اظہر علی لغاری نے پوچھا: چائے پینی ہے؟میں نے کہا: صاف ظاہر ہے کچھ دیر گپ شپ کرنی ہے‘ کچھ تو کھانا پینا ہوگا۔ اظہر کا تعلق پی ٹی آئی سے رہا ہے۔ وہ سندھ کے ان نوجوانوں میں سے ہے جو پیپلز پارٹی کی گورننس سے ناخوش تھے اور چاہتے تھے کہ سندھ میں کچھ تبدیلی ہو۔ سندھ کے چند پڑھے لکھے نوجوان‘ جن میں ذوالفقار ہالی پوتو اور اظہر لغاری بھی شامل ہیں‘ نے عمران خان کو جوائن کیا اور سندھ میں ہونے والی سیاسی اور دیگر زیادیتوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے؛ اگرچہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی اور پارٹی کیلئے جگہ بنانا تقریباً ناممکن ہے۔ سندھیوں بارے کہا جاتا ہے کہ وہ پانچ سال تک پیپلز پارٹی کے خلاف باتیں کرتے رہیں گے لیکن الیکشن والے دن مہر تیر پر لگائیں گے ۔ اب حکومت ملتے ہی اظہر لغاری اور ذوالفقار ہالی پوتو کا کوئی نام نشان نہیں ‘ سیاسی ورکرز کا یہی انجام ہوتا ہے۔ میں اظہر کو کچن میں چائے بناتے دیکھتا رہا ۔ اچانک وہ فلیٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا‘ واپس لوٹا تو اس کے ہاتھ میں پتی کا ڈبہ تھا ۔ میں نے کہا: اتنی جلدی کہاں سے پکڑ لائے ؟ بولا: وہی پرانا کام ہے ‘ساتھ والے فلیٹ سے مانگ لایا ہوں۔ میں ہنس پڑا اور بولا: کتنے اچھے ہمسائے ہیں تمہارے‘ ہم خود بیروزگاری کے دور میں یہ کام کرتے تھے۔
خیر‘ اظہر نے میرے سامنے چائے رکھی تو اس کا خوبصورت رنگ دیکھ کر یادوں کا ایک دریچہ کھل گیا۔ کسی بھی کھانے یا پینے کی چیز کی شکل ہی بتا دیتی ہے کہ وہ کیسی بنی ہے۔ چائے کے رنگ اور ذائقے نے موڈ بہتر کر دیا ۔میں نے کہا: اظہر لغاری‘ پتہ ہے اس چائے کے رنگ اور ذائقے نے مجھے کیا یاد کرا دیا ہے؟ 1996ء کے لاہور فیصل ٹائون میں کوٹھا پنڈ کے فلیٹس یاد آئے ہیں۔ میں ملتان سے نیانیا لاہور وارد ہوا تھا ‘ شعیب بٹھل‘ عبیداللہ اور میں وہیں اکٹھے رہتے تھے۔ شوق بس ایک ہی تھا‘ انگریزی اخبار میں نوکری مل جائے۔ ملتان سے مظہر عارف ‘ لیہ سے لالہ میرو اور لاہور میں رفیق اختر اور محمود زمان تک سب کی سفارشیں کرالی تھیں‘ لیکن کہیں بات نہ بنی ۔ ایک انگریزی اخبار میں نوکری کے لیے شعیب نے سفارش تلاش کی ‘ انٹرویو ہوا تو پوچھا گیا: آپ لاہور کب سے رہتے ہیں؟ میں نے کہا: ایک ماہ ہوا ہے۔ پوچھا گیا:لاہور میں کسی کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں ۔ پوچھا: کسی سرکاری افسر سے جان پہچان ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ پوچھا: لاہور میں خبر کے ذرائع ہیں؟ میں نے کہا: نہیں ہیں۔ انہوں نے جواب دیا تو پھر نوکری بھی نہیں ہے۔ شعیب نے پوچھا: کیا بنا ؟ میں نے کہا: اپنے جواب سن کر میں خود بھی اس کرسی پر بیٹھا ہوتا تو خود کو فیل کردیتا ۔
