بائیس برس قبل ملتان سے اسلام آباد آیا تھا۔ اس وقت کے اسلام آباد اور آج کے شہر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میرے محسن نذر بلوچ نے ملتان سے روانہ ہوتے وقت نصیحت کی تھی کہ اسلام آباد ایسا ظالم شہر ہے جو بندے کو ٹکنے نہیں دیتا۔ وہ اپنی کہانی سناتے تھے کہ کیسے انہیں اسلام آباد سے واپس ملتان لوٹنا پڑا۔ وہ چاہتے تھے‘ میں اس راستے سے واپس نہ آئوں جس پر جا رہا ہوں۔ واقعی اسلام آباد ایک مشکل شہر تھا۔ ایک خوبصورت، تنہا اور خاموش شہر۔ رات نو بجے کے بعد آپ کو شہر میں کچھ ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا تھا۔ سڑکیں خالی، مارکیٹیں بند۔ ایک آپ اور آپ کی تنہائی۔ روز بارشیں اور خوبصورت صبح و شام۔
اور پھر دھیرے دھیرے اس شہر کے حالات بدلنا شروع ہوئے۔ کراچی میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے بہت سارے لوگ ہجرت کرکے اس شہر میں آ گئے۔ پھر قبائلی علاقوں میں ہونے والے فوجی آپریشن کی وجہ سے لوگوں نے شہروں کا رخ کیا اور پنڈی‘ اسلام آباد اپنے عزیزوں کے گھروں میں شفٹ ہونا شروع کیا۔ پنجاب میں شہباز شریف صاحب کا سارا زور شہروں پر تھا۔ دیہات پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ زیادہ توجہ لاہور پر تھی‘ اربوں ایک ہی شہر پر لگا دیے گئے۔ میٹرو بس پر سو ارب روپے لگا تو میٹرو ٹرین پر تقریباً چار سو ارب روپے خرچ کر دیے گئے‘ اور پھر جگہ جگہ جاکر تقریریں کرنا شروع کر دیں کہ ترقی دیکھنی ہے تو لاہور کو دیکھو۔ ووٹوں کے چکر میں لاہور کی خوبصورتی کو برباد کیا گیا۔ رہی سہی کسر ان لوگوں نے پوری کر دی جو سرائیکی علاقوں سے مزدوری کے چکر میں لاہور گئے اور پھر واپس نہ لوٹے۔ یوں لاہور کی آبادی بڑھتی گئی، کچی آبادیاں ابھرتی گئیں۔
جن لوگوں کو لاہور میں مزدوری نہ ملی انہوں نے اسلام آباد کا رخ کیا۔ یہاں راولپنڈی کے آسمان پر چھتیں ڈالی جا رہی تھیں۔ اسلام آباد شہر کے قریب کچی بستیوں نے سر اٹھایا۔ بہارہ کہو اور ایکسپریس وے جرائم پیشہ کے گڑھ بن گئے۔ افغانوں نے اپنی الگ بستی بنا لی۔ کسی نے آپریشن کرنے کا سوچا تو انہوں نے بندوقین نکال لیں۔ قبضہ گروپس نے دوردراز سے لوگ لا کر اسلام آباد کی سرکاری زمین پر بٹھا دیے اور جب سی ڈی اے گرانے گئی تو انہوں نے عورتوں اور بچوں کو آگے کر دیا۔ حکومت کے پاس کوئی پلان نہ تھاکہ ان بیروزگار‘ غریب لوگوں کو کیسے اس شہر میں ایڈجسٹ کیا جائے کیونکہ اسلام آباد کراچی کی طرح نہ ساحلی شہر ہے، نہ صنعتی اور نہ ہی بڑے بڑے کمرشل دفاتر ہیں کہ وہاں لوگ کھپ سکتے۔ مقامی پوٹھوہاری پہلے ہی میرے جیسے مہاجروں کی وجہ سے تنگ تھے جو ملتان، لیہ اور دیگر دوردراز کے علاقوں سے یہاں آکر بس گئے ہیں۔ یوں جو نوکریاں یا وسائل پوٹھوہاریوں کے تھے وہ ہمارے جیسے باہر سے آنے والوں کے حصے میں آئے۔ پوٹھوہاری پھر بھی کچھ نہ کچھ کام چلا رہے تھے‘ لیکن جب آبادی اچانک دس سے بائیس لاکھ ہوئی، خبیر پختون خوا اور پنجاب سے بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام آباد کا رخ کیا تو مری، ایبٹ آباد‘ کشمیر اور پنڈی کے لوگوں پر دبائو بڑھا اور وہ زیادہ متاثر ہوئے کہ انہیں نوکریاں ملنا کم ہو گئیں۔
اسلام آباد کی آبادی پچھلے بیس سالوں میں دس لاکھ سے بڑھ کر اب بائیس لاکھ کے ہندسے کو عبور کر چکی ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کب کے ایک ہو چکے ہیں‘ لہٰذا ان شہروں کے حالات کا ایک دوسرے پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اس دوران جب اسلام آباد میں دھرنے دینے کا رواج شروع ہوا تو بہت سارے لوگوں کو احساس ہوا یہ شہر تو خوشحال ہے اور خوبصورت بھی۔ پچھلے دس برسوں میں جو بھی دھرنا دیا گیا‘ اپنے پیچھے کئی لوگ چھوڑ گیا۔ جب پچھلے سال عمران خان صاحب کے خلاف اسلام آباد پر ایک اور ہجوم نازل ہوا تھا تو میں نے اس وقت چند دوستوں کو کہا تھا: اب دیکھتے جائیں شہر میں اچانک جرائم بڑھیں گے۔ وہ سب میرا مذاق اڑاتے اور کہتے تھے: تم کیسی باتیں کرتے ہو۔ پھر ایک دن اسی دوست کا فون آیا‘ جب اسلام آباد کے علاقے ایف سکس کے ایک گھر میں ڈاکا ڈالا گیا۔ پھر ایف ایٹ سیکٹر میں مسلح ڈاکوئوں نے ڈاکا ڈالا‘ بچوں کو مارا پیٹا گیا‘ بچوں پر پستول تان کر والدین سے پیسے نکلوائے گئے۔ اس فیملی کا ایک بچہ امریکہ میں پڑھتا تھا اور والدین سے ملنے آیا ہوا تھا‘ اسے تھپڑ مارے گئے۔ ان کی ماں نے مجھے روتے ہوئے بتایا کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہوا تھا۔ انہوں نے کہا: وہ افغانی گینگ ہے جو اسلام آباد پر نازل ہو چکا ہے۔ ابھی پچھلے ماہ ایک ویڈیو سامنے آئی جس نے سب کو دہلا کر رکھ دیا۔ اس میں چار پانچ مسلح لوگ ایک بندے کا اسلام آباد میں دن دہاڑے تعاقب کررہے ہیں۔ وہ ایک گھر میں داخل ہوتا ہے تو یہ دروازہ توڑ کر گھر میں داخل ہوتے ہیں اور اسے وہیں گولیوں سے بھون کر نکل جاتے ہیں۔ کسی کو پروا نہیں ہے۔ اب اسلام آباد میں ہفتے میں دو تین ڈاکے پڑنا معمول بن چکا ہے۔ چوریاں اور سٹریٹ کرائمز اس پر مستزاد۔ اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو دو اور کام ہوئے ہیں جنہوں نے اس شہر کو برباد کر دیا ہے۔ بڑی تعداد میں پیشہ ور بھکاریوں کے گروہوں نے شہر کے مختلف مراکز سنبھال لیے ہیں‘ اور سینکڑوں کی تعداد میں موٹر سائیکل شہر میں نظر آنے لگے ہیں‘ لیکن ان موٹر سائیکل والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ اس شہر کے لوگ منظم ٹریفک اور ڈرائیونگ کے عادی ہیں۔ اب یہ سب موٹر سائیکل والے دائیں بائیں، غلط سائیڈ سے کراسنگ اور ٹریفک سگنلز توڑنے پر لگے ہوئے ہیں۔ اگر آپ کسی کو روکیں تو سارے مل کر قصور گاڑی والے کا نکال دیتے ہیں۔
