یہ طے ہے کہ انسانی خواہشات کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ انسانی ذہن ایسی چیز ہے جو مرتے دم تک اسے نئے نئے خیالات سے روشناس کراتا رہتا ہے‘ نئی خواہشات جنم لیتی رہتی ہیں اور انہیں حاصل کرنے کیلئے وہ طریقے سوچتا رہتا ہے۔ بعض لوگ خود کو سمجھا لیتے ہیں کہ جتنا پالیا کافی ہے‘ مزید کی خواہش نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔ انسانی ذہن جو لذتیں پالتا ہے اور جن کیلئے انسان جنونی ہوجاتے ہیں اور ہر قیمت پر وہ خواہشات پانے کی کوشش کرتے ہیں ان میں سب سے بڑی خواہش اپنے جیسے انسانوں پر راج کرنا ہے۔ اسی خواہش کیلئے تاریخ میں کئی جنگجو پیدا ہوئے جنہوں نے بستیاں برباد کیں‘ شہر اجاڑے‘ ملک اور تہذیبیں ختم کیں‘لاکھوں کروڑں لوگ بے گھر کیے‘ انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کیے‘ صرف ایک بات ثابت کرنے کیلئے کہ وہ دوسرے انسانوں سے مختلف ہیں۔ وہ حکمرانی کیلئے پیدا ہوئے تھے اور انہیں اپنے جیسے لوگوں پر حکمرانی کا حق حاصل ہے اور یہ حق پانے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ جن جنگجوئوں یا بادشاہوں نے انسانوں پر ظلم کیے‘ قتلِ عام کیے‘ انہیں ہی لوگوں نے سر پر بٹھایا اور انہیں عظیم فاتح کا لقب دیا۔ میں جب بھی تاریخ میں انسانوں کے قاتلوں کو بڑے بڑے القاب سے یاد کرتے پاتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے کہ ہم کیسے ان لوگوں کوعظیم فاتح کہتے ہیں جنہوں نے جنگوں میں انسانوں کو مارا‘ بستیاں اجاڑیں تاکہ ان کے نام کا سکہ چل سکے۔انسان کے اندر ایسا وحشی پن کیوں ہے کہ وہ ہر صورت اپنے جیسے انسانوں پر برتری ثابت کرنا چاہتا ہے‘ چاہے اس کیلئے کتنا ہی لہو کیوں نہ بہانا پڑے؟
انگریزوں نے سو ڈیڑھ سو سال حکمرانی میں اس خطے پر جہاں کچھ اور احسانات کیے وہاں ایک احسان یہ بھی کیا کہ یہاں ایسا نظام متعا رف کرادیا جس کے تحت لوگ اپنا بادشاہ بغیر خون خرابے کے بدل سکتے تھے۔ اس خطے کے لوگوں کیلئے یہ نئی بات تھی کہ بادشاہ کے مرنے سے پہلے بھی اسے ہٹا کر نیا بادشاہ اور وہ بھی اپنی مرضی کا‘ لایا جاسکتا ہے‘ ورنہ ہندوستان کی تاریخ میں بھلا کب ایسا ہوا۔ بادشاہ پچاس پچاس سال حکومت کرنے کے بعد طبعی موت مرے تو ان کی جگہ لینے کیلئے ان کی اولاد میں جنگیں شروع ہوگئیں۔ پہلے بادشاہ کے تمام قریبی وزیر اور درباری‘ ملک‘ خان‘ نواب سب کے سر قلم ہوتے تھے۔ بادشاہ اکیلا نہیں مرتا تھا بلکہ اس کے ساتھ اس کا پورا دربار دفن ہوتا تھا۔ بعض موقعوں پر تو مرنے والے بادشاہ کے چھوٹے بچوں تک کو قتل کیا گیا تاکہ کل کلاں وہ بڑاہوکر باپ کی وراثت پر دعویٰ نہ ٹھوک دے۔ بات یہیں تک نہیں رکتی تھی‘ بعض شہزادوں کو تواقتدار کی اتنی جلدی تھی کہ وہ بادشاہ کے مرنے کا بھی انتظار نہیں کرسکتے تھے۔ باپ کی جگہ لینے کیلئے بیٹوں نے باپ تک کے خلاف جنگیں لڑیں اور سر قلم کیے۔ اکبر بادشاہ کی بیٹے سے جنگ ہوئی‘ اسی شہزادہ سلیم کی اپنے بیٹے سے جنگ ہوئی ‘ شاہ جہاں نے بھائیوں کو قتل کر کے تاج پہنا۔ اسی شاہ جہاں کے بیٹے اورنگزیب نے باپ کے نقشِ قدم پر چل کر اپنے بھائیوں کے سر قلم کیے اور باپ کو زندان میں ڈال کر پچاس سال حکومت کی۔ اندازہ کریں انسانوں پر راج کرنے کی جبلت کتنی خوفناک ہے کہ ایک بھائی اپنے بھائیوں کو قتل کرتا ہے‘باپ تک کو جیل میں ڈال دیتا ہے۔ بات یہیں تک نہیں رکتی بلکہ اپنے خوبصورت بھتیجوں کو بھی گرفتار کر کے قتل کرتا ہے۔
یہ سب قتل و غارت اور اپنوں کا لہو کس لیے بہایا گیا؟ محض اقتدارکی ہوس پوری کرنے کیلئے۔ یہ صرف ہندوستان میں نہیں ہورہا تھا۔ آپ یورپ کی تاریخ پڑھیں تو یہی کام کنگ ہنری ہشتم بھی اپنے رشتہ داروں سے کررہا تھا۔ اس نے تو اپنی بیگمات تک کے سر قلم کرادیے۔دوسروں پر راج کرنے کی جبلت سے زیادہ خونخوار جبلت اور کوئی نہیں اور اس کیلئے انسان کسی بھی سطح تک گرنے کو تیار ہوجاتاہے۔ بادشاہوں اور شہزادوں نے تو اپنے اقتدار کیلئے میکاولی جیسے ایڈوائز رکھے جو انہیں بتاتے رہتے تھے کہ رعایا پر حکمرانی کیسے کرنی ہے‘ مخالفوں سے کیسے پیش آنا ہے‘ میکاولی نے تو شہزادے کو یہاں تک مشورہ دیا تھا کہ اگر کسی علاقے کو جنگ کے بعد فتح کرو تو صرف شکست خوردہ بادشاہ کو قتل نہ کرو‘ اس کے پورے خاندان کو ختم کر دو۔ اگر ایک بچہ بھی بچ گیا تو رعایا کو پرانے بادشاہ کے خاندان سے ایک امید بندھی رہے گی کہ کبھی وہ یہ ریاست واپس لے گا اور یوں اس ریاست میں بغاوت کے امکانات ہمیشہ رہیں گے۔ اب آپ تصور کریں یہ فیصلہ کرنے کیلئے کیسا دل چاہئے کہ آپ نے شاہی محل کے بچوں کو بھی قتل کرنا ہے تاکہ آپ چند برس حکمرانی کرسکیں اور آپ کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ آپ نے اپنے اندر موجود انسانی جذبات اور احساسات کا قتل پہلے کرنا ہے اور پھر کسی دوسرے انسان کو مارنا ہے۔ اتنی بربریت اور درندگی ایک نارمل انسان میں نہیں ہوسکتی‘ لہٰذا جو بادشاہت کی خواہشات رکھتے ہیں یا انسانوں پر راج کرنا چاہتے ہیں ان کے اندر سفاکی اور بے رحمی ہونا ضروری ہے۔