نعیم بھائی بہاولپور سے ہر ماہ کچھ رقم بھیج دیتے تھے‘ گزارہ چل رہا تھا۔ اس دوران مجھے شوق ہوا کیوں نہ تراجم کیے جائیں اور یوں میرا یہ شوق مجھے فکشن ہاؤس لاہور لے گیا۔ وہاں ڈاکٹر مبارک علی‘ قاضی جاوید‘ محمد کامران‘ اور دیگر بڑے لوگ اکٹھے ہوتے۔ ہفتے میں ایک دن محفل جمتی۔ رانا عبدالرحمن‘ ظہور احمد اور محمد سرور میزبان ہوتے۔ کتابوں‘ ادیبوں اور سیاست پر گفتگو ہوتی اور پھر جٹے کی دال اور گرم گرم روٹیاں منگوائی جاتیں جو ہم سیر ہو کر کھاتے ۔ میں نے انہی دنوں تراجم کا سلسلہ شروع کیا اور فکشن ہاؤس نے چھاپا ۔
شعیب اور میرے لیے مشکل دن تھے‘ لیکن ان مشکل دنوں میں ایک اور دوست شاہد کاہلوں نے بڑا ساتھ دیا ۔ شاہد کاہلوں ہمارا ملتان یونیورسٹی انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں سینئر تھا۔ شاہد نے یونیورسٹی کے دنوں سے ہی مجھے اور شعیب کو اپنے بچوں کی طرح adopt کر لیا تھا۔ کبھی ہمیں پروفیشنل مدد چاہیے ہوتی یا مالی امداد ‘ شاہد کاہلوں کا دماغ اور بٹوہ ہمیشہ ہمارے لیے کھلا رہتا ۔ اگرچہ ہم یونیورسٹی میں صرف ایک سال ہی ساتھ رہے‘ لیکن وہ ایک سال بہت سارے تعلقات بنا گیا۔ شاہد پبلک سروس کمیشن کے ذریعے لیکچررشپ لے کر لاہور کے قریب ہی ایک کالج میں لیکچرر لگ گیا ‘ میں ابھی تک ملتان میں پھنسا ہوا تھا‘ شعیب سیانا نکلا ور وہ بھی لاہور نکل گیا ۔میں بھی تین برس بعد ملتان چھوڑ کر لاہور کیرئیر بنانے کے چکر میں آیا توشعیب پہلے سے وہیں موجود تھا۔ شاہد کاہلوں پھر مل گیا ۔ ان تین سالوں میں میرے اور شعیب کے حالات نہ بدلے تھے اورویسے ہی ہم شاہد پر انحصار کررہے تھے جیسے ملتان میں کرتے تھے۔
شاہد کاہلوں کے والد صاحب اور بھائیوں نے فیصل ٹائون میں پراپرٹی کا کاروبار شروع کیا ہوا تھا اور وہیں قریب ہی گھر لیا ہوا تھا۔ اب شاہد کاہلوں صبح سویرے اٹھتا‘ کالج جاتا‘ وہاں انگریزی پڑھاتا اور دوپہر کے بعد ہمارے فلیٹ پر آجاتا۔ آتے ہی زور سے آواز لگاتا: او دامانی‘ زندہ ہو۔ اوئے غریبو... اوئے بیروزگارو... اوئے پیراسائیٹس۔ ہمارے درمیان دو تین ''مہذب الفاظ‘‘ کا تبادلہ ہوتا۔ شاہد دودھ کا ایک پائو والا پیکٹ لے آتا اور ساتھ بسکٹ ۔ وہ سیدھا کچن جاتا‘ چائے کی کیتلی لے کر اسے محبت سے دھونے لگ جاتا۔ کئی دفعہ عبیداللہ نے کہا ‘سر جی میں دھو دیتا ہوں۔ وہ بولتا: نہیں چائے کے کاموں میں مداخلت برداشت نہیں ہوگی۔ جتنی محبت اور محنت سے چائے میں نے شاہدکاہلوں کو بناتے دیکھا وہ میں نے کبھی پھر نہ دیکھا۔ وہ کیتلی کو اس وقت تک صاف کرتا جب تک اس میں اپنی شکل نہ دیکھ لیتا۔ جب وہ چائے بنا کر پیش کرتا تو ہم اس کا مزہ کافی دیر تک انجوائے کرتے۔ اور پھر چائے کی چسکیاں بھرتے ہوئے پوچھتا: ہاں بھائی دامانی کیسی بنی؟ میں نے ایک دن کہا :شاہد تم اتنی اچھی چائے کیسے بنا لیتے ہو؟ شاہد بولا: بات سن دامانی‘ ہر کام محبت‘ احتیاط اور محنت مانگتا ہے۔ چائے بھی محبت مانگتی ہے۔ وہ بولا: پتہ ہے اچھی چائے کیسے بنتی ہے؟ چائے کی کیتلی اچھی طرح صاف کرو‘ پھر اتنا ہی پانی لو جتنے کپ چائے بنانی ہے۔ اب پانی کو کافی دیر تک اُبلنے دو۔ جب پانی خوب اُبل جائے تو پھر چائے کی فریش پتی ڈال دو۔ اب گرم پانی اور چائے کی پتی کو میچ کھیلنے دو۔ جب پتی اور چائے اچھی طرح لڑائی کر لیں تو اس میں دودھ ڈال دو۔ اب دودھ اور پانی‘ پتی میں لڑائی چلنے دو۔ تم سائیڈپر کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے رہو‘ جونہی چائے ابلنے لگے اب تم چینی ڈال دو اور کچھ دیر بعد اتار لو۔ چینی سب سے آخر میں ۔ شاہد بولا‘ ہم چائے بناتے وقت پتہ ہے کیا کرتے ہیں؟ اکثر لوگ کیتلی کو صاف نہیں کرتے‘ پرانی چائے کی پتی کے ذرے وہاں موجود ہوتے ہیں‘ جو چائے کی فریش پتی کا ذائقہ خراب کردیتے ہیں۔ پھر اکثر لوگ پانی‘ چائے‘ دودھ اور چینی ایک ساتھ ڈال دیتے ہیں۔ پوری طرح انہیں ابلنے نہیں دیتے۔ شعیب نے کہا: شاہد خدا کا خوف کرو اب چائے کیلئے اتنا اہتمام اور اتنی ریسرچ کی ہوئی ہے تم نے؟ وہ بولا :دامانی ہر کام عزت مانگتا ہے‘ احترام مانگتا ہے۔ اچھی چائے پینی ہے تو پھر اچھی چائے کے لوازمات بھی آنے چاہئیں۔
اظہر لغاری حیرانی سے مجھے کہیں دور گم چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔ کافی دیر بعد بولا: سائیں خیریت تو ہے‘ کدھر گم ہو؟ میں نے گہری سانس لی اور بولا: یار یہ زندگی بھی کیا عجیب گورکھ دھندا ہے ‘کیسے کیسے دوست ملے‘ کیسا ہمارا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھا ‘ کوئی لالچ نہ توقعات۔ ابھی شاہد کاہلوں کو دیکھ لو میرا اور شعیب کا کتنا خیال رکھا۔ شعیب لندن تو شاہد آج کل کینیڈا میں ہوتا ہے۔ وقت نے ہم دوستوں کو کہاں سے اٹھا کر کہاں پھینک دیا ۔
میں نے چائے کی پیالی میز پر رکھی ۔کھڑکی کے قریب کھڑے ہوکر مارگلہ پہاڑیوں پر چھائے بادلوں کے اندر سے سرسبز پہاڑوں کی چوٹیاں گننے کی کوشش کرتے شاہد کاہلوں کی بات یاد آئی‘ آوئے بیروزگارو‘ اوئے دامانی‘ اوئے پیراسائیٹس... انسان تو انسان چائے بھی محبت مانگتی ہے!