کسی کام کے سلسلے میں ایک دن کے لیے کراچی آنا پڑا۔
عامر متین اور محمد مالک بھی ساتھ تھے۔
شاہین صہبائی صاحب کا امریکہ سے فون تھاکہ کراچی جا رہے ہو تو وہاں ہر صورت رضوان احمد خان سے ملنا بلکہ ان کے پاس ٹھہرنا۔
رضوان احمد خان سے ہم تینوں کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ رضوان دراصل شاہین صہبائی کے لنگوٹیے دوست عمران کے چھوٹے بھائی ہیں اور کراچی میں ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی عمران کچھ برس قبل کینسر کی وجہ سے فوت ہو گئے تھے۔
عمران پی آئی اے میں تھے اور اپنی طبیعت اور خوش مزاجی کے سبب کراچی سے لاہور‘ اسلام آباد تک مشہور اور ہردلعزیز تھے۔ ان جیسی محفل شاید ہی کوئی سجا سکتا ہو۔ دن رات دوستوں کو چھوڑیں‘ اجنبیوں کی مدد کے لیے بھی کوشاں رہتے۔ ان کے بزرگ ہندوستان کے شہر رام پور سے آئے تھے۔ دوستوں میں مشہور تھاکہ رام پور کی دو ہی چیزیں مشہور ہوئیں‘ رام پور کے چاقو اور عمران احمد خان۔ عامر متین کہنے لگے: وہی شکیل عادل زادہ کے بازی گر میں بٹھل کے لاڈلے بابر زمان کے اڈے، پاڑے والے لمبے چاقو۔
ایسے مزاج کے کم انسان ہوتے ہیں جیسے عمران صاحب تھے۔ شاہین صہبائی کو ان کی وفات کا بہت دکھ ہوا۔ اسی باعث ان کا پاکستان آنا چھوٹ گیا تھاکہ یہاں آنے کی ایک بڑی وجہ باقی نہیں رہی تھی۔ وہ طویل عرصہ اپنے اس دوست کی وفات پر ڈپریشن میں رہے۔
میری عمران صاحب سے ملاقات 2015 میں ہوئی تھی جب ایک ٹی چینل کے پروگرام کے لیے کچھ روز کراچی میں ٹھہرنا پڑا۔ عامر متین میرے ساتھ تھے۔ عمران صاحب کینسر کی آخری سٹیج پر تھے اور انہیں علم تھاکہ وہ اب موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے وہیں عامر متین کے کمرے میں عماد یوسف، ارشد شریف، وسیم بادامی بھی موجود تھے۔ وہ ہمارے لیے کراچی کی بہترین نہاری، بریانی، پران لے کر آئے تھے۔ وہ کھانا وہ کراچی کے ایک ایم این اے کے مشہور ہوٹل سے لے کر آئے تھے۔ ہوٹل کا مالک عامر متین کا دوست تھا۔ عامر نے عمران پر رعب جمایا اور کہا: یقینا جب میرے دوست کو پتہ چلا ہوگا کہ کھانا عامر متین کے لیے جارہا ہو تو پیسے نہیں لیے ہوں گے۔ عمران نے کہا: جی بالکل‘ بل میں پانچ روپے کم پڑ گئے تھے تو پیچھے سے اس کے ویٹر نے آواز دے کر کہا تھا: بابو پانچ روپے دیتے جائو۔ عمران نے پانچ سو کا نوٹ نکالا اور کہا: جا کر مالک کو دے دو اور کہو‘ keep the change
شاید ہی ہم میں سے کسی نے موت کے قریب پہنچے کسی شخص کو اتنی بہادری سے موت کو گلے لگاتا دیکھا ہوگا۔ عمران نے اس رات ہوٹل کے کمرے میں ذاتی زندگی کے کچھ ایسے واقعات سنائے کہ ہنس ہنس کر ہم سب کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ پھر انہوں نے اپنی موت کا منظر کھینچا کہ جب ان کی میت گھر رکھی ہوگی تو وہاں کیا کچھ ہوگا۔ ہم سب کو یہ سن کر افسردہ ہونا چاہئے تھا‘ لیکن یقین کریں اس منظر کشی پر ہم کافی دیر تک ہنستے رہے۔
اب ان کے بھائی رضوان احمد خان بتا رہے تھے کہ وہی کچھ ان کی میت پر ہوا تھا جس کا نقشہ ان کے بھائی عمران نے اس رات ہم دوستوں کے ساتھ رات گئے ہوٹل کے ایک کمرے میں کھینچا تھا۔ اس بار ہم ہنسنے کے بجائے افسردہ بیٹھے رہے۔ جس طرح عمران نے موت کو ہنس کر گلے لگایا اس سے مجھے امریکہ میں اوکاڑہ کے نوجوان حافظ عبدالرحمن سے آخری ملاقات یاد آ گئی۔ اس کی داستان میں اپنی ایک کتاب میں لکھ رہا ہوں۔ وہ عبدالرحمن‘ جس نے امریکہ میں آخری ملاقات کے دوران دو درجن سے زیادہ کتابیں مجھے دیں اور کہا: رئوف صاحب میرا کھیل تو اب ختم ہو چکا‘ مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق ہے‘ جب سے پتہ چلا ہے کہ میرا اوپر کا ٹکٹ کٹ چکا ہے، تو جہاں دیگر باتیں ذہن میں آئیں کہ کیا کیا کام رہ گئے ہیں‘ وہیں ان کتابوں کو دیکھ کر خیال آتا تھاکہ اس خزانے کا کیا کروں گا؟ تب میرے ذہن میں آپ کا نام آتا تھا۔ میں نے یہ سب آپ کے لیے سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔ میں خاموش بیٹھا عبدالرحمن کو ان کتابوں پر دستخط کرتے دیکھتا رہا۔ شاید وہ منظر عمر بھر میری آنکھوں سے غائب نہیں ہوگا۔
