پہلگام واقعے کو جواز بنا کر بھارت نے جب پاکستان پر جارحیت کا منصوبہ بنایا تو اسے کئی ممالک نے خیر خواہی کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی مگر مودی کی ایک ہی رٹ تھی کہ پاکستان کو گھس کر مارنا ہے‘ سو اس نے اپنے منصوبے کے مطابق پاکستان پر چڑھائی کے مذموم منصوبے کو عملی شکل دی۔ پاکستان نے اس کی توقع سے کہیں زیادہ اور مؤثر جواب دیا۔ پاکستان کے جواب کی گونج پوری دنیا میں اس شدت کے ساتھ سنائی دی کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک نئے موضوع پر بحث کا آغاز ہو چکا ہے اور وہ موضوع ہے چینی ٹیکنالوجی کی برتری۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں ایک نیا عسکری توازن رونما ہو رہا ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگی کشیدگی نے خطے میں فوجی طاقت کا ایک نیا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ اس تنازع میں پاکستان نے اپنے مضبوط دفاع‘ جرأت مندانہ حکمت عملی اور دشمن کے خلاف فوری اور کارگر جوابی کارروائیوں سے سبقت حاصل کی۔ خاص طور پر چین کے جدید ہتھیاروں اور دفاعی ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی‘ تاہم اصل کامیابی ان بہادر پاکستانی فوجیوں‘ پائلٹوں اور آپریٹرز کی ہے جنہوں نے ان جدید ہتھیاروں کو نہ صرف استعمال کیا بلکہ دشمن کے ارادوں کو پہلے سے بھانپ کر انہیں ناکام بھی بنایا۔ جے ایف17 تھنڈر بلاک iii‘ جے 10 سی فائٹر جیٹ اور ایچ کیو 9 بی ایئر ڈیفنس سسٹم جیسے جدید چینی ہتھیاروں کے کامیاب استعمال نے بھارت کے اینٹی ایئر کرافٹ سسٹم ایس 400‘ رافیل اور دیگر مغربی ساختہ نظاموں کو بے اثر کر دیا۔ خیال رہے ایس400 ایک ایسا فضائی دفاعی نظام ہے جو زمین سے لانچ ہو کر طویل فاصلے تک پرواز کرنے والے مختلف فضائی اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ نظام بنیادی طور پر طیاروں‘ ڈرونز‘ کروز اور بیلسٹک میزائلوں جیسے فضائی خطرات سے دفاع کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کے انٹرسیپٹر میزائل تیزی کے ساتھ ہدف تک پہنچ سکتے ہیں اور یہ 400 کلومیٹر تک کے فاصلے پر متعدد اہداف کو بیک وقت نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب چین کا ہائپر سونک میزائل سسٹم ایک بالکل مختلف نوعیت کا ہتھیار ہے۔ یہ آواز کی رفتار سے پانچ گنا یا اس سے بھی زیادہ تیزی سے سفر کرتا ہے اور پرواز کے دوران سمت تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے جس کی وجہ سے روایتی دفاعی نظاموں کیلئے اسے روکنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ہائپر سونک میزائل عام طور پر ایک وقت میں ایک ہی ہدف کو نشانہ بناتے ہیں لیکن ان کی اصل طاقت ان کی ناقابلِ یقین رفتار اور دفاعی نظام کو چکما دینے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔
چین نے سٹیلائٹ نگرانی کے میدان میں بھی تیزی سے ترقی کی ہے جس کے نتیجے میں اس کے پاس فعال سیٹلائٹس کا وسیع اور جدید نظام موجود ہے۔ ان سیٹلائٹس میں ایسی ٹیکنالوجیز شامل ہیں جو دن اور رات کے مختلف اوقات میں اور ہر طرح کے موسم میں زمین کی واضح تصاویر فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ خاص طور پر سینتھیٹک اپرچر ریڈار کی صلاحیت بادلوں کے باوجود بھی زمین کا جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے جو روایتی آپٹیکل سیٹلائٹس کے مقابلے میں اہم پیش رفت ہے۔ چین نے ایسے آپٹیکل سیٹلائٹ بھی تیار کیے ہیں جو غیر معمولی طور پر ہائی ریزولیوشن تصاویر لے سکتے ہیں‘ یہاں تک کہ زمین سے سینکڑوں کلومیٹر کی بلندی پر موجود چھوٹی چھوٹی چیزوں کی بھی واضح تفصیلات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح جیو سٹیشنری مدار میں موجود سیٹلائٹ ایک مخصوص جغرافیائی علاقے پر مستقل نظر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو بحرالکاہل اور بحر ہند جیسے اہم سمندری خطوں کی نگرانی کیلئے بہت اہم ہے۔ چین کا اپنا نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم بھی نگرانی کے نظام کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے جس سے جغرافیائی معلومات کی درستی اور بروقت دستیابی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ بعض حلقوں کا تو یہاں تک خیال ہے کہ چین اس ڈیٹا کا تجزیہ کرنے اور اہم معلومات کو تیزی سے نکالنے کیلئے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک بھی اس میدان میں مضبوط ہیں لیکن چین کی تیز رفتار ترقی نے اس خلائی دوڑ میں ایک نیا اور اہم عنصر شامل کر دیا ہے۔ یہ وہ زمینی حقائق اور عوامل ہیں جنہوں نے عالمی دفاعی ماہرین اور تجزیہ کاروں کو چین کی تکنیکی برتری اور پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی مشین چاہے وہ کتنی ہی جدید کیوں نہ ہو‘ اس کی اصل طاقت اسے چلانے والے انسان میں ہوتی ہے۔ پاک فوج نے ان جدید نظاموں کو نہ صرف مہارت سے چلایا بلکہ بروقت اور فیصلہ کن کارروائیوں سے دشمن کو حیران کر دیا۔
پاک بھارت حالیہ جنگ صرف ہتھیاروں کی دوڑ نہیں تھی بلکہ یہ جذبے‘ تربیت‘ ذہانت اور قومی وقار کا امتحان تھا اور پاکستان اس میں کامیاب رہا۔ پاک فضائیہ کے ہوا بازوں نے دشمن کے جنگی جہازوں کو فضا میں تباہ کیا‘ بری فوج کی سرحدوں پر موجودگی نے دشمن کو پیش قدمی سے روکا جبکہ پاک بحریہ نے سمندری حدود میں دشمن کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ ان تمام کامیابیوں کے پیچھے ایک ایسی طاقت تھی جو جدید ٹیکنالوجی سے لیس اور اپنے مقصد پر یقین رکھتی تھی۔ چین کا خاموش صنعتی اور عسکری انقلاب اب سب کے سامنے آ چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت‘ الیکٹرانک وارفیئر‘ سیٹلائٹ سے نگرانی اور ہائپر سونک میزائل جیسے نظام اب صرف چین تک محدود نہیں رہے بلکہ پاکستان جیسے قریبی دوست کے ہاتھوں ان ٹیکنالوجیز نے میدانِ جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اب دنیا کو ''میڈ اِن چائنہ‘‘ کو صرف ایک سستا متبادل نہیں بلکہ ایک مکمل دفاعی اور صنعتی معیار بھی تسلیم کرنا ہو گا۔ امریکہ اور مغرب کے روایتی تاثرات پر انحصار کم کرنا ہو گا۔ اب دنیا نے جان لیا ہے کہ مشرق میں ایک ایسا اتحاد اُبھر چکا ہے جو نہ صرف دشمن کے حملوں کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ مستقبل کی جنگوں کیلئے نیا معیار بھی طے کر رہا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ مغرب نے اپنے مفادات کی خاطر بھارت کو چین کے متبادل کے طور پر خطے میں کھڑا کرنے کیلئے ہر طرح کی سپورٹ کی مگر یہ کوششیں اس وقت سوالات کی زد میں ہیں کیونکہ چین ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں برتری حاصل کر چکا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اور عالمی ماہرین بھی اب چین کی اس بالادستی کو تسلیم کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ مغربی ممالک کے تعاون کے باوجود اگر بھارت اپنے سے کئی گنا چھوٹے ملک‘ پاکستان کے سامنے چند گھنٹے بھی نہ ٹھہر سکا تو وہ ٹیکنالوجی اور فوجی قوت میں اپنے سے کہیں زیادہ مضبوط چین کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ معروف برطانوی دفاعی تجزیہ کار پروفیسر مائیکل کلارک کے حالیہ تبصرے نے اس بحث کو مزید تقویت بخشی ہے۔ ان کے مطابق اگر پاکستان نے چینی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بھارتی رافیل طیارے کو مار گرایا ہے تو یہ ایک حیران کن پیشرفت ہے۔
پاک بھارت جنگ اب تھم چکی ہے‘ یہ جنگ بظاہر پاکستان نے لڑی ہے‘ یقینی طور پر فتح بھی ہماری ہے مگر خوشی پورے عالم اسلام میں ہے۔ پوری امت مسلمہ خوشی سے سرشار ہے۔ چین میں بھی مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جنگ میں شکست نے بھارت کے سیاسی منظرنامے پر یہ تاثر گہرا کر دیا ہے کہ پاکستان اور چین اس کے مشترکہ حریف ہیں‘ بھارت یہ محسوس کر رہا ہے کہ اسے کاری ضرب تو دراصل کی چین کی طرف سے لگی ہے۔