ہر دور میں حکمرانوں کے مشیر انہیں مشورے دیتے آئے ہیں کہ ایک بحران میں پھنس جائو تو دوسرا پیدا کر دو‘ لوگ پہلے کو بھول کر دوسرے کے پیچھے لگ جائیں گے۔ اگر آپ پاکستانی سیاست کو قریب سے فالو کرتے ہوں تو اندازہ ہوگا کہ یہی چلتا ہے۔ لوگوں کو صبح کا ناشتہ یاد نہیں رہتا تو کسی حکومت کے سکینڈلز کہاں یاد رہتے ہوں گے؟
ہر انسان میں اچھے برے دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ اسد عمر بھی بہت سی خوبیوں کے مالک ہوں گے‘ مگر کچھ ایسی خامیاں بھی ہیں جو ان کے وزیر خزانہ بننے کے بعد سامنے آئیں‘ لوگوں کا ان سے رومانس ٹوٹا اور انہیں وزارتِ خزانہ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے وزیر خزانہ بننے کے بعد ایل این جی مافیا پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی اور انہوں نے ان معاملات کو ای سی سی کے اجلاسوں میں بھی اٹھایا۔ انہوں نے بہت سی بحث کے بعد فیصلے کیے کہ ایل این جی ٹرمینلز کے کنٹریکٹس میں بہت گھپلے ہوئے تھے‘ یہ معاہدے کینسل کیے جائیں گے۔ لیکن کچھ دنوں بعد ان پر دبائو پڑا تو انہوں نے کہا کہ چلیں کابینہ کو کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ کرے۔ کابینہ کے اجلاس کے بعد اُس وقت کے پٹرولیم منسٹر غلام سرور خان نے پریس کانفرنس میں وہ تفصیلات بتائیں کہ کیسے دو پرائیویٹ پارٹیوں کو شاہد خاقان عباسی صاحب نے عیاشی کروائی تھی۔ مطلب تیرہ ارب روپے کی سرمایہ کاری پر دو سو ارب روپے کا پرافٹ دیا گیا۔ تیرہ ارب لگایا پاکستانی پارٹی نے اور لگا بھی پاکستان میں لیکن ادائیگی پندرہ برس تک ڈالروں میں ہو گی اور روزانہ دو لاکھ بہتر ہزار ڈالر ملیں گے‘ چاہے ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو۔ جب ڈیل ہوئی تو ڈالرنوے روپے کا تھا اور آج ایک سو ستر روپے کے قریب ہے‘ لہٰذا پرافٹ خود بخود ڈبل ہوگیا۔ فیصلہ ہوا کہ کابینہ ان معاہدوں پر نظرثانی کرے گی۔ جس پارٹی کو ڈیل ملی تھی وہ عبدالرزاق داؤد کے کزن ہیں۔ اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اسد عمر کو بھی نہ یاد رہا کہ کس کس نے لوٹ مار کی تھی۔پھر آپ نے کبھی سنا ایل این جی ٹرمینل سکینڈلز کا کیا بنا؟ اسد عمر جب وزیرخزانہ بنے تواس وقت مراد سعید دھواں دھار تقریریں کر کے فارغ ہوئے تھے کہ بیرون ملک سے دو سو ارب ڈالرز پی ٹی آئی لائے گی ‘ لیکن اسد عمر صاحب نے اسی بندے کو ہر دورے میں اپنے ساتھ رکھا جس نے اسحاق ڈار کے کہنے پر دو سو ارب ڈالرز کا سوئس حکومت سے معاہدہ آخری لمحے پر نہیں ہونے دیا تھا۔ ان کا نام ہے طارق باجوہ ‘جو اس معاہدے کے وقت چیئرمین ایف بی آر تھے۔ اسحاق ڈار نے ہی انہیں گورنر سٹیٹ بینک بنایا ۔ ہوتا تو یہ کہ پی ٹی آئی آتے ہی سب سے پہلے ان صاحب کے خلاف کارروائی کرتی‘ لیکن انہیں اسد عمر نے بچا لیا۔ ایک پروگرام میں معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ سوئٹزر لینڈ سے پیسے واپس آجائیں گے جبکہ ارشد شریف کے پروگرام میں اسد عمر نے کہا: کون سے ڈالرز؟ میں نے پوچھا کہ طارق پاشا سے ‘تو ان کا کہنا تھا: دراصل ان سے غلطی ہوگئی تھی اور وہ دو سو ارب ڈالرز کا فگر دے بیٹھے تھے۔ یوں دو سو ارب ڈالرز انہوں نے ہنس کر ٹال دیے۔ وہ اس پورے معاملے کی ایف بی آر کی فائل پڑھنے کی زحمت کرتے تو انہیں پتہ چلتا کہ طارق باجوہ نے غلطی نہیں کی تھی بلکہ گورنر سٹیٹ بینک بننے کے لیے قوم کے دو سو ارب ڈالرز ڈبوئے تھے۔
