محاوروں کے پیچھے پوری کہانی ہوتی ہے‘ چاہے وہ کسی زبان کے ہی کیوں نہ ہوں ۔ ان میں صدیوں کے انسانی تجربات اور ذہانت چھپی ہوتی ہیں۔ پچھلے دنوں سرائیکی کے بڑے محقق شوکت مغل کا انتقال ہوا‘ انہوں نے بڑی محنت اور ریسرچ سے سرائیکی کے محاوروں پر کام کر کے انہیں اکٹھا کیا اپنے علاقے کے کلچر اور زبان کو نئی زندگی دی ۔ پوٹھوہار کی بات کریں تو نوجوان لکھاری فیصل عرفان نے پوٹھوہاری ''اکھنڑے‘‘ اور محاوروں پر کام کر کے ایک شاندار کتاب مرتب کی اور داد پائی۔ پنجابی‘ سندھی‘بلوچی‘ پشو‘ کشمیری اور اردو زبان میں بھی اپنے اپنے محاورے ہیں‘ ان محاوروں کا کمال یہ ہے کہ جو بات آپ کتاب لکھ کر کسی کو نہیں سمجھا سکتے وہ ایک محاورے میں سمجھ آجاتی ہے۔
آج کل اسلام آباد میں جو سیاسی سرکس چل رہا ہے اس پر کئی محاورے یاد آتے ہیں ۔ فواد چودھری کے انٹرویو نے بہت کچھ واضح کر دیا ہے ۔ دو سال کی حکومت کی کارکردگی کا کچا چٹھا جس طرح انہوں نے کھولا وہ جہاں شاندار تھا وہیں حیران کن بھی۔مان لیتے ہیں کہ سیاسی حکومتوں اور جمہوریت میں پارٹیوں کے اندر اور باہر اختلافات ہونا ایک فطری بات ہے‘ جمہوریت بنی ہی اس لیے تھی کہ لوگ اپنی آواز بلند کر سکیں‘ تاہم اب دیکھنے میں آرہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں انتشار پیدا ہو گیا ہے۔جو کچھ کابینہ کے ارکان کھلے عام ایک دوسرے کے ساتھ کررہے ہیں اس سے مجھے نواز شریف کا پہلا اور بینظیر بھٹو کا دوسرا دورِ حکومت یاد آرہا ہے کہ جب بھی حکومتیں گرنے کا وقت آتا تو کابینہ کے کچھ لوگ میڈیا کو بلا کر کچھ خبریں لیک کرتے اور دھیرے دھیرے ماحول بنتا اور ایک دن آتا کہ کچھ اہم وزیر کابینہ سے نکل کر اُس وقت کے صدر سے ملاقات کر کے اپنے استعفے پیش کردیتے ‘ ساتھ ہی حکومت کی نالائقیوں کا پردہ چاک کرتے اور چند دنوں بعد نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی چھُٹی ۔
اس طرح کی صورتحال پرویز مشرف دور میں بھی پیش آئی تھی جب فیصل صالح حیات‘ جو وزیر داخلہ تھے ‘کے خلاف ایک کالم چھپا کہ انسانی سمگلنگ ہورہی ہے ۔ فیصل صالح کا خیال تھا کہ اس کے پیچھے چوہدری برادرز تھے جو انہیں وزارت سے ہٹوا کر اپنا بندہ لگوانا چاہتے تھے۔ فیصل صالح حیات نے اگلے دن چودھری شجاعت حسین‘ جو نگران وزیراعظم تھے اور چودھری پرویز الٰہی جو وزیراعلیٰ تھے‘ کو ادھیڑ کر رکھ دیا‘ لیکن اسی شام پرویزمشرف نے دونوں کو اپنے دربار میں بلا کر معاملہ سیٹ کرادیا‘ لیکن چودھریوں نے جو مقصد پورا کرنا تھا وہ ہوگیا‘ فیصل صالح حیات کو دوبارہ وزارتِ داخلہ نہ ملی۔
ایک پارٹی میں مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں‘ جن کے مختلف مفادات ہوتے ہیں‘لیکن جس طرح کی لڑائیاں تحریکِ انصاف کے وزیروں میں دیکھنے میں آرہی ہیں‘ ماضی میں ایسی کبھی نہ تھیں ۔ لگتا ہے وزیر اعظم خود ان لڑائیوں کو انجوائے کرتے ہیں جس طرح نواز شریف چودھری نثار علی خان اور خواجہ آصف کی لڑائی‘ چودھری نثار اور احسن اقبال کی لڑائی اور پھر اسحاق ڈار اور شاہد خاقان عباسی کی لڑائی انجوائے کرتے تھے۔ لیکن وہ سیانے لوگ تھے‘ لڑائی بھی طریقے سے کرتے تھے کہ بہت کم خبریں باہر نکلتی تھیں۔یہ حکمرانوں کا پرانا طریقہ ہے کہ اہم وزیروں کو ایک دوسرے سے لڑاتے رہو تاکہ وہ سب آپ کے دربار میں حاضر ہو کر ایک دوسرے کی شکایتیں کرتے رہیں اور کبھی اکٹھے ہوکر بادشاہ کے خلاف بغاوت نہ کر بیٹھیں۔ پرانے وقتوں میں بادشاہوں کے خلاف بغاوتیں ہمیشہ دربار کے سردار کرتے تھے‘لہٰذا آپ تاریخ میں ہمیشہ دیکھیں گے کہ بادشاہ اپنے درباریوں کو لڑا کر ہی حکومت کرتے آئے ہیں ۔ یہ فارمولہ انگریزوں سے پہلے بھی رائج تھا اور آج بھی ہے‘ لیکن بدنام صرف انگریز ہیں‘مگر جس طرح موجودہ کابینہ کے وزیر کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آئے ہیں یہ پہلے کم ہوتا تھا ۔ اس میں سربراہ حکومت کا اپنا بھی قصور ہے کہ اپنے اردگرد غیرمنتخب مشیروںکو اکٹھاکر رکھا ہے اور منتخب وزیروں کو وہ اہمیت نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی۔ بیس کے قریب مشیر وزیر اعظم صاحب نے مقرر کر رکھے ہیں۔ چند سیاسی مشیر واقعی اچھے ہیں لیکن جو ٹیکنوکریٹس آئے ہیں انہوں نے جو وارداتیں کی ہیں وہ اپنی جگہ پی ٹی آئی کے لوگوں کیلئے حیران کن ہے۔ کورونا کی وجہ سے کابینہ اجلاس کیلئے ایس او پیز کی وجہ سے مختلف وزیروں کو مختلف دفتروں میں بٹھایا گیا ‘ لیکن مشیر عمران خان صاحب کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں جبکہ باقی ویڈیو لنک پر۔ اس پر بہت سے وزیر ناراض ہیں کہ ہماری کوئی اہمیت نہیں ۔ اس کا ردعمل بھی سامنے آناشروع ہوا اور وزیروں نے کھل کر مشیروں پر تنقید شروع کر دی۔ کچھ وزیر بھی ناخوش ہیں کہ جب ندیم بابر اور رزاق دائود کے سکینڈل کابینہ اجلاس میں پیش ہوئے تو اس سے پہلے کہ کوئی وزیر بات کرتا‘ وزیر اعظم ان دونوں کی تعریفیں کرنے لگے۔ کچھ وزیروں کو یہ بھی اچھا نہ لگا کہ مال وہ لوگ بنا رہے ہیں اور بدنامی اِن کے کھاتے میں آرہی ہے۔
اب فواد چودھری جس طرح کھل کر بولے ہیں اور پی ٹی آئی کے وزیروں نے ٹی وی شوز میں بیٹھ کر فواد کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس سے سب حیران ہوئے کہ یہ سب کیا چل رہا ہے؟ فیاض چوہان نے سخت زبان استعمال کی تو شفقت محمود نے بھی فواد کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ زلفی بخاری نے ٹی وی شو میں کہا کہ فواد کو خبروں میں رہنے کا شوق ہے‘ اسے زیادہ سیریس نہ لیں۔ اس سے پہلے کابینہ میں اسد عمر‘ شاہ محمود قریشی‘ فیصل واوڈا اور فواد چودھری میں شدید بحث ہوگئی‘ جو شام تک ٹی وی چینلز پر بھی پھیل چکی تھی۔ سمجھا جارہا تھا کہ شاید فواد چودھری اس واقعے سے دب جائیں گے‘ لیکن انہوں نے میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مزید سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ عمران خان صاحب نے جو ٹیم بنائی وہ اس قابل نہیں کہ ملک کو چلاسکتی۔ انہوں نے کھل کر نام لیے ‘جن میں وزیراعلیٰ پنجاب ‘ وزیر اعلی خیبر پختونخوا اور سپیکر قومی اسمبلی کے نام شامل تھے ‘کہ وہ اس قابل نہ تھے کہ ان عہدوں پر لگایا جاتا ۔ فواد چودھری نے کہا کہ عمران خان نے کمزور لوگ اہم عہدوں پر لگائے جس سے یہ تاثر ملا کہ وہ کسی طاقتور کو آگے نہیں دیکھ سکتے۔
اگرچہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ اکثر وزرائے اعظم اپنی برادری اور علاقے کے لوگوں کو اہم عہدوں پر فائز کرتے رہے ہیں‘ لیکن اب پنجاب کی بیوروکریسی کو شکایت ہورہی ہے کہ صرف خیبر پختو نخوا سے ہی افسران کو اعلیٰ عہدے دیے جارہے ہیں۔ ماضی میں یہ شکایتیں بلوچستان اور سرائیکی علاقوں کے افسران کرتے تھے کہ انہیں اسلام آباد میں اہم عہدے نہیں ملتے‘اب پنجابی بیوروکریٹ یہی سمجھتا ہے۔ بیوروکریسی میں مزے اس گروپ کے ہوتے ہیں جس کا بیچ میٹ پرنسپل سیکرٹری لگ جاتا ہے۔ کسی بیچ میٹ کو ملک کے اندر اعلیٰ عہدے‘ پروموشن ملتی ہے تو کسی دوست کو بیرون ملک پوسٹنگ یا بیٹھے بٹھائے بائیس گریڈ مل جاتا ہے۔ ہر پرنسپل سیکرٹری کے ساتھ یہی مسئلہ رہا ہے۔
چلیں عمران خان صاحب کے اپنے اتحادیوں سے اختلافات کی سمجھ آتی ہے کہ وہ مختلف سیاسی اپروچ کے مالک ہیں ‘ لیکن جب و زیراعظم کے اپنے وزیر لڑ رہے ہوں اور وہ اس پر خوش رہیں کہ گوروں نے کہا تھا‘ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ یہ فارمولہ ہر دفعہ بھی کامیاب نہیں ہوتا ۔ بھان متی کے کنبے میں لڑائی شروع ہوچکی ہے‘ جو بڑی محنت سے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا اکٹھا کر کے بنایا گیا تھا ۔اب وزیر اعظم صاحب کو کون سمجھائے کہ بھان متی کا کنبہ جب آپس میں لڑتا ہے تو ہمسائے سے زیادہ اپنی کٹیا جلا بیٹھتا ہے اور پھر ملبے پربیٹھ کر مظلومیت کے آنسو بہاتا اور دربدر پوچھتا پھرتا ہے: مجھے کیوں نکالا؟