آج پھر لاہور میں ہوں اور لاہور کو دیکھ کر عجیب اداسی ہوتی ہے۔ یہ شہرِ دلنواز ان گزرے برسوں میں کتنا بدل گیا تھا۔
لاہور سے ایک عجیب سی محبت رہی ہے۔ پہلی دفعہ شاید لاہور 1985 میں آیا تھا۔ خالہ سارہ کا کینال روڈ لاہور پر گھر تھا۔ میں بھی اپنے کزنز کے ساتھ فیروز سنز جاتا۔ خالہ اپنے بچوں کو کہانیوں کی کتابیں خرید کر دیتیں تو مجھے بھی لے دیتیں۔ مجھے یاد ہے میرا اس وقت بھی دل چاہتا تھا کہ وہ مجھے زیادہ کتابیں خرید کر دیں کیونکہ مجھے علم ہوتا‘ یہ کہانی تو رات کو ختم کر لوں گا‘ پھر کل کیا پڑھوں گا۔ اس کا حل نکالا کہ خالو میجر نواز ملک کے کمرے میں جدید انگریزی تھرلرز کا ڈھیر پڑا رہتا تھا‘ جو وہ پڑھتے تھے۔ انگریزی سے تھوڑی تھوڑی سوجھ بوجھ تھی تو تکے لگا کر پڑھنے کی کوشش جاری رکھتا۔ لیہ واپس جاتے وقت دو تین انگریزی ناول چرا کر بیگ میں رکھ دیتا اور لیہ کالج کے ہوسٹل میں ڈکشنری کی مدد سے پڑھتا رہتا۔ خالہ کہتیں: بس وہ ناول نہ لیا کرو جو نواز پڑھ رہے ہوں ورنہ انکوائری شروع ہو جائے گی لہٰذا وہ ناول نہ چراتا جو ان کی سائیڈ ٹیبل پر الٹا رکھا ہوتا تھا۔
اور پھر لاہور سے ایسا رومانس ہوا کہ لگتا تھا دنیا میں رہنے کی کوئی جگہ ہے تو وہ لاہور ہے۔ گرمیوں میں ہر سال خالہ کے گھر آنا اور ایک ایک ماہ رہنا میری زندگی کے سنہری دنوں میں سے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ گلبرگ شفٹ ہو گئی تھیں۔ گلبرگ کی منی مارکیٹ میں پرانی کتابوں کی دکان میرا مسکن ہوتی۔ سارا دن پرانے ناولوں میں سے ناول چننا ایک شغل تھا۔ میں یونائیڈ کرسچین ہسپتال کی اگلی گلی میں واقع گلبرگ تھری کے گھر سے پیدل نکلتا‘ منی مارکیٹ تک پیدل جاتا اور پیدل ہی واپس گھر لوٹ جاتا۔ سڑکیں خالی ہوتیں اور کبھی کبھار ہی کوئی گاڑی قریب سے گزرتی۔ یاد نہیں پڑتا کہ کبھی مجھے سڑک کے کنارے چلتے کوئی مسئلہ ہوا ہو یا کسی گاڑی نے ہارن دیا ہو۔ منی مارکیٹ میں ہی نیوز ایجنسی پر اخبارات لٹکے ہوئے ہوتے جو میں نے نیوز ایجنٹ کی سخت گھورتی نظروں کے باوجود وہیں کھڑے کھڑے پڑھنے ہوتے تھے۔ ساتھ ہی غلام احمد پرویز کی بُکس کا دفتر تھا جس کا کنٹرول ہمارے علاقے کے خوبصورت حسین قیصرانی کے پاس تھا۔ دوپہر وہاں گزرتی۔ بھلا مانس خوبصورت سرائیکی میں گفتگو کے ساتھ ساتھ لنچ کراتا اور چلتے وقت ایک آدھ کتاب بھی تھما دیتا۔
لاہور کی ان دنوں اپنی الگ ہی ایک خوشبو تھی۔ اپنا ایک لہجہ تھا۔ ہر دوسرے روز بارش کے قطرے آسمان سے مسلسل ٹپکتے رہتے اور موسم کو گلزار کر جاتے۔ ہر طرف درخت اور پھول نظر آتے یا پھر پارکس۔ لاہور رنگوں میں ڈوبا ہوا شہر تھا جیسے انسانوں کی طرح شہر بھی دیوالی مناتے ہوں۔
