ملتان کے دوست ناصر شیخ سے پرانا تعلق ہے‘ بلکہ اگر کہا جائے کہ پچیس سال سے زائد کا تعلق ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ملتان میں جب صحافت شروع کی تو بہت سے صحافی دوست بنے جن سے بہت کچھ سیکھا۔ ملتانیوں جیسی دوستیاں کہیں نہ ملیں۔ شکیل انجم ‘ جمشید رضوانی ‘ خالد مسعود‘ علی شیخ‘ طاہر ندیم‘ سجاد جہانیاں‘ انجم کاظمی‘ ریاض گمب‘ خالد شیخ‘ سعود نیاز‘ ظفر آہیر‘ شاکر حسین شاکر‘رئوف مان‘ ایک لمبی فہرست ہے۔ناصر شیخ بہت ایکٹو بندہ ہے۔ اسے جیسا پچیس تیس سال پہلے ملتان میں ایکٹو دیکھا تھا وہ آج بھی ویسا ہی ہے۔ اس کی انرجی اور سوشل لائف میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ایک دفعہ ملتان میں کراچی سے آئے گلوکاروں کا کنسرٹ تھا‘ ہم سڑک چھاپ اور جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی۔ ناصر شیخ اس طرح کے انتظامات کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں۔ اس کنسرٹ کے اردگرد مجھے خالی جیبوں میں ہاتھ ڈالے پھرتے دیکھا تو پکڑ کر سٹیج کے پیچھے سے اندر لے گئے۔ میں نے کہا: سرکار ٹکٹ ہی نہیں۔ بولے :چھوڑو ملتان کے اتنے لوگوں نے ٹکٹ خرید لیے ہیں‘ کافی نہیں؟ جا کر سب سے اچھی سیٹ پر سٹیج کے سامنے بٹھا دیا۔ ابھی کچھ دن پہلے ملتان گیا تو شیخ صاحب کے گھر ان کے بیٹے کی شادی اور گریجویشن کی مبارک باد دینے گیا تو واپسی پر میری گاڑی میں ملتانی سوہن حلوہ کے علاوہ دیسی انڈے منگوا کر رکھ دیے۔ میں نے کہا :شیخ صاحب چلیں سوہن حلوہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ انڈے؟ بولے آج کل انڈے مہنگے ہوئے ہیں دوستوں کو انڈوں کا ہی تحفہ دیتا ہوں۔ میرا ہنس ہنس کر برا حال اور کہا: شیخ جی کیوں اتنی سخاوت پر اترے آئے ہو۔
ناصر شیخ ایک خوبصورت زندگی گزارتے ہیں۔ اپنے گھر میں ہر رات میوزک کی محفل سجاتے ہیں جس میں شہر اور سرائیکی وسیب کے ابھرتے گلوکاروں کو بلا کر فیس بک پر لائیو براڈ کاسٹ کرتے ہیں اور یوں میرے جیسے اور بیرون ملک پاکستانیوں کو وہ سرائیکی‘ پنجابی اور اردو گانے سنواتے ہیں۔ اگر ملتان میں کوئی بندہ زندگی انجوائے کررہا ہے تو وہ ناصر شیخ ہیں اور دوسرے ہمارا یار غار شکیل انجم۔ ناصر شیخ نے اپنے گھر میں مجھے اپنی نئی کتاب دی تو اس کا موضوع دیکھ کر حیران ہوا اور اسے پڑھنا شروع کیا تو دل دکھی ہوگیا۔ ناصر شیخ بہت سوشل ورک کرتا ہے‘ کبھی وہ نابینا لوگوں کے فنکشن کرا رہا ہے تو کسی معذور کو وہیل چیئر دلوا رہا ہے تو کہیں خون کی بیماری میں مبتلا بچوں کیلئے خون کا بندوبست کرا رہا ہے۔ ناصر شیخ کو کبھی اپنے ذاتی ایشوز پر افسردہ نہیں دیکھا۔ اگر اسے دکھی دیکھا ہے تو دوسروں کے دکھوں پر۔ عام انسانوں کا دکھ اسے بے چین کیے رکھتا ہے۔ روز صبح اُٹھ کر وہ ایم ڈی اے چوک پر روزگار کی تلاش میں بیٹھے مزدروں کو کھانا کھلا رہا ہوگا تو کبھی بزرگ مزدور کو گھر لے آئے گا‘ اس کے پیچھے گائوں تک جائے گا کہ وہ اس کا ایسا بندوبست کردے کہ اسے اس عمر میں مزدوری نہ کرنی پڑے۔ تو کبھی وہ گھر کے باہر بڑی تعداد میں اکٹھے پرندوں کو دانے ڈال رہا ہوگا‘ جن کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔
ناصر شیخ کو سب سے بڑا دکھ سرائیکی علاقوں میں ہونے والے ٹریفک حادثات کا ہے۔ اس نے کتاب بھی اس موضوع پر لکھی کہ کیسے ہم سب کی سستی اور نااہلی نوجوان زندگیاں تباہ کررہی ہے۔ ناصر شیخ روز ریسکیو اور پولیس سے رابطے میں رہتا ہے تاکہ اسے پتہ چل سکے کہ آج کتنے حادثات ہوئے اور اس میں کتنے گھر اجڑے۔ وہ یہ فگرز لے کر فیس بک پر شیئر کرتا ہے اور والدین‘ نوجوانوں اور پولیس اور حکمرانوں سے التجا کرتا ہے کہ خدا کیلئے کچھ کریں۔ اس کا خیال بلکہ یقین ہے کہ ان اموات کو روکا جاسکتا ہے یا کم کیا جاسکتا ہے۔ ابھی ناصر شیخ نے اپنے فیس بک پر صرف فروری کے مہینے میں ہونے والے حادثات کے فگر شیئر کئے ہیں۔ صرف جنوبی پنجاب میں ایک ماہ میں مختلف حادثوں میں 109 لوگ جاں بحق ہوئے جبکہ پورے پنجاب میں یہ فگر چار سو سے زائد ہیں۔ یہ صرف پنجاب کی بات ہورہی ہے۔اگر اوسط لگائیں تو پاکستان میں ہر ماہ کم از کم ایک ہزار لوگ سڑکوں پر مررہے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ صرف جنوبی پنجاب میں اس ایک ماہ میں زخمی ہونے والوں کی تعداد سات ہزار سے زائد ہے جن میں پانچ سو کے قریب شدید زخمی ہیں۔ پنجاب کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہاں بہتر سسٹم ہے ‘اور اگر یہاں ہر ماہ اتنے لوگ حادثوں میں مررہے ہیں تو باقی صوبوں کے حال کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ دوسرے صوبوں کے ہاں کوئی ناصر شیخ نہیں ہے جو روز ایسے فگرز اکٹھے کرتا پھرے اور دہائیاں دیتا پھرے۔ناصر شیخ نے اس دفعہ ان افسوسناک فگرز کے ساتھ نوجوان لڑکوں کی تصویریں بھی شیئر کی ہیں ‘جو آپ کا دل زخمی کردیں۔ ناصر کا خیال ہے کہ والدین اپنے بچوں کی کونسلنگ کریں کہ انہوں نے گاڑی یا موٹر بائیک کیسے چلانی ہے اور ون وہیلنگ یا تیزرفتاری کا کیا انجام ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاست اور حکمران اور پولیس کیا کرتی ہے؟ کیا پولیس کا کام محض چوکوں پر کھڑے ہو کر مال بٹورنا ہے۔ کسی روڈ پر آپ کو پولیس نظر نہیں آئے گی۔ کہیں پٹرولنگ نہیں ہورہی۔ پٹرولنگ کا سب بجٹ پولیس افسران کھاجاتے ہیں۔ پنجاب میں جس طرح لائسنس فروخت کیے جاتے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ کوئی ڈرائیونگ سکولز سے ڈرائیونگ نہیں سیکھتا سب یار دوستوں یا گھر سے سیکھتے ہیں تاکہ چند ہزار روپے بچا سکیں اور یوں وہ ساری عمر غلط ڈرائیونگ‘ غلط پارکنگ ‘ غلط کراسنگ اوربدتمیزیاں کرتے ہیں۔ خود کو بھی ہرٹ کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی۔ Road Rageکا شکار رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہر ضلع میں ٹریفک پولیس کا الگ محکمہ اور ایس پی ہوتا ہے۔ وہ لائسنس ایشو کرنے سے پہلے کتنی سختی سے امتحان لیتے ہیں؟ یا چند سو روپوں میں بیچ دیتے ہیں؟ کمال کس کا ہے؟ جو لائسنس بیچ رہا ہے یا جو لائسنس نہیں بلکہ موت خرید رہا ہے؟ ایک سپاہی کو پانچ سو روپے لے کر کیا فرق پڑتا ہے اگر بندہ خود مرنا چاہتا ہے۔ میں خود دیہاتی ہوں وہاں نہ لائسنس کا تصور ہے نہ ڈرائیونگ سیکھنے کا تکلف ہے۔ موٹر سائیکل کو سائیکل کی طرح چلاتے چلاتے وہ ٹریکٹر پر بیٹھ جائیں گے اور پھر ڈالا اور ویگن اور پھر بس اور پھر ٹرک۔ یوں بچپن سے غلط سیکھی ڈرائیونگ عمر بھر ساتھ رہتی ہے۔ عمر بھر حادثے کرتے رہتے ہیں اور اپنی ضد پر قائم رہتے ہیں۔ ویگنوں بسوں کے مقابلے اور ریس ہوتی رہتی ہے اور بے قصور مسافر ان کی اَنا کی بھینٹ چڑھتے رہتے ہیں۔ ضلعی پولیس نے نہ کبھی ٹریفک ٹھیک کرنے کی کوشش کی نہ دلچسپی لی۔ اس طرح سڑکوں کا برا حال ہے۔ ایم ایم روڈ برسوں سے موت کا پھندہ بن چکی ہے لیکن مجال ہے کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ لوگ سڑکوں پر مر رہے ہیں۔ کیاسڑکوں کو ون وے کرنے یا ان پر ٹراما سینٹرز بنانے کا کوئی منصوبہ ہے؟ ایمرجنسی میں ایک ہیلی کاپٹر بھی نہیں ہے جو شدید زخمیوں کو بڑے ہسپتال ٹرانسپورٹ کرسکے۔ لوگ ہنسیں گے کہ ہیلی کاپٹر کیوں؟ لوگ خود مرنے کو تیار ہیں لیکن اپنے لیے حکمرانوں سے سہولتیں نہیں مانگیں گے کہ پولیس کو جدید لائن پر تیار کریں‘ ون وے سڑکیں بنائیں‘ پٹرولنگ سخت کریں‘ جرمانے زیادہ کریں‘ سڑکیں بہتر کریں‘ لوگوں میں شعور پیدا کریں‘ اور لائسنس کا سسٹم سخت ترین کریں تاکہ جانیں بچ سکیں۔ پھر کہتے ہیں کہ فنڈز نہیں۔ باقی سب عیاشیوں کیلئے فنڈز ہیں‘ اپنے لیے پچاس پچاس کروڑ ایک ایک ایم این اے کو دینے کیلئے تیار ہیں جس کیلئے اربوں کا بجٹ اب تیل‘ گیس اور بجلی کی قیمتوں سے پورا کیا جائے گا لیکن جہاں عوام روز مررہے ہیں اس کیلئے پیسے نہیں ۔ عوام بھی مرنے کو تیار ہیں‘ بدلیں گے وہ بھی نہیں۔ سڑکوں پر مرتے رہیں گے لیکن سدھریں گے نہیں نہ ان کے پسندیدہ حکمران۔