انگریز نے اس بے رحمی اور سفاکی کو دبانے کیلئے جمہوری نظام اپنایا۔ یورپ نے جس طرح ڈارک ایجز میں بادشاہت کو بھگتا اس کی کہانیاں آج بھی رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔ صدیوں کے تجربات کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچے کہ بادشاہت یا بادشاہ بننے کا جنوں انسانوں اور انسانی معاشرے کیلئے تباہ کن ہے۔ ایک انسان کو یہ پاور نہیں دی جاسکتی کہ اس کے منہ سے نکلا ہر لفظ قانون ہے یا ایسا حکم ہے جسے ہر صورت بجا لانا ہے اور وہ اکیلا انسانی جانوں کے فیصلے کرے گا۔ یوں دھیرے دھیرے معاشرے کو اس طرف لایا گیا کہ اکیلا انسان اتنا سمجھدار نہیں ہوسکتا کہ وہ کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرے۔ یا اس کی موت پر اس کے خاندان میں جنگ چھڑ جائے کہ اس کی جگہ بادشاہ کون بنے گا۔ جمہوریت کی اس شکل تک پہنچنے تک انسانوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ جنونی اور لہو کے پیاسے بھیڑیوں کے روپ میں بادشاہوں کے ظلم و ستم سہے ہیں‘بادشاہوں کے حکم پر انسان آگ میں جلائے گئے‘ توپوں کے ساتھ باندھ کر اڑا ئے گئے‘ جلاد وں کے کلہاڑوں اور تلواروں سے سر کٹوائے گئے ‘ پھر کہیں جا کر انسان اس قابل ہوئے کہ وہ خود اپنے حاکم چن سکیں یا ہٹا سکیں۔ اگر آج دنیا کے ڈیرھ سو ملکوں میں جمہوریت ہے تو اس کے پیچھے انسانوں کی لازوال اور تکلیف دہ تاریخ ہے۔ انسان آج بھی اندر سے وحشی ہے لیکن بدلتے وقت نے اسے باندھ دیا ہے۔ اب رعایا پر اس طرح ظلم و ستم نہیں کیے جاسکتے جیسے پہلے معاشروں میں ہوتے تھے۔ اب بھی جب کوئی حکمران یہ نعرہ مارتا ہے کہ اسے معاشرہ ٹھیک کرنے کیلئے مزید اختیارات اور پاورز چاہئیں تو یقین کریں اس کے اندر کی جبلت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اکیلا بغیر کسی روک ٹوک کے اپنے جیسے انسانوں کی زندگیوں اور موت کے فیصلے اس طرح کرے جیسے وہ سمجھتا ہے کہ ہونے چاہئیں۔ وہ خود کسی نظام یا قاعدے کا پابند نہیں رہنا چاہتا۔ وہ خود کسی کے آگے جواب دہ نہیں ہونا چاہتا‘ وہ خود جج‘ جیوری اور جلاد کا روپ دھار کر بادشاہت کرنا چاہتا ہے۔ خود پر اٹھتی انگلیوں اور سوالات کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔ وہ خود کو عام انسانوں سے بہت اوپر ‘ اعلیٰ درجے کی مخلوق سمجھتا ہے جسے اس دنیا میں صرف راج کرنے کیلئے پیدا کیا گیا ہے۔
لہٰذا جب نواز شریف '' امیرالمومنین‘‘ بننے کا جنون خود پر طاری کر لیتے ہیں یا عمران خان کو پاکستانی جمہوریت کے بجائے چینی نظام سے اچانک محبت ہونا شروع ہوجاتی ہے جہاں ون پارٹی سسٹم میں عوام اور میڈیا کو حکمرانوں پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں‘ تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ انسانی تاریخ میں حاکم ہمیشہ سے خود ہی جج‘ جیوری اور جلاد بننا چاہتے ہیں۔ یہ الگ المیہ ہے ایک جمہوری وزیراعظم سے بادشاہ بننے کا جنون اور خوابوں کی تعبیر کبھی کبھار الٹی بھی پڑ جاتی ہے ‘جیسے بھٹو اور نواز شریف کو پڑ گئی تھی۔