یہ میرا طالبعلمی کا دور تھا۔ پھر ایک اور دور شروع ہوا جب ملتان یونیورسٹی کے بعد نوکری کی تلاش میں لاہور آیا اور مختلف اخبارات میں کوشش شروع کیں۔ ہمارے لیہ کے رفیق اختر‘ جو محکمہ زراعت میں اس وقت اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے (آج کل تو بڑے افسر ہیں) مجھے اکثر شام کو اپنی موٹرسائیکل پر بٹھا کر اخبارات کے دفاتر پھراتے۔ کسی سے ایڈیٹر کو فون کراتے تو کسی کی پرچی جیب میں لیے میرے لیے پھرتے۔ رات کو تھکے ہارے مجھے گھر لے جاتے۔ گھر کا پکا کھانا کھلاتے‘ ہمت و حوصلہ دے کر روانہ کرتے اور اگلے روز کا پلان بتاتے کہ اب کس کی سفارش تلاش کرانی ہے تاکہ کسی اخبار میں نوکری ملے۔ اگر لاہور میں کسی نے بغیر کسی لالچ کے بے لوث خیال رکھا تو وہ رفیق اختر تھے۔ حوالہ ہمارے مرحوم ملتانی یار ذوالکفل بخاری کا تھا جو رفیق اختر نے خوب نبھایا۔ اوپر سے ہم دونوں لیہ کے نکلے۔ رہنے کو جگہ نہ تھی تو ایک اچھی جگہ کمرہ لے دیا کہ چلو رات کو سر پہ کوئی چھت تو ہو۔
شعیب بٹھل پہلے سے لاہور میں موجود تھا۔ وہ رشید سواگ جیسے دوستوں پر یو ای ٹی ہوسٹل میں نازل ہو چکا تھا۔ کچھ دن اس کے ساتھ گزارے‘ پھر کوٹھا پنڈ جا نکلے اور وہیں مستقل ڈیرہ بنا لیا‘ جہاں شاہد مصطفیٰ کاہلوں نے شعیب اور میرا بڑے بھائیوں کی طرح خیال رکھا‘ ہمارے خرچے اُٹھائے اور ہم دونوں ایسے شاہد کاہلوں سے نخرے اٹھواتے جیسے ہمارے والدین اسی کو پارت دے گئے تھے۔
لاہور کے کئی رنگ تھے اور ان میں ایک خوبصورت رنگ ہر جمعہ کے روز فکشن ہائوس میں انتہائی اعلیٰ دماغ لکھاریوں کا اکٹھا ہوکر پہلے گفتگو کرنا اور پھر وہیں بیٹھ کر گرم گرم روٹیوں کے ساتھ جٹے کے ہوٹل کی شاندار دال کھانا تھا۔ ہم سرائیکی ساری عمر دو وقت مسلسل دال کھا سکتے ہیں اوراس کا فائدہ ہمارے میزبان ظہور احمد، محمد سرور، رانا عبدالرحمن خوب اٹھاتے تھے۔مجھے کہنے دیں‘ زندگی میں جن دو تین دانشوروں کی دل سے عزت کی‘ ان میں ڈاکٹر مبارک علی اور قاضی جاوید شامل ہیں۔ انتہائی سلجھے ہوئے‘ پڑھے لکھے لوگ۔ میرے جیسے کم عقل کی بات کو بھی ایسی توجہ سے سنتے کہ لگتا شاید ہم سے بڑا دانشور پیدا نہیں ہوا۔ ڈاکٹر مبارک علی کی گفتگو کا انداز ہی ایسا تھا کہ وہ بولتے رہیں اور آپ سنتے رہیں۔ تاریخ پر انہوں نے جو درجنوں کتابیں لکھیں اور ابھی حالیہ دنوں میں ان کی آپ بیتی پڑھی تو اندازہ ہوا کیسا بڑا آدمی اور دانشور ہمارے درمیان موجود ہے۔ ایک سادہ‘ خوبصورت انسان‘ جس میں آپ کو وہ رعونت یا تکبر دور دور تک نہیں ملتا جو ہماری کلاس کے دانشوروں میں دو تین کتابیں چھپوا کر پیدا ہوجاتا ہے۔ اس ہفتہ وار بحث مباحثہ کے انتظار کی دو وجوہات تھیں۔ ایک ڈاکٹر مبارک علی، قاضی جاوید اور ڈاکٹر کامران جیسے دانشوروں کی گفتگو اور پھر اس کے بعد گرم گرم روٹیاں اور جٹے ہوٹل والے کی بہت ساری دال جو محمد سرور بھاگ بھاگ کر ہم سب کو سرو کر رہا ہوتا تھا۔
اب لاہور آتا ہوں تو عجیب سی گھٹن اور بے بسی محسوس ہوتی ہے۔ لگتا ہے پورے لاہور پر ایک بڑی لوہے، سٹیل اور سیمنٹ کی چھت ڈال دی گئی ہے جیسے انگریزی فلموں میں دیکھتے تھے کہ آسمانی بلائوں نے دنیا پر قبضہ کر لیا ہے اور اب آسمان پر نہ چاند رہا ہے نہ سورج۔ لاہور کی آبادی اچانک بڑھنا شروع ہوئی۔ ہر طرف بے ہنگم ٹریفک اور گاڑیاں۔ پورے پنجاب سے لوگ مزدوری کرنے لاہور پہنچ گئے کیونکہ کام صرف لاہور میں ہورہے تھے۔ میٹرو بس سے لے کر میٹرو ٹرین تک سب کچھ یہیں ہورہا تھا۔ لاہوریوں کو بھی اندازہ نہ ہوا کہ ترقی کے نام پر وہ ایک بڑے لوہے کے پنجرے میں خود کو بخوشی قید کرارہے تھے۔ یوں پورے شہر پر ایک ایسا سیمنٹ، لوہے اور سریے کا جال بچھا دیا گیا ۔اب میں لاہور آئوں تو باہر نکلنے سے ڈرتا ہوں۔ اب میں لاہور میں پیدل چلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اب گاڑی بھی ڈر کر چلاتا ہوں۔ کبھی اسی موسم میں ہر طرف پھولوں کی خوشبوئیں محسوس ہوتی تھیں، آسمان مہربان لگتے تھے، انسان مہمان نواز اور کھلے ڈلے تھے۔ موٹر بائیک کی سواری بھی کسی شاہی سواری سے کم نہ لگتی تھی۔ وہ ایسا لاہور تھا جہاں کسی نے سموگ کا نام تک نہ سنا تھا۔ ایسا لاہور جو صاف ستھرا تھا۔ جہاں صبح صبح صفائی کے ساتھ ساتھ آپ کو پانی کا چھڑکائو ملتا تھا۔ اس شہر میں مال روڈ کی اپنی شان تھی، اپنی ٹور تھی، درخت تھے، سبزہ تھا۔ سب سے بڑھ کر فیروز سنز کی کتابوں کی بڑی دکان تھی۔ دو دن لاہور گزار کر واپس جارہا ہوں اور فخر عباس کا شعر یاد آتا ہے:
یہ جو لاہور سے محبت ہے/یہ کسی اور سے محبت ہے
سوچتا ہوں شاید ہر پرانی نسل کو اپنا زمانہ اچھا لگتا ہے۔ ہوسکتا ہے آج کی نسل کچھ برسوں بعد آج کے لاہور کو اس طرح مس کرے گی جیسے 80 کی دہائی کے میرے جیسے اداس لوگ ان دنوں کو یاد کرتے ہیں۔ شاید یہ انسانی المیہ ہے کہ ہمیں ماضی میں رہنا اچھا لگتا ہے کیونکہ ماضی لوٹ نہیں سکتا، مستقبل پر ہمارا بس نہیں چلتا اور حال ہمیں جینے نہیں دیتا۔