لوگ کہتے ہیں دنیا میں ہر اچھا یا برا کام اوپر سے شروع ہوتا ہے اور پھر اس کے اثرات نیچے تک آتے ہیں۔ چینی محاورہ ہے مچھلی سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے۔ قانون کا نفاذ ہو یا ریاست کی رِٹ‘ کہا جاتا ہے اوپر سے لاگو کریں'مطلب بڑے لوگوں سے شروع ہو تو نیچے تک سب ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ اگر اوپر کے لیول پر دس بیس بڑے لوگوں کو سزا مل جائے تو بیس کروڑ عوام کو سزا دے کر ٹھیک کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی وہ لوگ اپنے اوپر والوں کو سزا ملتے دیکھ کر خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے کہ اگر ان بڑے بڑے لوگوں کو قانون یا ریاست نے نہیں چھوڑا جن کے پاس اتنے وسائل یا اختیارات تھے تو پھر ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ معاشرہ اس میسج کو سمجھ لیتا ہے اور یوں ریاست جہاں مضبوط ہوتی ہے وہیں قانون کا خوف سب کے دلوں میں بیٹھ جاتا ہے اور ریاست پھلنے پھولنے لگتی ہے۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں انہی ریاستوں نے ترقی کی جہاں قانون سب پر لاگو کیا گیا۔ بل کلنٹن کا سکینڈل سامنے آیا تو چھپانے کی کوشش نہ کی گئی ۔ امریکی قانون میں جھوٹ بولنا جرم ہے تو صدر پر بھی وہی قانون لاگو کیا گیا۔ فیصلہ ہوا کہ صدر نے قانون توڑا ہے لہٰذا صدر رہنے کا حقدار نہیں یوں کلنٹن کو صدارت سے ہٹانے کیلئے کانگریس نے کارروائی شروع کی ۔ امریکہ نے ایک اور ٹرینڈ سیٹ کیا کہ صدر کے اس ٹرائل کو دنیا بھر میں سی این این کے ذریعے لائیو دکھایا گیا ‘مطلب عام امریکی کو یہ پیغام بھیجنا تھا کہ اگر ہم صدر کا ٹرائل کر کے سزا دے سکتے ہیں تو پھر معافی کسی کو نہیں۔اسی طرح جب آئی ایم ایف کے صدر پر امریکی ہوٹل میں جنسی ہراسگی کا الزام لگا تو اسے بھی گرفتار کر لیا گیا۔ وہ فرانس کا اگلا صدر بننے والا تھا لیکن اسے بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔ مطلب وہی تھا‘ عوام کو بتایا جائے کہ امریکہ کا صدر ہو یا فرانس کا اگلا صدر‘ کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔
بھارت میں سلمان خان پر نایاب نسل کے کالے ہرن کا شکار کرنے پر مقدمہ قائم ہوا اور اس مقدمے کی وجہ سے بالی ووڈ کے بڑے سٹار‘ جس کی فلمیں پانچ پانچ ارب کا بزنس کرتی تھیں‘ کو بھی راجستھان کے ایک تھانے میں بند کر دیا گیا تھا۔ سنجے دت پر ناجائز اسلحے کا الزام لگا تو اسے بھی قید کی سزا سنائی گئی۔دنیا بھر میں آج بھی کوئی مشہور بندہ کسی معمولی جرم میں پھنس جائے تو اس پر زیرو ٹالر نس فارمولہ اپلائی کیا جاتا ہے۔ شراب پی کر ڈرائیونگ کرتے ہالی ووڈ کے کئی بڑے اداکار اور اداکارائیں پکڑی گئیں تو انہیں ضمانت پر فوراً رہا کرنے کے بجائے جیل میں ڈالا گیا اور ڈرائیونگ لائسنس منسوخ ہوئے تاکہ عوام ان کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے قانون کے مطابق چلیں۔لیکن وطن ِعزیز میں اس کے برعکس ہورہا ہے اور لگتا ہے کہ عوام میں جو خامیاں تھیں وہ دھیرے دھیرے پاکستان کے اوپروالے طبقے میں شفٹ ہورہی ہیں۔ پاکستان میں سب مانتے ہیں کہ بڑے لوگوں کا احتساب نہیں ہوسکتا‘ قانون ان کے گھر کی باندی ہے اور پیسے والا جو چاہے کرسکتا ہے۔ عام بندہ اگر پتنگ اڑائے‘ ہوائی فائرنگ کرے یا اسلحے کی سرعام نمائش کرے تو پولیس فوراً اسے ٹریس کر کے گرفتار کرلیتی ہے اور پرچہ دے کر تھانے میں بند کرنے کے بعد اس کی موبائل فون سے تصویریں لے کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتی ہے کہ یہ ہے قانون کی طاقت‘ لیکن اگر پاک پتن کا خاور مانیکا سرعام فائرنگ کرے اور اس کی ویڈیو بھی اس کے دوستوں نے خود ہر جگہ پھیلا دی ہو ‘ کئی روز تک وہ ویڈیو چلتی بھی رہی‘ لاکھوں ویورز لے گئی ہو‘ لیکن مجال ہے پولیس یا قانون کو جرأت ہو کہ وہی سلوک خاور مانیکا کے ساتھ کرے جو عام شہری کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