اسی طرح ہم نے دیکھا کہ شوگر سبسڈی کا سکینڈل سامنے آیا تو اس میں بھی اسد عمر کا نام تھا۔ پتہ چلا کہ ان کے سامنے رزاق دائود سمری لائے کہ ملک میں بہت چینی ہے لہٰذا دس لاکھ ٹن باہر بھیج دیتے ہیں۔ اسد عمر نے سبسڈی دینے سے انکار کر دیا ۔ اس پر انہیں اوپر سے کہلوایا گیا کہ دے دیں کیا فرق پڑتا ہے اور انہی اسد عمر نے اگلے اجلا س میں دس لاکھ کو گیارہ لاکھ ٹن کر دیا۔ ساتھ میں شوگر ملوں کے پچھلی حکومت کی سبسڈی کے رکے دو ارب روپے بھی ریلیز کر دیے اور صوبوں کو کہا کہ وہ چاہیں تو سبسڈی دے دیں۔ یوں تین ارب روپے جہانگیر ترین‘ ان کے ماموں شمیم خان‘ مونس الٰہی‘ خسرو بختیار اور ہاشم بخت کے بھائی نے آپس میں بانٹ لیے۔ وہی اسد عمر بعد میں ایف آئی اے انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تو کمیٹی نے کہا کہ اسد عمر انہیں قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس سے پہلے جب وہ وزارت سے نکالے گئے تو قومی اسمبلی میں تقریر کی کہ جن لوگوں نے چینی کی قیمت بڑھائی تھی ان کے خلاف انکوائری ہونی چاہیے۔ انہیں دوبارہ وزیر بنا دیا گیا تو اس کے بعد بھول کر بھی ذکر نہیں کیا کہ چینی کی انکوائری کریں۔ آج کل چینی سو روپے سے اوپر ہے اور اسد عمر صاحب کے منہ سے کبھی آپ نے چینی کا لفظ بھی سنا ؟
ابھی دیکھ لیں دو سو ارب روپے کا جی آئی ڈی سی کا معاملہ تھا۔ سپریم کورٹ نے عوام کے دو سو ارب روپے بچا لیے جو حکومت معاف کر چکی تھی۔ اب کسی کو پتہ نہیں ہوگا کہ یہ سب معاملہ کہاں سے شروع ہوا اور کیسے اسد عمر نے بڑے آرام سے دو سو ارب روپے معاف کردیے تھے۔ وہ ایک کارپوریٹ بیک گرائونڈ سے آئے تھے‘ لہٰذا لگتا ہے پہلی اور آخری وفاداری اسی سیکٹر سے ہے۔ انہیں علم تھا کہ کمپنیاں حکومتِ پاکستان کے جی آئی ڈی سی کے چار سو ارب روپے دس سال سے دبا کر بیٹھی ہیں۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ انہوں نے عدالتوں سے سٹے لے رکھے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اسد عمر وزارتِ قانون اور اٹارنی جنرل سے ملاقات کرتے اور انہیں قائل کرتے کہ عوام کے پیسے ان کمپنیوں نے دبا رکھے ہیں اور اس پر وہ اپنا کاروبار کر رہی ہیں بلکہ بینکوں سے پرافٹ کھا رہی ہیں جبکہ حکومت آئی ایم ایف سے قرضے اور دوست ملکوں سے مدد مانگ رہی ہے‘ لہٰذا آپ معاملہ اٹھائیں اورسٹے آرڈر ختم کروائیں۔ اس طرح کے کسی اجلاس یا ملاقات یا کچھ ایکٹو ہوئے بغیر اچانک ایک دن ای سی سی میں سمری لائی گئی جس میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ یہ پیسے ہم نہیں لے سکتے‘ اگر ان کمپنیوں کو پچاس فیصد معاف کردیں تو وہ دو سو ارب روپے دینے کو تیا رہیں‘ان چار سو ارب پر سود یا مارک اپ بھی نہیں ہوگا۔ اسد عمر کی اپنی حکومت بینکوں سے کمرشل قرضے لے کر سود دے رہی تھی لیکن یہاں نہ صرف دو سو ارب روپے معاف ہورہے تھے بلکہ پچاس ساٹھ ارب روپے کا سود بھی معاف کیا جارہا تھا۔ یوں انہوں نے ای سی سی کے اجلاس میں دو اپریل 2019ء کو اس پیکیج کی منظوری دی۔ ان دو سو ارب رو پوں کی معافی کا بڑا فائدہ اسد عمر کی اس کارپوریٹ فرم کو ہوا جس میں وہ سیاست میں آنے سے پہلے چیف ایگزیکٹو تھے اور کسانوں کو لوٹنے کے جرم میں انہیں چار ارب روپے جرمانہ بھی ہوا تھا ۔ یہ اور بات کہ دس برس سے اس کمپنی نے سٹے لے کر وہ پانچ ارب روپے آج تک جرمانہ ادا نہیں کیا۔
خدا نے ہمیں کتنے اچھے حکمران دیے ہیں جو ہمیں لوٹنے کے بعد مبارکبادیں بھی دیتے ہیں اور قوم وہ مبارکبادیں قبول کرتی ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ جناب کیسے ای سی سی کے اجلاس میں خاموشی سے قوم کے خون پسینے کی کمائی کے دو سو ارب روپے معاف کر دیے؟ عمران خان صاحب کا شریف خاندان کے پانامہ سکینڈل پر دیا گیا بیان یاد آ گیا کہ کسی کے باپ کا پیسہ ہے جو معاف کر دیں؟ پھر ای سی سی سے کابینہ تک اس قوم کے 200 ارب روپے کیسے اور کیوں بڑے بڑے مگرمچھوں کو معاف کر دیے گئے؟