وزیراعظم عمران خان نے لائیو کالز کے دوران ایک کال لی جس میں کالر نے میانوالی مظفرگڑھ‘ چار پانچ سو کلو میٹر طویل روڈ کی حالتِ زار کا رونا رویا۔
کسی کو اندازہ نہ تھا کہ وزیر اعظم اس روڈ کی حالتِ زار کو ہم سے زیادہ سمجھتے تھے‘ بلکہ بھگت چکے تھے۔ کہنے لگے: وہ اس روڈ پر کافی سفر کرچکے ہیں بلکہ ایک دفعہ تو اتنا شدید حادثہ ان کے ساتھ پیش آیا کہ ان کی جان مشکل سے بچی تھی۔خان صاحب اس سڑک کو اسلام آباد سے میانوالی جانے کیلئے براستہ تلہ گنگ استعمال کرتے رہے ہیں ۔اچھی بات ہے کہ عمران خان صاحب نے یہ ٹوٹی پھوٹی سڑک صرف تلہ گنگ سے میانوالی تک ‘ایک سو کلو میٹر استعمال کی ہے ‘ انہوں نے میانوالی سے مظفرگڑھ تک اس تین چار سو کلومیٹر سڑک کو استعمال نہیں کیا۔ کاش وہ میانوالی سے آگے اس روڈ پر بھکر‘ چوک اعظم‘ لیہ‘ چوک منڈا‘ کوٹ ادو‘ مظفر گڑھ اور وہاں سے ملتان‘ ڈیرہ غازی خان روڈ پر بھی سفر کرتے تو شاید ان کا ردعمل کچھ اور ہوتا۔
مجھے اندازہ تھا کہ خان صاحب ایم ایم روڈ کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اس روڈ سے جڑے حادثات سے بھی آگاہ ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد جب عمران خان کی صحافیوں سے پہلی ملاقات ہوئی تو یہ سوال میرے ذہن میں تھا کہ وہ اب وزیراعظم بن چکے ہیں تو کیا اس سڑک پر نظر ِکرم کریں گے جو برسوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے؟ میں نے یہ سوال پریس کانفرنس کے آخر میں کرنے کیلئے رکھا ہوا تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس سوال پر وہ یقینا اچھا ردعمل دیں گے ۔ عمران خان جب میڈیا سے ٹاک ختم کر کے اُٹھنے لگے تو میں نے عرض کی کہ لیہ‘ بھکر‘ میانوالی اور مظفرگڑھ کے لوگوں کی طرف سے ایک پیغام ہے۔ وہ رُکے بلکہ سب صحافیوں نے میری طرف دیکھنا شروع کر دیاکہ کون سا اہم پیغام ہے۔ میں نے کہا: خان صاحب اس ایم ایم روڈ کی حالت بہت خراب ہے‘ لوگ روز وہاں حادثوں میں مر رہے ہیں۔ کنٹینرز‘ آئل ٹینکرز اور بڑے ٹرکوں نے پورا روڈ تباہ کر دیا ہے۔ اب تو سڑک پر گاڑی چھوڑیں بندہ پیدل نہیں چل سکتا۔میں نے وزیراعظم اور صحافیوں کے چہروں پر بیزاری اور ناگواری پھیلتے دیکھی تو بات جلدی ختم کرنے کی کوشش کی اور کہا: جناب لیہ‘ میانوالی‘ بھکر‘ مظفرگڑھ ان علاقوں سے آپ الیکشن جیتے ہیں۔ یہ سرائیکی علاقے بہت غریب ہیں۔ سی پیک میں بھی ان علاقوں کے ساتھ زیادتی کی گئی‘ جو اچھا رُوٹ تھا وہ ڈیرہ اسماعیل خان‘ میانوالی‘ بھکر‘ لیہ‘ مظفرگڑھ ‘ بنتا تھا لیکن رُوٹ بدل دیا گیا جس سے یہ علاقے ترقی سے محروم رہیں گے۔ اب ان علاقوں میں سے ایک سڑک گزرتی ہے وہ بھی برسوں سے ٹوٹی ہوئی ہے اور اس پر روز لوگ مر رہے ہیں‘ آپ مہربانی کریں اور اس سڑک کا کچھ کریں۔ آپ کا تو اپنا حلقہ ہے۔ خان صاحب نے مشکل سے میری بات مکمل ہونے دی اور درمیان میں یہ کہہ کر چل دیے کہ ان کے پاس کوئی فنڈز نہیں‘ نہ ان کا کام ہے وہ سڑک بنائیں۔ اس پر میرے صحافی دوستوں نے قہقہے لگائے اور میرا مذاق اڑایا کہ دیکھو وزیراعظم سے سڑک مانگ رہا ہے۔بات یہاں تک نہیں رکی بلکہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ اس گستاخ کو سبق سکھایا جائے ‘یوںگالی گلوچ کا ایک سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ان شہری بابوز کے نزدیک قوم سڑک بنانے سے نہیں بنتی۔ سوال یہ ہے کہ اگر تعلیم سے بنتی ہے تو سڑک کے بغیر طالب علم سکول‘ کالج ‘ یونیورسٹی تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اگر ہسپتال ضروری ہیں تو مریض کو وہاں پہنچنے کیلئے کوئی راستہ تو چاہئے۔ خان صاحب نے اپنے حامیوں کو قدیم ہندوستان لے جانے کی پوری کوشش کی جب پکی سڑکوںکا کوئی تصور نہ تھا اور آج کے گھنٹوں کا سفر مہینوں میں گھوڑوں گدھوں پر یا پیدل طے کیا جاتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ نعرہ کیسے مقبول ہوگیا کہ قومیں سڑکوں سے عظیم نہیں بنتیں؟ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر لوگ مررہے ہیں لیکن نعرہ یہ لگا رہے ہیں کہ قومیں سڑکوں سے عظیم نہیں بنتیں۔ مجھے ہنسی آتی ہے کہ لیہ کے بندے کو کہا جائے کہ وہ گدھا گاڑی پر لاہور یا اسلام آباد پڑھنے جائے ‘ سڑک ہم نے نہیں بنانی کیونکہ قوم تعلیم سے بڑی بنتی ہے سڑک سے نہیں۔ اب تعلیم کیلئے وہ لاہور کیسے پہنچے؟ یہ وہ دانش ہے جو تحریک انصاف نے روشناس کرائی۔
دوسری طرف شریفوں نے سڑکیں تو بنائیں لیکن وہ سب لاہور کے اردگرد ہی چکر کاٹتی رہیں۔ جس سڑک پر دس ارب روپے لگنے تھے اس پر بیس ارب لگائے۔ اور تو اور ملتان میں میٹرو بنائی تو ایک چینی کنٹریکٹر نے چین جا کر حیران کن انکشاف کیا کہ اسے ملتان میٹرو میں ایک چار ارب روپے کا کنٹریکٹ ملا جس کے تحت اس نے75 کروڑ خرچ کئے اور سوا تین ارب اس کا پرافٹ تھا۔ چینی بھی حیران کہ دنیا کا کون سا کنٹریکٹ ہے کہ چار ارب میں سے سوا تین ارب پرافٹ ہے۔ چینی کہتے رہے پاکستانیو! تمہیں ہمارا کنٹریکٹر لوٹ گیاہے۔ ہم انکاری ہوگئے اور کہا: نہیں تم چار ارب خود رکھ لو بس منہ بند رکھو۔شہباز شریف نے ان سرائیکی علاقوں کو سوتیلا نہیں بلکہ انہیں کسی اور ملک کا حصہ سمجھا۔ سوتیلی ماں جیسی بھی بری کیوں نہ ہو وہ بچے کو شام کو روٹی دے دیتی ہے۔ شہباز شریف دس سال تک وزیراعلیٰ رہے لیکن مجال ہے پنجاب کی دو اہم شاہراہوں کو اس قابل سمجھا ہو کہ ان پر ایک روپیہ بھی لگایا جائے۔ ایک تلہ گنگ سے میانوالی اور مظفرگڑھ تک روڈ اور دوسری لاہور‘ گوجرانوالہ ‘ جہلم اور پنڈی تک طویل جی ٹی روڈ۔ ان دونوں سڑکوں کو بھول کر شریفوں نے ہاتھ نہیں لگایا جہاں لاکھوں روز سفر کرتے ہیں اور ٹول پلازوں پر کروڑوں روپے اکٹھے ہوتے ہیں۔ سارا پیسہ لاہور پر لگایا اور وہیں سے اپنا کمیشن بھی کمایا۔ ملتان میں تیس ارب روپے کی میٹرو بنا دی جس کی ہرگز ضرورت نہ تھی۔ اس تیس ارب سے ایم ایم روڈ بنتی تو سینکڑوں جانیں بچ جاتیں جو وہاں حادثات کی وجہ سے ضائع ہوئیں اور کئی خاندان اجڑے اور ابھی اجڑ رہے ہیں۔ اس طرح پچاس ارب روپے سے اسلام آباد میٹرو بنا دی جس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس پچاس ارب روپے سے جی ٹی روڈ کی اچھی مرمت ہوسکتی تھی۔ لیکن عوام کا بھلا کبھی ان لوگوں کی ترجیح نہیں رہی۔ میٹرو سے مختصر مدت میں تگڑا مال کما لیا اور سڑکوں پر لوگ مریں یا جئیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔
اور سن لیں دو سال پہلے وزیراعظم عمران خان کی پریس بریفنگ سے فارغ ہوئے‘ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارنے مجھے دیکھا تو میری طرف آئے اورکہا: رؤف صاحب مبارک ہو آپ کی ایم ایم روڈ کی منظوری دے دی ہے‘ جلد کام شروع ہوگا۔ میرا مٹھائی کا ڈبہ تیار رکھیں۔ کاشف عباسی ساتھ کھڑے تھے قہقہہ لگا کر کہا: لیں جناب آپ کا کام تو ہوگیا۔ بعد میں پتہ چلا اس دن یکم اپریل تھااور عثمان بزدار صاحب نے میرے ساتھ ہلکا پھلکا مذاق کیا تھا۔اللہ بھلا کرے مراد سعید کا کہ انہیں مجھ پر کچھ ترس آیا اور مجھے ایک دن فون کیا کہ آپ کے رونے پیٹنے کا خیال کرتے ہوئے ایم ایم روڈ کو ہم نے پنجاب سے لے کر فیڈرل کا حصہ بنا دیا ہے۔ اب اس کی فزیبلٹی تیار ہورہی ہے۔ اگست تک گراؤنڈ بریکنگ ہوگی۔ میں نے کہا : ایک احسان کر دیں ‘اس روڈ کو موٹر وے بنوا دیں۔ مراد سعید نے کہا: وہ پوری کوشش کریں گے۔اب وزیراعظم عمران خان فرما رہے ہیں کہ گراؤنڈ بریکنگ جلد ہوگی۔
سوچ رہا ہوں مٹھائی کے ڈبے کا کون مستحق ہے؟ عمران خان‘ جنہوں نے ڈھائی سال پہلے میرا مذاق اڑایا تھا کہ سڑک بنانا ان کا کام نہیں یا عثمان بزدار جنہوں نے مجھے مبارکباد دے کر مٹھائی مانگی تھی اور پھر پتہ چلا کہ وہ تو مذاق کررہے تھے یا وہ سینکڑوں خاندان جو اِن ڈھائی برسوں میں ایم ایم روڈ کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے حادثات میں اُجڑ گئے ؟
ان ڈھائی برسوں میں اس روڈ پر مرنے والے غریب خاندان اپنا لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کریں اور اس مٹھائی کے ڈبے کا اصلی حقدار کون ہے؟