ایسی چیزیں عوام کو حوصلہ دیتی ہیں کہ اگر خاور مانیکا کا کچھ نہیں بگڑا تو بگڑے گا ہمارا بھی کچھ نہیں۔ اس کا نتیجہ ہم نے حالیہ توڑ پھوڑ میں دیکھا جب عام عوام نے گاڑیاں جلا دیں‘ کھل کر پولیس کو مارا اور املاک کو جلایا کیونکہ انہیں علم تھا کہ قانون اس کے ساتھ ہے جو اس قانون کو مروڑ سکتا ہے‘ جو قانون کو ڈرا سکتا ہے وہی سکندر۔ وہی ہوا‘ قانون کے رکھوالوں کو جن شدت پسندوں نے مارا اور بری طرح مارا وہ گرفتار تھے لیکن اب وہ سب رہا کئے جارہے ہیں کیونکہ قانون اور ریاست ان سے ڈرتے ہیں۔ لوگوں کو معمولی خلاف ورزیاں حوصلہ دیتی ہیں کہ کچھ نہیں بگڑے گا اور وہ ریاست کو آگے لگا لیں گے۔ ریاست اور اس کے قانون سے لوگوں کو ڈرنا چاہئے ‘ لیکن یہاں الٹا ریاست اور قانون عوام سے ڈر گئے کیونکہ قانون بڑے لوگوں کے ہاتھوں کانا ہوچکا ہے اور کانا کبھی کسی کی آنکھ میں آنکھ نہیں ڈال سکتا اور اس کا فائدہ ایک ہجوم نے اٹھایا اور پولیس کو دوڑنے پر مجبور کر دیا۔بڑے لوگوں کا قانون کو گھر کی لونڈی بنانے کا اثر یہ ہوا کہ عوام اب کسی قانون سے نہیں ڈرتے۔ قانون توڑنا اب ایک مجبوری سے زیادہ fun بن چکا ہے۔ باقی چھوڑیں سرخ اشارے پر سگنل توڑنا ایک شغل ہے نہ کہ کوئی بہت اہم مجبوری۔ ان سب موٹر سائیکل یا گاڑی والوں کو علم ہے کہ قانون نہ ان کا پیچھا کرسکتا ہے نہ انہیں کچھ کہہ سکتا ہے‘ لیکن یہی پاکستانی دبئی یا لندن وغیرہ میں اترتے ہی بندے کے پتر بن جاتے ہیں اور اچھی ڈرائیور نگ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
لیکن اب ایک نیا خطرناک ٹرینڈ پاکستان میں نظر آرہا ہے کہ جن بڑے لوگوں سے عوام نے تربیت لینا تھی اور جو عوام کیلئے رول ماڈلز تھے اُلٹا وہ عوام کی زبان اور گالی گلوچ سے متاثر ہورہے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے لیڈرز یا حاکم اپنے عوام کے رول ماڈلز ہوتے ہیں وہ عوامی زبان ‘ عوامی ری ایکشن یا عوامی انداز میں گفتگو نہیں کرتے ‘ وہ بدترین حالات میں بھی اپنی شخصیت کو گرنے نہیں دیتے۔ یہ عام رویہ ہے کہ آپ کو کسی نے گالی دی تو آپ نے جواباً گالی دے دی‘ لیکن جب ملک کا سابق وزیراعظم قومی اسمبلی کے سپیکر کو کہہ دے کہ میں آپ کو جوتا ماروں گا تو سمجھ لیں وہ بندہ عام انسان تھا‘ اس قابل نہ تھا کہ بائیس کروڑ عوام میں سے چن کر سربراہ بنایا جاتا۔ وزارت عظمیٰ کے عہدے کا تقاضا کچھ اور تھا ۔بڑے لوگ بڑے مقام پر مشکل سے پہنچے ہوتے ہیں؛ چنانچہ نہ عام بندے کے لیول پر آتے ہیں اور نہ خود کو گراتے ہیں۔ کتنی دیر لگتی ہے گالی کا جواب گالی سے دینے میں؟ ہاں جواباً گالی نہ دی جائے‘ اس کیلئے بڑے ظرف اور صبر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ عباسی صاحب برسوں پاور میں رہنے کے باوجود عام عوام کیلئے ایک رول ماڈل نہ بن سکے۔ وہ ان عام لوگوں کے ماڈل نہ بن پائے کہ عوام کو یہ لگتا کہ بندہ ظرف والا ہو تو شاہد خاقان عباسی جیسا ہو۔
یاد آیا ایک دفعہ بھارتی شاعر راحت اندوری پر کسی مشاعرے میں کچھ لوگوں نے ہوٹنگ کی‘گالیاں وغیرہ بکیں۔ وہ چند لمحے سنتے رہے پھر مائیک پر ان سے کہا: جہاں میں کھڑا ہوں یہاں پہنچنے میں مجھے چالیس برس لگے ہیں اور جہاں آپ کھڑے ہیں وہاں پہنچنے میں چالیس سکینڈز لگتے ہیں۔ تو کیا مجھے اپنی چالیس برس کی محنت ضائع کر کے آپ کے لیول تک گر جانا چاہئے؟ اب یہ بات کسی کو کون سمجھا سکتا ہے کہ گرنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ مزہ تو تب ہے آپ اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑے رہیں۔شاہد خاقان عباسی کھڑے کیا رہتے الٹا گرے اور گرتے گرتے اپنے ساتھ ملک کے وزیراعظم کے عہدے کا وقار بھی لے بیٹھے ہیں۔