"RS" (space) message & send to 7575

افغان طالبان کا امتحان

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پاکستان کو اپنی مغربی سرحد پر افغانستان کی سرزمین سے سکیورٹی خدشات اور دراندازی کا مسلسل سامنا رہتا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کو اپنی سلامتی یقینی بنانے کیلئے سرحدی کراسنگ پوائنٹس کی بندش جیسے سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور کرتی ہے‘ جبکہ افغانستان کو ان سرحدی کراسنگ پوائنٹس کی بندش سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ اپنی غذائی ضروریات سمیت دیگر تجارتی سرگرمیوں کیلئے کافی حد تک پاکستان پر انحصار کرتا ہے۔ جب راستے بند ہوتے ہیں تو افغانستان میں اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہوتی ہے اور اس کی معیشت بھی متاثر ہوتی ہے‘ جس سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا خراب ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے جہاں ایک ملک کے خدشات دوسرے کی مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ بسا اوقات معمولی واقعہ کشیدگی کا سبب بنتا ہے اور یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہتا ہے۔ دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے تحفظات ہیں مگر ان کی نوعیت مختلف ہے۔ چین نے پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کو بیجنگ بلا کر ان تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی۔ بیجنگ میں ہونے والی سہ فریقی وزرائے خارجہ ملاقات میں چین نے دونوں ملکوں پر زور دیا کہ وہ اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں‘ دوطرفہ ملاقاتیں کریں‘ ایک دوسرے کیلئے بارڈر کھولیں اور دراندازی کا سلسلہ ختم کریں۔ عالمی سطح کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیوکے تناظر میں چین نے مشترکہ ترقی کے فلسفے کو فروغ دیا جس پر افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بھی آمادگی ظاہر کی۔ اس ملاقات کا سب سے اہم نتیجہ افغانستان کی سی پیک میں شمولیت پر اتفاقِ رائے تھا جو خطے کی ترقی کیلئے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ سی پیک میں افغانستان کی شمولیت کے بعد ایم ایل وَن ریلوے لائن‘ کاسا 1000 اور تاپی گیس پائپ لائن جیسے اہم منصوبوں پر کام میں تیزی آنے کی امید ہے۔ یہ منصوبے نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ پورے خطے کو اقتصادی ترقی کے نئے مواقع فراہم کریں گے اور باہمی انحصار کو فروغ دیں گے۔ چین کی ضمانت پر افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی ترقی کے مشترکہ فلسفے کو مان گئے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ امیر خان متقی جس ذہن کے ساتھ بیجنگ میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات کرکے واپس آئے ہیں کیا افغان قیادت بالخصوص قندھاری گروپ کو بھی اس پر قائل کر سکیں گے؟ کیونکہ افغانستان کے داخلی حالات بدستور پیچیدہ ہیں۔ قندھاری گروپ کا اپنا طرزِ فکر ہے اور سراج الدین حقانی‘ جو کچھ عرصے سے حکومتی معاملات سے تقریباً لاتعلق تھے اب دوبارہ متحرک ہوئے ہیں اور دوست ممالک کے تعاون سے انہیں حکومت میں حصہ ملا ہے۔ افغانستان کے اندرونی معاملات میں سعودی عرب‘ قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان اندرونی دھڑوں کو چین میں طے پانے والے سمجھوتوں پر قائل کرنا افغان قیادت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔ امیر خان متقی جس ذہن کے ساتھ بیجنگ سے واپس آئے ہیں ان کیلئے قندھاری گروپ کو اس پر قائل کرنا کسی امتحان سے کم نہیں ہو گا۔
