آج کل سردیوں کے موسم میں دو ہی کام ہو سکتے ہیں‘ کتاب اور فلم۔ کتابیں بہت شاندار آرہی ہیں۔ ایک ابھی آپ خرید کر شروع کرتے ہیں کہ دوسری آجاتی ہیں۔
ابھی سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کی کتاب Honor Among Spies شروع کی تھی کہ اوبامہ کی کتاب آ گئی۔ اس سے پہلے دو انگریز صحافیوں کی کتب آئیں۔ ان میں سے ایک گورے صحافی کے پاکستان میں گزرے برسوں کی کہانی پر مبنی تھی‘ تو ابھی بھٹو خاندان پر بھی ایک کتاب آئی ہے۔ گورے صحافیوں یا لکھاریوں کی ایک خوبی ہے کہ اپنے ملک میں ان کا وزیر اعظم چائے کا ایک کپ بھی زیادہ پی لے تو وہ مرنے مارنے پر تل جائیں گے کہ عوام کے ٹیکسوں پر یہ ظلم ہو رہا ہے جبکہ پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ ممالک کے حکمرانوں کے بارے میں ان کا رویہ کچھ اور ہوتا ہے۔ وہ انہیں گلیمرائز کریں گے‘ یا ممکن ہے وہ سوچتے ہوں کہ جب یہاں کے بائیس کروڑ لوگ صدیوں سے لٹ رہے ہیں‘ خوش ہیں اور لیڈروں کو کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے تو وہ ان کا ساتھ کیوں دیں؟ وہ تین چار سال کی پوسٹنگ پر آئے ہیں اپنا کام کریں اور واپس جائیں اور جا کر ان شاموں کی کہانیاں لکھیں جہاں صرف انہیں بلایا جاتا ہے اور تمام راز ان کے ساتھ شیئر کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ادارے اور ان کے سربراہان ان گوروں کے سامنے سب راز کھول کر رکھ دیتے ہیں اور ایسی باتیں بھی بتا دیتے ہیں کہ اگر وہ کوئی پاکستانی صحافی پوچھ یا لکھ دے تو غائب کرا دیا جائے۔ ان غیرملکی صحافیوں پر رعب ڈالنے کیلئے سب کچھ کھول کر بیان کیا جاتا ہے۔ وہ کہانیاں تو اب پرانی ہو چکیں کہ کیسے اس ملک کے سابق وزیراعظم تک غیرملکی حسینہ صحافی کو دوستی اور آئی فون کی آفر کرتے پائے گئے تھے۔ شاید کسی نے بتایا ہوگا‘ گوری کیلئے آئی فون بہت بڑی لالچ ثابت ہوگا۔ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے! حسینہ ہی بے ذوق نکلی۔ایک اور گوری نے کتاب لکھی تھی: Waiting for Allah۔ اس میں بھی اس نے پاکستانی حکمران اشرافیہ کی داستانیں لکھی تھیں؛ چنانچہ پاکستان کے راز جاننے کا شوق ابھرے تو گورے صحافیوں کی سابق سربراہوں کے بارے میں یادداشتیں پڑھیں۔ پاکستان کی پچھلے دس بیس سال کی تاریخ پڑھنا ہو تو ہلیری کلنٹن، کونڈولیزا رائس، رابرٹ گیٹس، لیون پنیٹا اور اب باراک اوبامہ کی یادداشتیں پڑھ لیں۔ پتہ چل جائے گا کہ ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے۔
خیر دوسری طرف حیران ہوتا ہوں کہ دنیا میں پبلک فگر کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا اور وہ پھر بھی برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی طرح وہ میڈیا پر حملے یا انتقامی کارروائی نہیں کرسکتے۔ وزیراعظم کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف سے ایک پروگرام میں بات ہورہی تھی کہ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے صحافی دوست وسیم عباسی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا: میڈیا کون ہوتا ہے مجھ سے سوالات پوچھنے والا۔
میں انہی دنوں نیٹ فلیکس پر ایک شاندار سیریز کرائون دیکھ رہا ہوں۔ یہ سیریز برطانیہ کی رائل فیملی پر بنائی گئی ہے۔ کمال کا شو ہے۔ یہ شاہکار خاصی محنت اور ریسرچ کے بعد لکھا اور فلمایا گیا ہے اور کیا کمال کی اداکاری دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک اداکار اور لگتا ہے پچھلے سو سال کی ''کرائون‘‘ کی تاریخ آپ کے ٹی وی سیٹ میں آپ کے کمرے میں سمو دی گئی ہے۔
برطانیہ کی موجودہ ملکہ الزبتھ کے اپنے بادشاہ باپ کی موت کے بعد کرائون سنبھالنے کی تاریخ کو جس طرح فلمایا گیا ہے وہ اپنی جگہ ایک خوبصورت کام ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شاہی خاندان، شہزادے اور شہزادیاں ہم عام لوگوں سے بھی زیادہ مشکل لائف گزارتے ہیں۔ کتنے قوانین، ضابطوں اور پابندیوں کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنی مرضی سے شادی بھی نہیں کر سکتے جب تک کرائون اجازت نہ دے۔ ملکہ الزبتھ اور ان کی چھوٹی بہن مارگریٹ کے مابین شادی کے معاملے پر ہونے والی طویل لڑائی دیکھ کر آپ جان سکتے ہیں کہ بادشاہ اور ملکہ تک مجبور ہو جاتے ہیں کہ کرائون کی حرمت خراب نہ ہونے دیں۔ ''کرائون‘‘ کیلئے آپ کو بہت سخت فیصلے تک کرنا پڑتے ہیں۔ قریبی خونی رشتہ داروں کو بھی زیادہ میڈیا کوریج یا عوام میں پذیرائی ملتے نہیں دیکھ سکتے۔ آپ نے بادشاہوں کی مجبوریاں اور ان کی بعض دفعہ قابل رحم زندگی دیکھنی ہو تو یہ شو دیکھ لیں۔
ملکہ برطانیہ ایک جگہ اپنے اوپر چھپنے والے کالموں اور خبروں سے ڈسٹرب ہوتی ہیں تو ان کا سیکرٹری انہیں کہتا ہے‘ میڈم‘ اب آپ کی ذاتی زندگی نہیں رہی‘ آپ ایک ملکہ ہیں‘ اب آپ ایک پبلک فگر اور عوام کی ملکیت ہیں‘ عوام کو آپ کے بارے میں جاننے کا پورا حق ہے‘ آپ خود کو عادی بنائیں۔
یہ وہ دور تھا جب چرچل برطانیہ کا دوسری دفعہ وزیراعظم بن چکا تھا۔ ملکہ برطانیہ اور چرچل کے مابین ہونے والی شاہی ڈیوٹی کی خاطر ہونے والی ملاقاتیں بھی بہت دلچسپ اور اہم ہیں۔ چرچل کے دور میں لندن میں دھند نے حملہ کیا تو پورا لندن اندھیرے میں ڈوب گیا۔ نظر آنا بند ہو گیا‘ سب کام ٹھپ ہوگئے‘ لوگ حادثوں میں مرنے لگے‘ لیکن چرچل ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ان کا خیال تھا‘ یہ دھند ہے جو چند روز میں غائب ہو جائے گی‘ لیکن سائنس دانوں کا خیال تھا کہ یہ ان چمنیوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں اور کیمکلز کا کمال ہے جو وہاں بجلی کیلئے لگائے گئے پلانٹس اگل رہے تھے۔ اپوزیشن شور کررہی تھی۔ خود حکمران جماعت نے سمجھ لیاکہ چرچل بوڑھا اور بیکار ہوگیا ہے‘ اسے ہٹایا جائے۔ اسی رات چرچل کی سیکرٹری کی اس دھند میں حادثے کے باعث موت ہوئی تو چرچل کو احساس ہواکہ لندن تباہ ہورہا ہے۔ اس کے بعد چرچل نے کئی اقدامات کئے۔
مزے کی بات وہ ہے کہ کیسے چرچل کو ہٹانے کیلئے اس کا اہم وزیر ایڈن سازشیں کرتا ہے اور ہر قیمت پر وزیراعظم بننے کو تیار ہے۔ وہ سوچے سمجھے بغیر اس کھیل میں اینٹر ہوتا ہے اور ملکہ کو اندازہ ہوجاتا ہے کہاں وہ چرچل جیسے بڑے وزیراعظم کو ہینڈل کررہی تھیں اور کہاں ایڈن جیسا وزیراعظم‘ جس نے سوئز کینال پر برطانیہ کے مصر کے جمال ناصر کے ساتھ سینگ تو پھنسوا دئیے لیکن اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس جنگ سے کیسے نکلے۔
جمال ناصر کے حوالے سے یہ کارروائی ایڈن کو مہنگی پڑی۔ سوئز کینال ہاتھ سے گئی اور برطانیہ کا حشر ہوگیا کیونکہ تیل کی ساری سپلائی سوئز کے ذریعے ہورہی تھی جس پر اب مصر کا قبضہ ہوگیا تھا۔ وجہ ذاتی انا بنی۔ ملکہ نے ایڈن کو یہ بات باور بھی کرا دی۔ اس وقت ایڈن کو اندازہ ہوا کہ اپنی انا یا ذات کچھ نہیں ہوتی‘ عوام اور ریاست کے مفاد سب کچھ ہوتے ہیں۔
ایسے ہی موقع پر اندازہ ہوتا ہے کہ لیڈرشپ کیا ہوتی ہے۔ مزے کی بات ہے‘ وزیراعظم ایڈن جو چرچل سے وزارت عظمیٰ چھیننے کا خواہش مند تھا‘ وہ بعد ازاں اپنے ہی وزیر ہاراولڈ کے ہاتھوں سازش کا شکار ہوا۔ وہی وزیر پہلے وزیراعظم ایڈن کو مصر پر نہر سوئز کے حوالے سے حملے کیلئے سپورٹ دیتا ہے‘ لیکن جنگ کے اثرات منفی نکلتے ہیں‘ اور عوام کا غیظ و غصب بڑھتا ہے تو وہی وزیر اس کے خلاف کابینہ میں گفتگو شروع کر دیتا ہے۔ ایڈن اس پر چلاتا ہے کہ یہ ہی تم تھے جو نہر سوئز پر مجھے اکسا رہے تھے‘ ٹھیک ہے میں جنگ چاہتا تھا لیکن تم سب لوگ بھی میرے ساتھ جنگ چاہتے تھے۔ اب تم سب لوگ مجھے چھوڑ رہے ہو۔ تم ناانصافی کررہے ہو۔اس پر ہاراولڈ نے کیا تاریخی جملہ کہا: There is no justice in politics. یہ کہہ کر ہاراولڈ برطانوی ملکہ کو بتانے کیلئے پیلس کو نکل گیا کہ وہ اب نیا وزیر اعظم ہوگا۔ وزیراعظم ایڈن کو اس کے وزیروں نے ہی مروا دیا تھا۔ تاریخ بھی عجیب کام کرتی ہے۔ جو کام ایڈن نے چرچل ساتھ کیا وہی اس کے ساتھ ہاراولڈ نے یہ کہہ کر کیا: There is no justice in politics.