اسلام آباد ایک رات میں برباد نہیں ہوا۔ اسے پوری محنت سے برباد کیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بتایا گیا کہ اس شہر میں ایک سو بیس ہائوسنگ سوسائٹیز غیر قانونی ہیں۔ اب مجھے بتائیں اس شہر میں نہ انڈسٹری ہے، نہ ساحلی شہر ہے‘ نہ ہی بڑی بڑی کمپنیوں کے دفاتر تو پھر نوکریاں کہاں سے آئیں؟ اب روز پانچ چھ لوگ ضرور بیل بجا کر پوچھتے ہیں کہ گھر پر کوئی کام ہے؟ آپ کتنے لوگوں کو گھر پر مزدوری دے سکتے ہیں؟ اس کے بعد کیا آپشن رہ جاتا ہے؟ یہ کہ وہ واپس لوٹ جائیں یا پھر اس شہر میں کسی گروہ میں شامل ہوکر لوٹ مار کرنا شروع کر دیں اور لگتا ہے‘ کچھ لوگوں نے نوکریاں نہ ملنے سے مایوس ہو کر یہی دھندا پکڑ لیا ہے۔ کل پرسوں جی نائن میں ایک شہری گیارہ لاکھ روپے بینک سے نکلوا کر جونہی گھر پہنچا ایک گینگ آیا اور گن پوائنٹ پر پیسے لوٹ کر لے گیا۔
اسلام آباد اس وقت مختلف گروہوں کے گھیرے میں ہے۔ نہ پولیس نظر آتی ہے اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ کا کوئی رول۔ اگر آپ نے دیکھنا ہو کہ اچھے خاصے شہر کو کیسے برباد کیا جاتا ہے تو اسلام آباد تشریف لائیں۔ ایک ہی شہر بچ گیا تھا‘ وہ بھی بربادی کی طرف سفر کررہا ہے۔ ہر شہر میںجرائم ہوتے ہیں، مسائل ہوتے ہیں لیکن کہیں تو کوئی حکمران ہوتا ہوگا، وزیر ہوں گے، کوئی پولیس ہوگی، کوئی ضلعی انتظامیہ ہوگی جنہیں کچھ احساس ہوگا کہ شہر برباد ہورہا ہے۔ یہاں کسی کو احساس نہیں۔ سنا ہے ان بھکاریوں، ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ گروہ نے اب ٹویٹر اور فیس بک اکائونٹس بھی کھول رکھے ہیں۔ کوئی بھی ان پر تنقید کرے تو یہ اکائونٹس فوراً ان کی مدد کو آ جاتے ہیں۔ اب یہ پروفیشنل بھکاری، جرائم پیشہ اور گینگ پوری تیاری کے ساتھ شہر پر نازل ہیں اور مجال ہے کسی ذمہ دار کے کان پر جُوں تک رینگ جائے۔
یہ سب کچھ اس شہرمیں ہورہا ہے جہاں پندرہ ارب روپے سے سیف سٹی کے نام پر کیمرے لگائے گئے تھے۔ جہاں وزیراعظم ، پچاس وزرا، وزیرداخلہ، سیکرٹری داخلہ رہتے ہیں۔ ہاں یاد آیا اسی شہر کا اپنا آئی جی پولیس بھی پوری ٹھاٹ باٹ سے رہتا ہے۔ یہ کہیں ملیں تو انہیں بتائیں: سیف سٹی اب خطرناک سٹی بن چکا ہے۔
تیرا لٹیا شہر بھنبھور نی سسئے بے خبرے