"RKC" (space) message & send to 7575

میجر عامر کی کتابی باتیں

کبھی کبھار میجر عامر سے سیاسی ایشو پر شدید بحث ہوجاتی ہے۔ وہ چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ میں نے انہیں کہا: ملنے سے پہلے میں آپ کا نظریاتی دشمن تھا۔
ان سے میری ملاقات دس بارہ برس پہلے سلیم صافی نے کرائی تھی۔ اختلافات تو اب بھی میجر صاحب سے بہت ہیں ‘ لیکن ان سے مل کر ایسی باتوں کا پتہ چلا جس نے سیاسی طور پر میچور ہونے میں مدد دی۔ شاندار یادداشت‘ ہر بات اور تاریخ یاد رہتی ہے۔ انکی ایک خوبی یہ ہے کہ اپنی غلطی مان لیتے ہیں۔ پاکستان میں اگر دوران سروس کوئی میجر مشہور ہوا تو وہ یہی ہیں۔ ریٹائر ہوئے تیس برس سے زائد ہو گئے لیکن آج بھی معروف ہیں۔ 
میجر عامر آپریشن مڈنائٹ جیکال سے مشہور ہوئے تھے۔ الزام تھا کہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت گرانے پرکام کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی والے آج تک ناراض ہیں؛ اگرچہ زرداری صاحب نے صدر بننے پر انہیں ایک بڑا عہدہ آفر کیا‘ لیکن انکار کر دیا۔ 2007 میں وطن واپسی کے بعد میجر عامر کی بینظیر بھٹو سے ملاقات ہوئی تھی جس میں گلے شکوے دور ہوگئے تھے۔
نواز شریف ہوں یا عمران خان سب ان سے مشورے کرتے رہے ہیں۔ میں نے ایک دن کہا: ایک سرائیکی کہاوت کے مطابق آپ وہ پیر ہیں جو سب کو بیٹا دیتا ہے۔ مطلب‘ سب کو خوش کرکے بھیجتا ہے۔ وہ سب لوگ جو ویسے تو جانی دشمن ہیں اور عمر بھر ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھیں گے‘ لیکن آپ کے ہاں آتے اور مشورے کرتے ہیں۔ کمال یہ ہے آپ سے نواز شریف اور عمران خان بھی مشورے کرتے تھے‘ چوہدری نثار سے دوستی ہے تو پرویز رشید سے بھی تعلق ہے‘ آپ کیسے یہ سب کر لیتے ہیں؟
دراصل میجر عامر ایسے مشورے دیتے ہیں جو عام لوگ شاید نہ دے سکیں۔ اگرچہ پختون ہونے کے ناتے ان کے اندر کا پٹھان بھی کبھی کبھار باہر آ جاتا ہے لیکن عموماً وہ ٹھنڈے رہتے ہیں۔ ان کا مشورہ لوگوں کو بڑی دیر سے سمجھ میں آتا ہے۔ ایک دفعہ مجھے کال آئی۔ کسی دوست نے میرے خلاف کالم لکھا تھا۔ کہنے لگے: آپ جواب نہ دیں۔ میں کافی دیر بولتا رہا کہ نہیں مجھے جواب دینا چاہیے۔ مجھے پھر کہا: میں آپ کا بھائی ہوں‘ جانے دیں‘ ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔ میں نے ان کی بات نہیں مانی اور کالم لکھ دیا۔ اس دوست سے کچھ عرصے بعد تعلق بحال ہو گیا۔ میں نے اپنے کالم پر اس سے معذرت کی کہ زیادہ سخت لکھ دیا تھا۔ مجھے شرمندگی ہوئی‘ میجر عامر کی بات مانی ہوتی تو وہ دوست معذرت کرتا، میں نہ کرتا۔ اس کے بعد میجر عامر کی باتوں اور مشوروں کو اہمیت دیتا ہوں کہ انہوں نے زندگی کو کچھ اور رنگوں سے دیکھا ہے۔ اکثر میں ان کو کہتا ہوں‘ کوئی سمجھدار حکمران ہو تو آپ کو اپنا ایڈوائز بنائے۔ ان میں یہ خوبی ہے انسانوں کو جوڑ سکتے ہیں۔ دس بارہ برسوں میں ان کے منہ سے کبھی تخریبی بات نہیں سنی۔ سیاستدان دوستوں کو ہمیشہ اچھا مشورہ دیں گے۔
