فیاض الحسن چوہان کی اپنی برطرفی سے لاعملی سے مجھے گوتم بدھ‘ کرسٹوفر مارلو اور قرۃ العین حیدر ایک ساتھ یاد آئے۔ گوتم بدھ سے پوچھا گیا کہ انسان کا دشمن کون ہے؟ جواب دیا: انسانی کی اپنی خواہشات۔ قرۃ العین حیدر نے برسوں پہلے ایک ناول کا ترجمہ کیا تھا جس کا عنوان تھا'' آدمی کا مقدر‘‘ ۔ مارلو نے ایسے انسان (ڈاکٹر فاؤسٹس) پر ڈرامہ لکھاجو ہیلن آف ٹرائے کا ایک بوسہ لینے کیلئے اپنی روح تک شیطان کو بیچ دیتا ہے۔
فیاض الحسن صاحب کی حالت دیکھنے والی تھی جب صحافیوں نے ایک فنکشن میں بتایا کہ آپ کو برطرف کر دیا گیا ہے اور آپ کی جگہ فردوس عاشق اعوان کو پنجاب میں مشیرِ اطلاعات لگا دیا گیا ہے۔ ان کے چہرے پر بکھری حیرانی برسوں یاد رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیسے لوگوں کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے مقدر اور ہماری قسمت کے فیصلے کریں؟ وہی گوتم کی بات کہ انسان کی اپنی خواہشات اسے خراب کرتی ہیں۔ آپ کے اندر خواہش ابھرتی ہے اور آپ اس کیلئے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ نے انسانی فطرت سمجھنی ہو کہ انسان اپنی خواہشات کو پانے کیلئے کس حد تک جاسکتا ہے توکرسٹوفر مارلو کا ڈرامہ ''ڈاکٹر فاؤسٹس‘‘ پڑھ لیں ‘جب ایک انسان شیطان سے اپنی روح کا سودا کرلیتا ہے۔ نیک فرشتہ اسے سمجھاتا رہتا ہے کہ یہ ڈیل مت کرو‘ تم میرے ساتھ ڈیل کرو ۔ ڈاکٹر فاؤسٹس سوچتا ہے کہ موت کے بعد کس کو کیا پتہ کچھ ملے یا نہیں ‘ جو شیطان یہاں دینے کو تیار ہے وہ انجوائے کر لو۔ یوں اس ٹریجڈی نے مارلو کے ایک شاہکار ڈرامے کو جنم دیا جسے آج بھی کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔
پاکستانی سیاست میں یہی کچھ ہوا ہے۔ یہاں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ آپ نے شارٹ کٹ لینا ہے تو خوشامد کا راستہ اختیار کرو۔ خوشامد کا ایسا طریقہ ڈھونڈو کہ لیڈر بھی حیران ہو کہ اس میں خدا نے یہ خوبیاں بھی ڈال رکھی ہیں۔ میں ملتان میں رپورٹنگ کرتا تھا تو نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں وہاں ایک ان پڑھ کاروباری کو سوجھا کہ حکومت کی قربت حاصل کی جائے۔ انہوں نے چند لاکھ کا بجٹ نکالا اور ایک اخبار میں روزانہ نواز شریف کی ان خوبیوں کا پرچار اشتہار کی شکل میں شروع کر دیا جن کا علم نواز شریف کو خود بھی نہ تھا۔ کچھ دن بعد نواز شریف ملتان گئے تو اس بندے کو ڈھونڈا گیا اور ملاقات کرائی گئی۔ اس بندے نے جو ساری سرمایہ کاری کی تھی وہ سب ریکور ہوگئی۔ پورے شہر میں بلے بلے ہوگئی اور پوری انتظامیہ اس کے در پر حاضری دینے لگی ۔ ان سیاستدانوں کی خوشامد میں جو آسمان کے تارے توڑ کر لا یا صرف اسے ہی انہوں نے اپنی پارٹی میں شامل کیا یا قریب آنے دیا۔ الطاف حسین کی پارٹی کے لوگوں نے یہ کام پہلے شروع کیا‘ اس کے خلاف ایک لفظ کہنا بھی گستاخی سے کم نہ تھا۔ یہ ٹرینڈ بھی اسی پارٹی نے دیا کہ میڈیا اور اینکرز کو ڈرایا اور دبایا جاسکتا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسری پارٹیوں نے بھی یہی طریقہ اپنا لیااور ٹی وی شوز میں اپنے لیڈروں کودیوتا بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ ان کی شخصیت‘ ذہانت اور رعب و دبدبے کی کہانیوں میں زمین آسمان کے قلاب ملا دیے گئے۔ یوں یہ نیا رجحان شروع ہوا کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کا ہر رہنما کسی بھی ٹی وی انٹرویو یاشو میں کوئی بھی بات کرنے سے پہلے نواز شریف اور زرداری کا نام ضرور لیتا اور کافی دیر تک ان کی خوبیاں بتانے کے بعد اصل بات کی طرف آتا اور پھر ہر دوسرے فقرے میں وہی نام اور ان کے کارنامے دہراتا رہتا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان صاحب جلسوں اور ٹی وی شوز میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ان لیڈروں کا مذاق اڑاتے تھے اور انہیں ذہنی غلام کہتے تھے ‘جو ہر وقت نواز شریف اور زرداری کے گیت گاتے پھرتے تھے۔ مریم نواز نے ایک اور کام شروع کیا کہ جب وہ وزیراعظم ہاؤس کی نئی کیئر ٹیکر بنیں تو انہوں نے اپنے نورتنوں کی کابینہ بنائی ہوئی تھی۔ وہ سب صبح وزیراعظم ہاؤس میں ناشتے پر اکٹھے ہوتے۔ وہاں ان سب کی رات کے ٹی وی شوز میں کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا اور پھر ان نورتنوں میں سے جس نے اپوزیشن کی زیادہ بے عزتی کی ہوتی تھی اس کیلئے مریم نواز تالیاں بجواتی تھیں۔ یوں جس نے ناشتے پر تالیاں بجوانا ہوتیں وہ ٹی وی شوز میں دوسروں کو بری طرح بے عزت کرتا۔ پھر قدرت نے عمران خان صاحب کو اس جگہ بٹھا دیا جہاں کبھی نواز شریف اور زرداری بیٹھتے تھے اور انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب وہ انہی خوشامدیوں کے اسیر ہوتے چلے گئے جن کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اب تو ہر کابینہ اجلاس میں چند وزیروں کے درمیان باقاعدہ مقابلہ ہوتا ہے کہ کون بڑھ چڑھ کر خان صاحب کی تعریفیں کرے گا۔ بات یہیں تک محدود نہ رہی بلکہ ترجمانوں کی میٹنگز میں بھی وہی توجہ پا سکتے ہیں جو پہلے خوشامد کرسکتے ہوں اور پھر دشمنوں کا منہ بند کراسکتے ہوں۔ آج یہ حالت ہوچکی ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ارکان جب عمران خان کے وزیروں اور ان کے ترجمانوں کو خان صاحب کی مسلسل تعریفیں کرتے دیکھتے ہیں تو رشک کرتے ہیں۔ ان کی کوئی بات یا ٹویٹ عمران خان کے تعریفی کلمات کے بغیر شروع نہیں ہوسکتا۔
جب یہ بات عمران خان سمجھ چکے ہیں کہ ان کے اردگرد جتنے لوگ ہیں‘ سب اپنی اپنی خواہشات کے غلام ہیں اور انہیں پورا کرنے کیلئے کسی بھی حدتک جانے کو تیار ہیں تو خان صاحب کو کیا پڑی ہے کہ انہیں برطرف کرنے سے پہلے اعتماد میں لیں یا انہیں بلا کر چائے پلا کر ان کا شکریہ ادا کریں کہ آپ نے میرا بڑا ساتھ دیا‘ میرے لیے دشمنیاں بنائیں‘ ٹی وی چینلز پر برا بھلا سنا‘ ٹویٹر پر ٹرولنگ کا سامنا کیا ‘یا عمران خان ان سے یہ کہیں کہ اس وقت آپ ایک طرف ہوجائیں ہم آپ کو دوسری وزارت میں ایڈجسٹ کردیتے ہیں‘ لیکن اسد عمر کو برطرف کرنا ہو تو بھی واٹس ایپ پر میسج ملتا ہے کہ کل سے وزارت خزانہ نہ جائیں ‘حالانکہ اسد عمر کچھ دیر پہلے ہی وزیراعظم سے مل کر آئے تھے۔ فردوس عاشق اعوان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا‘ جب وہ چاربجے عمران خان کی صدارت میں ایک اجلاس سے باہر نکلیں تو انہیں اعظم خان نے کہا کہ استعفیٰ دیتی جائیں۔ وہ حیران کہ ابھی تو وزیراعظم نے ان کے ذمے نئے کام لگائے ہیں‘جواب ملا: انہوں نے ہی جاتے ہوئے کہاہے کہ ان کی چھٹی کرادیں۔ یہی کچھ فیاض الحسن چوہان کے ساتھ ہوا ہے۔ کسی کو واٹس ایپ ‘ کسی کو اعظم خان تو کسی کو ٹی وی سے پتہ چلا کہ انہیں برطرف کر دیا گیا ہے۔ ایک چائے کا کپ پلا کر رخصتی کسی کی قسمت میں نہ تھی ۔
آدمی کے مقدر میں جو ہو وہ اسے مل کر رہتا ہے۔ ان سب نے اپنا مقدر خود چُنا ۔ برسوں کی خوشامد‘ بے جا تعریفوں اور سیاسی مخالفین کے لتے لینے کے بدلے میں وہ اس قابل بھی نہ ہوسکے کہ انہیں چائے پلا کر عزت سے رخصت کیا جاتا۔ ان سب کے ساتھ یہ سلوک عمران خان صاحب نے نہیں گوتم بدھ کے الفاظ میں ان کی خواہشات نے کرایا ہے۔ انہیں ہر قیمت پر عہدے چاہئیں تھے۔ وہی خواہشات جن کیلئے ڈاکٹر فا ؤسٹس نے اپنی روح تک بیچ دی تھی کہ ایک خوبصورت خاتون کا ایک بوسہ لے سکے۔ وہی ہیلن جس کے حسن کی وجہ سے سپارٹا اور یونانی نوجوان سات سال کی طویل جنگ میں لہو بہاتے رہے۔ آج تاریخ ان نوجوانوں میں کسی کا نام نہیں جانتی جنہوں نے ہیلن کیلئے جانیں قربان کیں‘ لیکن ہیلن کو ہزاروں برس بعد بھی سب جانتے ہیں ۔ یہ ہمارے لیے سبق بھی ہے‘ عبرت بھی۔