کہ ہم تو مذاکرات کرنا چاہتے ہیں مگر کوئی بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چیئرمین پی ٹی آئی آج جس مقام پر کھڑے ہیں اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ اب آگے دو راستے ہیں‘ ایک یہ کہ انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے اور وہ تاریخ کا حصہ بن جائیں۔ یہ راستہ بظاہر آسان ہے لیکن دیرپا اور مستقل حل نہیں کیونکہ ان کی سیاسی غلطیوں کی اگر انہیں یہ سزا دی گئی تو دوسرے سیاستدانوں کو بھی اسی فارمولے کے تحت سزا دینے کا مطالبہ کیا جانے لگے گا۔ اس لیے اہلِ سیاست کو کوئی ایسی مثال قائم نہیں کرنی چاہیے جو خود اُن کیلئے مشکل کا باعث بن جائے۔ دوسرا راستہ ذرا مشکل ہے لیکن دیرپا حل کا حامل ہے۔ وہ یہ کہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے اس کے باوجود کہ مذاکرات کی سب سے زیادہ ضرورت تحریک انصاف کو ہے‘ اس اعتبار سے اسے ہی پہل کرنی چاہیے تاہم مذاکرات کے ضمن میں دیگر جماعتیں بھی ان غلطیوں سے گریز کریں جو چیئرمین تحریک انصاف کرتے آئے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کیلئے کیا یہ کم سزا ہے کہ جن سیاسی حریفوں کو وہ چور اور لٹیرے کہتے تھے‘ آج ان سے مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔ جس فریق کو مذاکرات کی ضرورت ہوتی ہے اسی کو آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے تحریک انصاف کے پاس اس وقت مذاکرات کے علاوہ کوئی ا راستہ نہیں تو اسے ہی پہل کرنا ہو گی۔ میاں نواز شریف یا مولانا فضل الرحمن‘ جنہیں چیئرمین پی ٹی آئی مختلف القاب سے پکارتے رہے ہیں‘ جیل میں جا کر مذاکرات کی پیشکش نہیں کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) چاہے گی کہ الیکشن کے بعد مذاکرات ہوں جبکہ الیکشن سے قبل اپنے آپ کو قابلِ قبول بنانا پی ٹی آئی کی ضرورت ہے‘ لیکن مذاکرات کا آغاز اسی صورت ہو گا جب چیئرمین پی ٹی آئی اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں گے اور چوہدری پرویز الٰہی‘ شاہ محمود قریشی جیسے اپنے ساتھیوں پر اعتماد کریں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے بیٹے ملک سے باہر ہیں اور عملی سیاست سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں‘ اس لیے ان کی اہلیہ بشریٰ بیگم اور ان کی بہن علیمہ خان‘ جو جیل میں ان سے ملاقاتیں بھی کر رہی ہیں‘ ان سمیت سینئر پارٹی قیادت کو مینڈیٹ دینا ہو گا۔ پاکستانی معاشرے میں خواتین کا احترام کیا جاتا ہے جس طرح ماضی میں جب مسلم لیگ (ن) پر کڑا وقت آیا تو شریف خاندان کی خواتین بالخصوص محترمہ کلثوم نواز اور مریم نواز نے کردار ادا کیا۔ اسی طرح پی ٹی آئی کی خواتین بھی پارٹی کو مشکلات سے باہر نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
چند روز قبل مولانا فضل الرحمن سے پی ٹی آئی کے وفد نے ملاقات کی جس میں اسد قیصر‘ علی محمد خان‘ بیرسٹر سیف اور جنید اکبر شامل تھے۔ مولانا نے انہیں اپنے دروازے سے واپس نہیں کیا۔ اسی طرح کی ملاقات کا اہتمام اگر میاں نواز شریف کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ بھی اپنے دروازے بند نہیں کریں گے کیونکہ سیاست میں بات چیت کیلئے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے جاتے ہیں۔ کَلٹ کی صورت جماعت کو چلانا اور بدزبانی پر سیاست کا انحصار اب چلنے والا نہیں ۔ پی ٹی آئی کو اپنے غلط رویوں سے رجوع کرنا اور دو قدم پیچھے ہٹنا ہوگا‘ جب تک ان رویوں میں تبدیلی نہیں آتی ہے مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ ایسے رویے کے ساتھ اگر چیئرمین پی ٹی آئی کی سیاست جاری بھی رہتی ہے تو وہ اتنی کمزور ہو گی جسے نقار خانے میں طوطی کی آواز سے تعبیر کیا جائے گا۔