یہ ایک مثبت اشارہ ہے کہ افغانستان کی قیادت اب ماضی کے برعکس سفارت کاری کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ چین میں یہ بھی طے ہوا کہ پاکستان اور افغانستان مستقل بنیادوں پر ملاقاتیں کریں گے۔ اگلی ملاقات کابل میں ہونا طے پائی ہے جس کا بندوبست اور سکیورٹی انتظامات سمیت سازگار ماحول فراہم کرنا افغان طالبان کی ذمہ داری ہے۔ اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جو کشیدگی گزشتہ عرصے میں پیدا ہو چکی تھی وہ ختم ہو گی اور اعتماد کی فضا قائم ہو گی۔ ہم نے انہی سطور میں پہلے بھی لکھاتھا کہ پاکستان اور افغانستان جغرافیائی سرحدوں سے کہیں بڑھ کر مذہب اور ثقافت کے لازوال رشتوں میں بندھے فطری اتحادی ہیں۔ ہماری مشترکہ مذہبی اور ثقافتی اقدار تقاضا کرتی ہیں کہ ہم مشترکہ ترقی کے سفر میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ یہی وقت ہے کہ افغان قیادت اس حقیقت کا ادراک کرے کہ افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی کسی بھی دراندازی کا اصل فائدہ کس کو پہنچتا ہے۔ انہیں یہ بات بخوبی سمجھ لینی چاہیے کہ ان کی سرزمین کو بھارتی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کیلئے استعمال کرنا اب آسان نہیں رہا۔ ایسا کرنے کی صورت میں نہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات بری طرح متاثر ہوں گے بلکہ اس کے منفی اثرات چین اور افغانستان کے تعلقات پر بھی پڑیں گے۔ یقینا افغانستان کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ کسی ایسے ایجنڈے کا حصہ بنے جس سے چین ناراض ہوتا ہو۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ افغان قیادت نے اب کسی بیرونی قوت کو کندھا فراہم کرنے کے بجائے اپنے ملک اور عوام کی ترقی کو سامنے رکھتے ہوئے سی پیک میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک دور اندیشانہ قدم ہے جو خطے کی خوشحالی کیلئے نئی راہیں کھولے گا۔ شاید انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ ملک کو پائیدار ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کیلئے محض وقتی بین الاقوامی امداد کافی نہیں۔ اس محدود امداد پر انحصار افغانستان کو محض ایک ''امدادی معیشت‘‘ تک محدود رکھتا ہے جو طویل مدتی خود مختاری اور استحکام کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ اس کے برعکس سی پیک طرز کے بڑے اور جامع ترقیاتی منصوبوں میں شمولیت پائیدار حل ہے۔ یہ میگا پروجیکٹس افغانستان کو نہ صرف علاقائی تجارتی راہداریوں سے منسلک کریں گے بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کے نئے دروازے بھی کھولیں گے۔ تاہم افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بیجنگ میں جس آمادگی کا اظہار کیا ہے‘ اسے عملی شکل دینا ہی اصل کامیابی ہو گی۔ کاغذ پر طے پانے والے معاہدے تبھی ثمر آور ہوں گے جب انہیں عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ افغانستان کو داخلی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک مضبوط اور متحد مؤقف اپنانا ہو گا تاکہ مشترکہ ترقی کے اس سفر میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
بیجنگ میں ہونے والی سہ فریقی وزرائے خارجہ کی ملاقات دراصل پاکستان کی ان وسیع تر سفارتی کوششوں کا حصہ ہے جو بھارت کی علاقائی جارحیت کو بے نقاب کرنے کیلئے جاری ہیں۔ اہم یہ ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان نے اپنی سفارتی سرگرمیوں کا آغاز پڑوسی ممالک سے کیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا بھارت کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے‘ اس لیے کہ چین خطے کے تمام ممالک کے ساتھ شراکت داری قائم کر رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ بنگلہ دیش بھی چین کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ بنگلہ دیش اور افغانستان جو کچھ عرصہ قبل تک بھارتی بلاک کا حصہ سمجھے جاتے تھے‘ اب چین کے ساتھ مضبوط روابط قائم کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال یقینا بھارت کیلئے ایک بہت بڑا سفارتی اور تذویراتی دھچکا ہے۔ چین نے پاکستان اور افغانستان کو قریب لانے میں سہولت فراہم کی ہے‘ اب دونوں ملکوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھیں۔ باہمی تعاون‘ اقتصادی ترقی کے منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد اور ایک دوسرے کے تحفظات کو دور کرنے سے ہی دیرپا امن اور خوشحالی ممکن ہے۔ اگر دونوں ملک مشترکہ مفادات کو مدنظر رکھیں اور داخلی چیلنجز کے باوجود سفارت کاری کا راستہ اپنائیں تو یہ خطہ ایک نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے‘ جہاں کشیدگی کی جگہ تعاون اور ترقی ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں