ان بائیس برسوں میں اسلام آباد میں کئی حکومتوں کو آتے جاتے دیکھا ہے۔ ہر حکومت کے آنے پر شادیانے‘ نئی امیدیں لیکن چند برسوں بعد ہر حکومت کا انجام ناکامی یا مایوسی پر ہوا ۔ یہ طے ہے کہ حکومتیں لوگوں کی توقعات پر پوری نہیں اتر سکیں اور عوام میں غیرمقبول ہوتی گئیں ۔ کسی بھی نئی حکومت کو لوگوں میں امیج کھونے اورغیرمقبول ہونے میں تین سال لگتے ہیں ۔ پہلے دو سال کوئی حکومت اتنی غیرمقبول نہیں ہوتی کہ لوگ تنگ آ جائیں اور لطیفے بننا شروع ہو جائیں ‘مگرموجودہ حکومت جس طرح ناکام ہوئی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔ اگرچہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت صرف اٹھارہ ماہ ہی چل سکی تھی لیکن اس میں صدر غلام اسحاق خاں کی سازشوں کا زیادہ عمل دخل تھا نہ کہ حکومت کی ناکامی ۔ جنرل ضیا کے دس سالہ مارشل لاء کے بعد کون سی حکومت اٹھارہ ماہ میں ملک کو ٹھیک کرسکتی تھی ؟ ماضی میں جو حکومتیں بھی ناکام ہوتی رہیں‘ اس کی وجہ جہاں سازشیں تھیں وہیں انہیں مقتدرہ سے تعاون نہ ملنے کی بھی شکایت رہی۔ اُس وقت کے طاقتور حلقے رات گئے صحافیوں کو بلانا شروع کر دیتے تو سیاستدان الگ سے اپنے ہیلی کاپٹر اور ناشتہ گروپ تشکیل دیتے اور دونوں اطراف سے لڑائی اخبارات اورکالموں میں لڑی جاتی۔نوازشریف اور پرویز مشرف کے درمیان لڑائی چھوٹی سی اخباری خبر سے شروع ہوئی تھی کہ کوئٹہ کے کور کمانڈر جنرل طارق پرویز نے نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔ اگلے دن اخبار میں یہ خبر چھپی کہ جنرل مشرف نے جنرل طارق کو نواز شریف سے خفیہ ملاقات پر برطرف کر دیا۔ نواز شریف کو یہ خبر بہت چبھی تھی کہ ملک کے وزیراعظم سے ملاقات پر ایک جنرل کو برطرف کر کے باقاعدہ خبر بھی چلوا دی گئی۔ جنرل مشرف جانتے تھے کہ نواز شریف کی ان خفیہ ملاقاتوں کا کیا مقصد ہے۔ بینظیر بھٹو کو بھی اسی صورتحال کا سامنا رہا جب صدر لغاری نے انہیں گھر بھیج دیا۔ نواز شریف نے پہلے 12 اکتوبر کو جنرل پرویز مشرف کو برطرف کیا اور پھر خود برطرف ہوئے‘ تیسری دفعہ ان کے سینگ جنرل راحیل شریف سے پھنس گئے۔ تاہم عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت نکلے کہ انہیں بینظیر بھٹو اور نواز شریف جیسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ عمران خان کے راستے کی ہر رکاوٹ دور کر کے انہیں کسی نہ کسی طرح تخت پر بٹھایا گیا ۔ جتنی پاورز عمران خان نے انجوائے کی ہیں وہ شاید ہی کوئی وزیراعظم دعویٰ کرسکتا ہو۔ فوجی اور سیاسی قیادت کے ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے ۔ لیکن اتنے تعاون کے باوجود عمران خان حکومت کی بیس ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہو تو فواد چوہدری کا وائس آف امریکہ کو دیا گیا انٹرویو سن لیں۔
میرے خیال میں عمران خان کو اتنی سپورٹ مل گئی کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے ۔ وہ یہ سوچ کر راج کررہے ہیں کہ نواز شریف اور بینظیر کی طرح انہیں کہیں سے خطرہ نہیں ۔ اپوزیشن بیکار تو پارلیمنٹ ناکارہ۔ ڈالرز چاہیے تھے تو سعودی عرب‘ چین اوردبئی سے آگئے۔ اس سپورٹ کا یہ نتیجہ نکلا کہ وزیر اعظم اور کابینہ نے کام ہی چھوڑ دیا۔ انسانی مزاج ہے کہ وہ دبائو میں بہتر پرفارم کرتا ہے۔ ایک بندہ پرائیویٹ سیکٹر میں اچھا پرفارم کرتا ہے کیونکہ لوگ کنٹریکٹ پر ہوتے ہیں اور خوف رہتا ہے کہ اگر پرفارم نہ کیا تو نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے‘ جبکہ سرکاری نوکری بیکار کر دیتی ہے اور عمران خان صاحب حکومت کو سرکاری نوکری کی طرح چلا رہے ہیں ۔ فواد چوہدری نے سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے‘ کہتے ہیں کہ ہمیں جہانگیر ترین‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی لڑائیاں لے بیٹھیں ۔ وہ تینوں ایک دوسرے کو فارغ کراتے رہے اور جو گیپ پیدا ہوا وہ غیر منتخب لوگوں نے پُر کیا۔ فواد چوہدری نے کہا کہ اب سیاستدان فارغ ہوگئے ہیں ‘دیگر لوگوں کا رول بڑھ گیا ہے اور ہم ناکام ہوگئے ہیں۔ اندازہ کریں عمران خان صاحب ایران‘ سعودی عرب‘ ترکی اور ملائیشیا کے درمیان صلح کرا رہے تھے‘ پتہ چلا کہ ان سے تو ترین‘ قریشی اور اسد بھی نہیں سنبھالے گئے۔ جن لوگوں کو وزیر بنایا ان کی قابلیت کا سوچ کر ہی ہنسی آتی ہے۔تازہ لطیفہ زرتاج گل صاحبہ کا ملاحظہ فرما لیں ۔ ہر دوسرے وزیر کی کوشش ہے کہ وہ کتنی خوشامد کرسکتا ہے۔ آپ کسی وزیر کو ٹی وی پر سن لیں وہ دس دفعہ عمران خان کے نام کا کلمہ کہے گا پھر جملہ مکمل کرے گا ۔ ذرائع کہتے ہیں کہ کسی دن عوام کو کابینہ اجلاس کی کارروائی دیکھنے کا موقع ملے تو پتہ چلے کہ وہاں کیسے مقابلہ ہوتا ہے کہ کون عمران خان صاحب کی زیادہ خوشامد کرے گا۔ کابینہ کے پچھلے اجلاس میں عمران خان وزیروں سے ناراض ہوگئے کہ کورونا وائرس پر ان کے وزیر مختلف بیانات دے کر حکومت کا مذاق بنا رہے ہیں حالانکہ سب سے زیادہ متضاد بیانات خود وزیر اعظم صاحب نے دیے۔ اب تازہ ترین لطیفہ سن لیں‘ مشیر صحت ظفر مرزا نے کہا ہے ایک دوائی جو کورونا میں کچھ مدد دے سکتی ہے مارکیٹ سے غائب ہوگئی ہے۔ اس پر مشیر صحت نے افسوس کا اظہار کیا ۔ اندازہ کریں جس کی وزارت ہیلتھ اور فارما سیکٹر کو ریگولیٹ کرتی ہے وہی افسوس کا اظہار کررہے ہیں ۔ اس طرح جب فواد چوہدری یہ کہتے ہیں کہ سیاسی گیپ پیدا ہونے سے غیر منتخب لوگوں نے جگہ سنبھال لی ہے اور وہ نالائق بھی ہیں تو مطلب واضح ہے کہ کابینہ میں وزیروں اور مشیروں کے درمیان لڑائی کتنی بڑھ چکی ہے۔ان مشیروں کی تعداد وزیروں سے بھی بڑھ گئی ہے اور بقول غلام سرور خان انہیں تو نام تک نہیں آتے اور حکومت ختم ہونے پر بریف کیس اٹھا کر بیرون ملک نکل جائیں گے۔
وزیروں کو شکایت ہے کہ ہر دوسرے سکینڈل میں ان مشیروں کے نام آرہے ہیں اور حکومت بدنام ہورہی ہے۔ ٹی وی چینلز پر انہیں ان مشیروں کی کرپشن کا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ اب کورونا کی وجہ سے کابینہ اجلاس میں عمران خان صاحب جہاں بیٹھتے ہیں وہاں ان کے ساتھ غیر منتخب مشیر بیٹھتے ہیں ‘جبکہ وزیروں کو دور دفتروں میں بٹھایا گیا ہے۔ وزیروں کو لگتا ہے کہ مشیروں کی اہمیت زیادہ ہے۔ پہلے یہ بات اندر کھاتے ہوتی تھی‘ اب وزیروں نے یہ باتیں کھل کر ٹی وی پر کہنا شروع کر دی ہیں ۔ پہلے غلام سرور خان‘ پھر شیخ رشید اور اب فواد چوہدری کہہ رہے ہیں کہ غیر منتخب مشیر حکومت کو لے ڈوبیں گے۔
جو بات عمران خان صاحب کے وزیروں کو سمجھ آرہی ہے کہ حکومت کہیں کھو گئی ہے ‘ اسے غیر منتخب مشیروں نے ہائی جیک کر لیا ہے اور چند ایک نے لمبا مال بھی بنا لیا ہے وہ بات عمران خان صاحب کو سمجھ کیوں نہیں آرہی؟ ہر حکومت کو ناکام کرنے میں زیادہ ہاتھ ان مشیروں کا ہوتا ہے جن کے پاس لیڈروں کو پارٹی فنڈ یا چیرٹی کے نام پر چندہ دینے کیلئے پیسہ ہوتا ہے‘ جو وہ سود سمیت وصول کر لیتے ہیں‘ لیکن وہ کسی ووٹر کو جواب دہ نہیں ہوتے‘ لہٰذا وہ کھل کر اپنا کھیل کھیلتے ہیں۔ بینظیر بھٹو دور میں ہیپی منی والا کا نام سامنے آتا تھا‘ زرداری دور میں تو فہرست خیر لمبی تھی جبکہ نواز شریف دور میں سیف الرحمن کھل کر کھیلے اور اب عمران خان دور میں ندیم بابر اور رزاق دائود کے کارنامے زبان زدِعام ہیں۔
حیران ہوتا ہوں تاش کے پتوں سے بنا یہ تخت کب تک تیز ہوائوں کا سامنا کر پائے گا ۔ عمران خان‘ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے کہ انہیں چلنے نہیں دیا گیا‘وہ مظلوم نہیں بن سکیں گے۔ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کا الزام کس پر دھریں گے؟ تاش کے رنگ برنگے پتوں سے بنے تخت و تاج کتنے ہی خوبصورت‘ پرکشش اور قیمتی کیوں نہ ہوں‘ وہ تیز ہوا کے معمولی تھپیڑے بھی نہیں سہہ سکتے۔