"RKC" (space) message & send to 7575

جنوب کے بھکاری

سینکڑوں میسجز ہیں جو مجھے پچھلے ہفتے موصول ہوئے۔ یہ سب پیغامات جنوب سے ملے ہیں۔ لوگ ناراض ہیں اس بات پر کہ ٹی وی مبصر ریٹائرڈ جنرل اعجاز اعوان نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگ بھکاری ہیں‘ وہ اسلام آباد‘ پنڈی میں بیلچے اٹھا کر مزدوری کا ڈھونگ رچا کر بھیک مانگتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: دراصل یہ پروفیشنل بھکاری ہیں۔ اس معاملے میں انہوں نے لفظ جنوبی پنجاب استعمال کیا ہے‘ لیکن سرائیکیوں کا کہنا ہے‘ ان پر حملہ کیا گیا ہے اور انہیں بھکاری سے تشبیہ دی گئی ہے۔ سب ناراض ہیں کہ انہیں بھکاری کہہ کر مخاطب کیا گیا۔ ابھی تک اس کی وضاحت نہیں کی گئی‘ نہ ہی کوئی معذرت‘ لہٰذا لوگوں میں غصہ بڑھ رہا ہے۔
کیا واقعی جنوبی پنجاب کے لوگ یا سرائیکی بڑے شہروں میں مزدوری کرنے جاتے ہیں یا انہوں نے بھکاریوں کے گینگ بنائے ہوئے ہیں اور شہریوں کی زندگی تنگ کی ہوئی ہے؟ میں کئی دفعہ اپنے کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ وہ جنوب جو پورے پاکستانی کی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے‘ اب غربت کی لکیر سے بھی نیچے جا رہا ہے۔ مجھے اسلام آباد میں پچھلے دو تین سالوں سے ریڑھی یا سائیکل پر سبزیاں‘ فروٹ بیچنے والے زیادہ تر دو قسم کے لوگ ملتے ہیں‘ جو سرائیکی بولتے ہیں یا پشتو۔ میں اکثر ان سے ان کے علاقے کا پوچھتا ہوں تو سرائیکی لوگ بہاولپور، لودھراں، مظفرگڑھ، خانیوال کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھیک مانگتے نہیں دیکھا۔ وہ کوئی نہ کوئی مزدوری کررہے ہوتے ہیں۔ پشتو سپیکنگ مزدور ملتے ہیں۔ اکثر پرانے فاٹا کی ایجنسیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں آپریشن کے بعد انہوں نے شہروں کا رخ کیا‘ اور اب یہیں مستقل بس گئے ہیں۔ پشتونوں کی ایک خوبی کے سب لوگ قائل ہیں‘ انہیں آپ بھیک مانگتے نہیں دیکھیں گے۔ ان کے بچے بھی مزدوری کرتے ملیں گے۔ بوڑھا ہوگا تو وہ بھی جوتے پالش کرلے گا‘ لیکن بھیک نہیں مانگے گا۔ کچھ بچے بعض دفعہ کسی گینگ کے ہاتھ لگ کر اشاروں پر ضرور نظر آتے ہیں ورنہ پشتون اتنے محنتی اور غیرت مند ہیں کہ ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔
ایک دفعہ میں اور عامر متین لاہور گئے تو ان کا بھائی عاطف متین ہمیں کھانا کھلانے رات گئے لکشمی چوک لے گیا۔ وہاں ایک مالش کرنے والا ملا جو بہاولپور کا تھا۔ اس کا نام نواب تھا۔ اس پر میں نے دنیا اخبار میں کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ''بہاولپور کا نواب‘‘۔ میں نے لکھا تھا کہ ایک دور تھا‘ بہاولپور ریاست ہندوستان کی امیر ترین ریاستوں میں شمار ہوتی تھی، جس کے نواب نے پاکستان کے ابتدائی اخراجات برداشت کیے تھے، قائداعظم کو اپنی مہنگی گاڑی تحفے میں دی تھی‘ لیکن آج اس کا باسی لاہور کی گلیوں‘ بازاروں اور چوک پر رات گئے مالش کررہا تھا تاکہ بچوں کا پیٹ پال سکے۔