اب رضوان احمد خان اپنے بھائی عمران کی باتیں سنا رہے تھے۔ کہنے لگے: آپ سب لوگ میرے بھائی عمران سے ملتے تھے‘ ان کے پاس ٹھہرتے تھے‘ اب میرا دل چاہتا ہے میرے بھائی کے دوست میرے پاس ٹھہرا کریں۔ پتہ نہیں کیوں عمران بھائی کی یاد آتی ہے تو دل چاہتا ہے ان کے دوستوں سے ملوں۔
مجھے یاد آیا‘ میری اپنی یہی حالت نعیم بھائی کی وفات کے بعد ہوئی تھی۔ زندہ تھے تو نعیم بھائی کو کہتا: آپ کے دوست مزے کے نہیں ہیں‘ سلیم بھائی کے دوست زیادہ اچھے ہیں۔ وہ ہنس پڑتے۔ پتہ نہیں کیا ہوا‘ اچانک ان کی وفات کے بعد نعیم بھائی کے سب دوست مجھے اچھے لگنے لگ گئے۔ اشو لال، ڈاکٹر شہانی، ڈاکٹر جاوید کنجال، ڈاکٹر حسین جعفری اور ڈاکٹر محسن شہزاد قادر تو خیر ہمارے گھر کے فرد تھے لیکن ان کے لیہ، ڈیرہ غازی خان، تونسہ، ملتان، کراچی اور بہاولپور تک پھیلے سب دوست نعیم کی طرح لگنے لگ گئے۔ ان سے مل کر اندر کہیں دور تک محسوس ہوتا ان سب سے نعیم بھائی کی خوشبو آرہی ہو‘ عجیب سا سکون محسوس ہوتا اور انہیں مس کرنے کی شدت کچھ کم ہو جاتی۔ رضوان احمد خان ہم لوگوں سے دیر سے اپنے بھائی کی باتیں کر رہے تھے اور ان کے چہرے پر سکون اور خوشی سے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے مرحوم بھائی عمران کے ساتھ بیٹھے ہوں۔ احساس ہوا کہ ہمارے بچوں کے دوست ہوں یا ہمارے بھائیوں کے وہ ہمیں کتنے پیارے لگتے ہیں۔ ہم تینوں پہلی دفعہ رضوان احمد خان سے مل رہے تھے لیکن لگ رہا تھا کہ نہیں وہ ہمارے اتنے ہی پرانے دوست ہیں جتنا ان کا بھائی تھا۔
عامر متین کا عمران سے زیادہ گہرا تعلق تھا۔ تعلق کیا نہایت بے تکلفی والی دوستی تھی۔ عامر متین لاہوری ہونے کی وجہ سے بڑے جگت باز اور محفل والے بندے ہیں۔ ان کی محفل میں آپ بور نہیں ہو سکتے۔ محمد مالک اور عامر متین اکٹھے ہو جائیں تو اس کے بعد نان سٹاپ جگت بازی ہو گی۔ لاہوری ہونے کے فوائد میں ایک بہترین حسِ مزاح بھی ہے۔
عامر متین سنانے لگے کہ جب بینظیر بھٹو کا قتل ہوا تو شاہین صہبائی اور مسعود حیدر امریکہ جبکہ اسلام آباد سے ضیاالدین، نصرت جاوید اور عامر متین آئے تاکہ لاڑکانہ جاکر تعزیت کی جاسکے۔ طے پایا کہ سب پی آئی اے کی فلائٹ سے سکھر اور وہاں سے گاڑی پر لاڑکانہ جائیں گے۔ جب سارے ایئرپورٹ کیلئے تیار ہو رہے تھے تو عمران صاحب نے کہا کہ کس چیز کی جلدی ہے‘ آرام سے تیار ہوں‘ جہاز میرے بغیر بھلا کیسے اڑ سکتا ہے۔ سب نے کہا: جناب فلائٹ کا ایک وقت ہوتا ہے۔ عمران صاحب نے کہا: کراچی پی آئی اے میں اپن کی چلتی ہے۔ سب مرعوب ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر جب ٹہلتے ٹہلتے کراچی ایئرپورٹ پہنچے تو پتہ چلا کہ فلائٹ تو کب کی جا چکی ہے۔ سب دوستوں نے عمران صاحب کو گھیر لیا۔ وہ بغیر پریشان ہوئے بولے: اچھا فلائٹ چلی گئی؟ کب کیسے؟ چلیں کوئی بات نہیں‘ اب کوئی کوسٹر کرائے پر لے کر لاڑکانہ چلتے ہیں‘ اچھا ہے اس بہانے آپ بابو لوگ اندرون سندھ بھی دیکھ لیں گے۔ جو سفر تیس چالیس منٹ میں طے ہونا تھا وہ گھنٹوں میں طے ہوا۔ راستے میں اکیلے عمران نے کیسے اپنے دوستوں کو بھگتا‘ یہ کہانیاں سنا سنا کر عامر متین نے ہمارے پیٹ میں بل ڈال دیے۔
رضوان احمد خان کا مقصد پورا ہو چکا تھا کہ وہ اپنے جس مرحوم بھائی کو تلاش کر رہے تھے‘ وہ یہیں اسی محفل میں موجود تھا‘ دوستوں کا رام پوری چاقو۔