ان سے موجودہ سیاسی ایشوز پر بات ہورہی تھی تو کہنے لگے: انسان جب غصے میں ہوتو وہ اپنے دشمن سے زیادہ نقصان اپنا کرتا ہے‘ آپ اپنے تئیں غصہ کرکے اپنے دشمن کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے کہ غصے کا فائدہ آپ کے دشمن کو ہوتا ہے۔ میں نے ان کی بات سن کر کہا: آج آپ مجھے یونان کے فلاسفر، میکاولی اور چانکیہ جیسے فلاسفر لگ رہے ہیں جو اپنے اپنے دور کے حکمرانوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے دو تین سیاستدانوں کا نام لیا اور کہنے لگے: حیرانی ہوتی ہے‘ غصہ کرکے انہوں نے کس کا نقصان کیا؟ اپنا ہی۔ جس سیاسی دشمن کے خلاف جدوجہد کررہے تھے آپ نے اپنے غصے کی وجہ سے اس دشمن کو ہی اٹھا کر اس کرسی پر بٹھا دیا جس پر آپ کبھی خود بیٹھتے تھے۔ آپ کا غصہ آپ کو تخت سے اتار کر نیچے لے آیا ہے اور آپ اب بھی نہیں سمجھ رہے کہ غصے نے آپ کے ساتھ دشمنی اور آپ کے دشمنوں کا فائدہ کیا ہے۔ میں نے کہا: یہ عجیب بات ہے کہ انسان دوسروں کی باتوں اور تجربوں سے نہیں سیکھتا۔ انسانی فطرت عجیب چیز ہے۔ کچھ بھی کرلیں آپ نے کرنا وہی ہے جو آپ کی طبیعت یا مزاج ڈکٹیٹ کررہا ہوتا ہے۔ میں نے کہا: اگر انسان ایک دوسرے کے تجربات اور سمجھداری سے سیکھ سکتا تو شاید ان کی زندگیاں بور ہو جاتیں‘ اس لیے انسان اپنی غلطیوں سے سیکھ کر بڑا ہوتا رہتا ہے اور سمجھداری دھیرے دھیرے اس کی شخصیت کا حصہ بنتی ہے۔ 
ابھی عمران خان صاحب پر بھی وہی فیز طاری ہے جو کبھی نواز شریف پر طاری تھی؛ اگرچہ نواز شریف نے عمران خان کے ایک سو چھبیس دنوں کے دھرنے دنوں میں سمجھداری دکھائی‘ غصہ نہیں کیا‘ چپ رہے اور یوں اپنی حکومت بچا لی۔ اگر وہ وہی غصہ اس وقت کرتے جو آج کل کررہے ہیں تو زیادہ نقصان کربیٹھتے۔ مجھے یاد آیا‘ یہ سب باتیں ہم نے کتابوں میں پڑھی ہیں۔ چانکیہ سے ارسطو‘ سقراط، میکاولی، اور بیربل تک سمجھدار لوگ یہ باتیں ہر دور میں حکمرانوں اور طاقتور لوگوں کو سمجھاتے اور بتاتے آئے ہیں۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ کیا ان حکمرانوں نے اپنے دور کے سمجھدار لوگوں کی باتیں سنیں؟ شاید ہندوستان کے بادشاہ اکبر کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں‘ جس نے اپنے دور کے سمجدار لوگوں کی کابینہ بنائی تھی‘ جنہیں نورتن کہا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ بادشاہ کو اس کی مرضی کے مشورے دینے کے بجائے وہ مشورہ دیتے تھے جو ریاست، عوام اور بادشاہ کیلئے بہتر ہوتا تھا۔ لیکن یہ بڑا مشکل کام ہے کہ ایک کامیاب انسان کو کوئی بندہ مشورہ دے۔ میں خود کامیاب لوگوں کو مشورہ دینے سے گریز کرتا ہوں۔ اگلا بندہ بادشاہ، وزیراعظم یا وزیر ہو تو پھر آپ کو کبھی مشورہ نہیں دینا چاہیے۔ راجہ پرویز اشرف جب وزیراعظم بنے تو مجھے بلاکر کہا: کوئی مشورہ دیں۔ میں نے کہا: سرجی اگر میں اتنا سمجھدار ہوتا تو آپ کی جگہ وزیراعظم بنا بیٹھا ہوتا۔ 
اس وقت عمران خان کا بھی وہ مزاج ہورہا ہے جس کا شکار نوازشریف ہوئے تھے اور جیل جا بیٹھے تھے۔ حکمران ہو یا عام انسان وقت کے ساتھ وہ کوئی ایسی بات سننے سے انکاری ہو جاتا ہے جو اس کی سوچ اور مزاج سے مختلف ہو۔ آپ سمجھتے ہیں‘ اپنی سوچ کو فالو کرکے تخت نشین ہوئے ہیں‘ لہٰذا لوگوں کی بات سننے سے انکاری ہوجاتے ہیں۔ آپ خود کو سمجھدار گردان لیتے ہیں اور یہیں سے آپ سے غلطیاں ہونا شروع ہوجاتی ہیں جو آپ کو تخت سے تختہ تک لے جاتی ہیں۔ بھٹو کے ساتھ یہی کچھ ہوا، نواز شریف ساتھ یہی ہوا، بینظیر بھٹو بھی اس کا شکار ہوئیں‘ عمران خان بھی شاید اسی راستے پر چل رہے ہیں جب وہ وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو ان کے مخالفیں کرتے رہے جس کا فائدہ عمران خان نے اٹھایا‘ اب عمران خان کے مخالفیں کا وقت ہوا چاہتا ہے وہ ان کے غصے سے فائدہ اٹھائیں۔
اب سوچ رہا ہوں‘ دوسروں کو سمجھانا کتنا آسان ہے۔ میں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ فلاں کام نہ کروں کیونکہ مجھے نقصان ہو گا اور غصہ نہ کروں‘ لیکن میری فطرت نے مجھ سے وہ کام کرایا اور کچھ عرصے بعد مجھے احساس ہوا میں نے غلطی کی تھی۔ ہمارے جیسے فطرت کے غلام ہوتے ہیں۔ جب ہمیں خود پر کنٹرول نہیں تو دوسروں کو کیا مشورہ دیں؟ سب باتیں دوسروں کو سمجھانے کے لیے ہوتی ہیں۔ سب سمجھدار باتیں کتابی باتیں ہوتی ہیں‘ ورنہ عملی زندگی میں ایسی باتیں کام نہیں آتیں۔ آپ کے اندر کا اصلی انسان وہی سوچتا اور کرتا ہے‘ جو اس کی فطرت کرنے کا حکم دیتی ہے۔ فطرت نے انسانوں کو بادشاہ بنایا تو اسی فطرت کا شکار ہوکر وہ جیل جا بیٹھے، پھانسی چڑھ گئے یا جلاوطن ہوئے۔ وہ خوبی جو کبھی آپ کی طاقت ہوتی ہے وہی وقت بدلنے ساتھ آپ کے زوال کی وجہ بھی بن جاتی ہے۔ اپنی اپنی فطرت کے غلام انسان بھلا یہ ہزاروں سال پرانے راز بھلا کب سمجھتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں