ندیم بابر صاحب کی پریس کانفرنس نے پرانے زخم ہرے کر دیے ہیں۔
اگرچہ ندیم بابر جی آئی ڈی سی سکینڈل کے مرکزی کردار ہیں‘ گیس بجلی اور دیگر معاملات میں ان پر سوالات اٹھتے رہے ہیں لیکن انہوں نے ایل این جی ٹرمینل کے حوالے سے درست کہا ہے کہ وزیر پٹرولیم کے طور پر شاہد خاقان عباسی نے دو پرائیویٹ پارٹیوں کے ذریعے ٹرمینل لگوائے‘ جن کی روزانہ پانچ لاکھ ڈالر ہمیں ادائیگی کرنا پڑتی ہے‘ حالانکہ یہ کام حکومت خود ایک ہی دفعہ پانچ چھ ارب روپے میں کر سکتی تھی۔مطلب ڈیڑھ کروڑ ڈالرز ماہنامہ‘ اٹھارہ کروڑ ڈالرز سالانہ اور پندرہ برس میں 2.7 ارب ڈالرز۔
ہر دفعہ کوئی خبر بریک ہوتی ہے تو سوچتا ہوں کہ اس سے زیادہ برا اس ملک کے ساتھ کیا ہوگا؟ اور ہر دفعہ میں ہی غلط نکلتا ہوں۔ جب پیپلز پارٹی اور نواز شریف دور میں بڑے سکینڈلز بریک کرتے تھے تو سوچتا تھا‘ اب مزید کیا کرپشن ہوگی۔ عباسی صاحب نے جو کام کیا‘ یہ قوم تادیر بھگتے گی کہ جو کام چند ارب میں وہ خود کر سکتی تھی اس کے لیے کراچی اور لاہور کی پارٹیوں کو ایل این جی ٹرمینل کا کنٹریکٹ دیا گیا اور دونوں کو اب پندرہ برس تک ہر روز پانچ لاکھ ڈالرز دینا ہوں گے‘ اور 2014 سے دے رہے ہیں۔ ندیم بابر درست کہہ رہے تھے کہ اب ان ٹرمینل کو استعمال کریں یا نہ کریں ہر روز آپ نے پانچ لاکھ ڈالرز انہیں دینے ہیں۔ جب یہ معاہدہ کیا گیا تھا‘ اس وقت ڈالر سو روپے سے بھی کم تھا۔ آج ایک سو ساٹھ کا ہے۔ اگر چھ سال پہلے ان کمپنیوں کو پانچ کروڑ روپے پاکستانی کرنسی کے مطابق مل رہا تھا تو آج انہیں آٹھ کروڑ روپے کے برابر مل رہا ہے۔
عباسی صاحب سمری لے کر ای سی سی میں گئے کہ ایک ایل این جی ٹرمینل لگنا ہے جس پر تین ارب کی لاگت آئے گی۔ پھر کچھ خیال آیا کہ نہیں اس پر تیرہ ارب کی لاگت آئے گی۔ اب طے کرنا تھا کہ اس کمپنی کو کیا منافع دیا جائے۔ قطر سے گیس آنا تھی اور اسے پورٹ قاسم پر جہاز سے سیدھا اس چھوٹے سے ٹرمینل میں ری گیسیفائی کرکے مین سسٹم میں ڈالنا تھا۔ اس پر حیران کن ڈیل دی گئی۔ 44 فیصد منافع اس کمپنی کو دیا گیا حالانکہ آئل گیس میں عالمی ریٹرن یا منافع 16 سے 18 فیصد ہوتا ہے۔
یوں ایک کمپنی کی 130 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری دکھا کر 1.5 ارب ڈالرز منافع طے ہوا۔ ہر روز دو لاکھ بہتر ہزار ڈالرز اس کمپنی کو پندرہ سال تک ملنے ہیں۔ طے کیا رقم ڈالروں میں ادا ہوگی اور روز ہوگی‘ چاہے ٹرمینل مہینوں استعمال نہ ہو۔ اس کے بعد دوسری پارٹی کے ساتھ بھی روزانہ دو لاکھ چوبیس ہزار ڈالرز پر یہی ڈیل دی گئی۔ اب دونوں ٹرمینل بے شک خالی پڑے رہیں لیکن ان کو ڈالروں میں ادائیگیاں ہورہی ہیں۔ نیب کے ہاتھ لگے توطاقتور لوگوں کو اپنی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے نواز لیگ کے ووٹوں کی ضرورت پڑ گئی یوں وہ باہر نکل آئے۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا جو کام تیرہ ارب روپے میں ہوسکتا تھا وہ انہوں نے ڈیڑھ ارب ڈالرز میں کیسے طے کیا؟ عمران خان کے دور کا تو آپ دور دور تک سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ اس میں کوئی سکینڈل ہوگا۔ ایک نیا طریقۂ واردات ڈھونڈا لیا گیا ہے کہ سکینڈل کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ خود بڑا اربوں کا چینی‘ گندم‘ ادویات کا سکینڈل کرتے ہیں۔ ان کے اے ٹی ایمز ڈٹ کر مال بناتے ہیں اور پھر وہ خود اس کی انکوائری کرکے خود کو داد دیتے ہیں کہ دیکھا ہم نے اپنا سکینڈل پکڑ لیا۔
جی آئی ڈی سی سکینڈل اپنی نوعیت کا عجیب سکینڈل تھاکہ کمپنیوں نے چار سو ارب روپے پاکستانی کسانوں اور عوام سے ٹیکس اکٹھا کر لیا تھا‘ لیکن ادا کرنے سے انکاری ہو گئیں۔ اسد عمر نے وزیر خزانہ ہونے کے ناتے یہ فیصلہ کیا کہ دو سو ارب روپے یہ بڑے کاروباری رکھ لیں اور دو سو ارب حکومت کو دے دیں۔ جو عمران خان نواز شریف کو پانامہ پر مطعون کرتے تھے‘ انہوں نے خود بیٹھے بٹھائے کاروباری دوستوں کو دو سو ارب معاف کر دیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اکٹھا کیا گیا سارا چار سو ارب روپے ٹیکس وصول کریں تو ارشد شریف کو عمران خان صاحب نے انٹرویو میں کہا: بہترہوتا ہم یہ کیس ہار جاتے۔ یہ بات ملک کا وزیراعظم کہہ رہا تھا۔
اب نئی واردات سن لیں۔ سپریم کورٹ میں پانامہ کی سماعت دوران ایف بی آر سے رپورٹ مانگی گئی تو انکشاف ہوا بہت سارے پاکستانی ایکسپورٹرز نے بیرون ملک خفیہ جائیدادیں خرید رکھی ہیں اور ان سب کی آف شور کمپنیاں تھیں۔ قانون کے تحت انہیں اجازت تھی کہ ایکسپورٹ سے جتنے ڈالرز کماتے ہیں‘ اس کا دس فیصد وہ بیرون ملک اپنے اخراجات یا ایجنٹ کمیشن نام پر خرچ کر سکتے ہیں یا باہر رکھ سکتے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا اس دس فیصد سے وہ ایکسپورٹرز اخراجات کے نام پر جھوٹے بل بنا کر بیرون ملک خفیہ جائیدادیں خرید رہے تھے جو پاکستان میں ڈکلیئر بھی نہیں تھیں۔ اندازہ کریں کہ حکومت اور عوام ایکسپورٹرز کو سستی بجلی‘ سستی گیس‘ ٹیکس ریفنڈ اور روپے کا ریٹ گرا کر مہنگائی بھگت کر فائدے دے رہے ہیں کہ یہ ایکسپورٹ بڑھائیں‘ ملک میں ڈالرز آئیں اور ہم مہنگے قرضے نہ لیں‘ لیکن سب کچھ لے کر وہی ایکسپورٹرز ان ڈالروں سے باہر خفیہ جائیدادیں خرید رہے تھے۔
اب ایک نئی واردات کے بارے میں سنیں بلکہ بہت بڑا ڈاکا اور قانونی منی لانڈرنگ کا نیا طریقہ۔ سٹیٹ بینک نے پچھلے ماہ ایک فیصلہ کیا۔ یہ کہ اب پاکستانی ایکسپورٹرز دس فیصد کے بجائے 35 فیصد تک فارن کرنسی اکائونٹس میں سے بیرون ملک خرچ کر سکتے ہیں۔ مطلب اگر آپ نے ایک ارب ڈالرز ایکسپورٹ سے کمایا ہے تو سرکاری طور پر اجازت دی گئی ہے کہ آپ 350 ملین ڈالرز بیرون ملک لے جا سکتے ہیں‘ بس آپ کو رسیدیں دینا ہوں گی کہ آپ نے کہاں کہاں خرچ کیا۔ کوئی ایجنٹ، کوئی کنسلٹنٹ ہائر کیا وغیرہ وغیرہ؟ مطلب اب آپ جعلی انوائس بنوا کر جمع کراکے ساڑھے تین سو ملین ڈالر باہر بھجوا سکتے ہیں۔ جیسے پہلے دس فیصد رعایت کے نام پر جعلی بل دکھا کر جائیدادیں خریدیں اب وہی کام بڑے پیمانے پر ہوگا۔ مطلب پاکستان کی کل ایکسپورٹ اس وقت اگر 23 ارب ڈالر ہے تو سات آٹھ ارب ڈالر اب آپ آرام سے پاکستان سے باہر سچے جھوٹے خرچے شو کرا کے لے جا سکتے ہیں۔
اب اندازہ کریں کہ یہ قوم دنیا بھر سے ڈالرز کی بھیک مانگ رہی ہے اور بینک نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ آئندہ دس کے بجائے آپ 35 فیصد فارن کرنسی بیرون ملک خرچ کر سکتے ہیں۔ یہ نواز شریف کے اکنامک ایکٹ 1992 سے بھی بڑا کام کیا گیا ہے۔ کوئی ملک ہوگا جو سو ڈالرز پر 35 ڈالرز بیرون ملک اخراجات کے نام پر آپ کو ایکسپورٹ کا پیسہ واپس بیرون ملک لے جانے دے۔ جو ایکسپورٹر اس دس فیصد فارن کرنسی پالیسی سے بھی جعلی بل دکھا کر بیرون ملک جائیدادیں خرید رہے تھے وہ اب 35 فیصد اضافے کی رعایت ساتھ کیا کچھ نہیں کر گزریں گے؟ سوال یہ ہے کیا حفیظ شیخ اور گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان، کابینہ یا ای سی سی کی منظوری لی؟
کیا اس اقدام سے منی لانڈرنگ کو قانونی شکل نہیں مل جائے گی؟ اگر آٹھ ارب ڈالرز یہ ایکسپورٹرز بیرون ملک خرچ کر سکتے ہیں تو کل ایکسپورٹ کی وصولی تو 15 ارب ڈالرز تک آ جائے گی۔ یہ آٹھ ارب ڈالرز جو یہ ایکسپورٹرز سٹیٹ بینک کے نئے قانون کے نام پر باہر لے جائیں گے تو ہم ہر سال وہ آٹھ ارب ڈالرز کہاں سے لائیں گے تاکہ ہمارا خسارہ پورا ہو؟
لگتا ہے اس ملک کا کوئی وارث نہیں رہا۔ پہلے اگر شک تھا تو سٹیٹ بینک کے اس ناقابل یقین فیصلے بعد یقین ہو گیا ہے کہ یہ ملک یتیم ہے۔ اب سرکار کی سرپرستی میں اربوں ڈالرز کی منی لانڈرنگ ہو گی۔ ایک اور بڑا ڈاکا تیار ہے اور وہ بھی سارا قانونی!