سوال یہ ہے کہ سائوتھ غریب کیسے ہوا؟ جنوب کے لوگوں کو گلہ ہے کہ چولستان اور تھل کی زمینیں لاہور‘ اسلام آباد اور پنڈی کے طاقتور لوگوں نے الاٹ کرالیں۔ ہمارے لیہ‘ تھل کی زمینیں بھی باہر کے لوگوں کو دی گئیں۔ اور تو اور خانیوال کی زرخیز زمینیں بھی لاہور کے طاقتور افسران اور بیوروکریسی نے اپنے نام مربعوں کے مربعے الاٹ کرالیے۔ ان علاقوں کے سرائیکی سپیکنگ کو نہ یہ زمینیں ملیں‘ نہ ہی مزدوری۔ الٹا ان طاقتور حلقوں نے وہ زمینیں بیچ کر لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد میں جائیدادیں بنائیں جہاں وہی سرائیکی اب غربت کے ہاتھوں تنگ آکر مزدوری تلاش کرتے پھرتے ہیں یا بقول اعجاز اعوان صاحب بھیک مانگتے پائے جاتے ہیں۔ سرائیکی علاقوں کے سب وسائل پر قبضہ لاہور‘ پنڈی‘ اسلام آباد کے لوگوں نے کیا۔ افسران کو مربعوں کے حساب سے زمینیں الاٹ ہوئیں جس پر ان علاقوں میں شدید ردعمل آیا اور وہاں جھگڑے بھی ہوئے۔ اب بتائیں بھلا لاہور کے سرکاری افسران کیسے خانیوال میں مربع الاٹ کرا سکتے تھے؟ زرعی زمینیں انہیں کیسے الاٹ ہوسکتی تھیں؟ الاٹمنٹ میں جتنے فراڈ بیوروکریسی نے کیے کسی نے شاید کیے ہوں۔ رحیم یار خان، بہاولپور، بہاول نگر، لیہ، بھکر، چوبارہ، تھل کی سب سرکاری زمینیں یہی طاقتور لوگ لے گئے۔ سائوتھ میں آمدن کے کیا ذرائع تھے؟ گندم، کاٹن، گنا، آم یا سبزیاں۔ کاٹن کو گنے نے تباہ کردیا اور اس کی پیداوار کم ہوتی گئی کہ اب ہر سال دو ارب ڈالرز کی کاٹن باہر سے منگوائی جاتی ہے۔ آم کے باغوں کا جس طرح قتل عام وہاں ہائوسنگ سوسائٹیز نے کیا‘ سب نے دیکھا۔ ان علاقوں میں کوئی انڈسٹری نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے غریبوں نے فیصل آباد، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ جیسے شہروں کا رخ کیا تاکہ مزدوری ڈھونڈ سکیں۔ مہنگائی نے زراعت کو گھاٹے کا سودا بنا دیا ہے۔ پٹرول اور کھاد کی قیمتوں نے کسان کی کمر توڑی اور یوں جب ہائوسنگ سیکٹر نے اسے کچھ روپے دکھائے تو اس نے چند ایکڑ بیچ دینے میں عافیت سمجھی۔ اب ان پڑھ کسان زمین بیچنے بعد کیا کرے؟ اس نے مزدوری کے لیے شہر کا رخ کیا اور یوں ان شہروں پر آبادی کا دبائو بڑھا۔ شہروں میں پہلے ہی گنجائش نہیں تھی۔ پہلے سرائیکیوں نے کراچی کا رخ کیا، جہاں پہلے ہی پختون، سندھی اور پنجابی موجود تھے۔ پھر سرائیکی علاقوں سے غریبوں نے لاہور کا رخ کیا کہ وہاں سارا پیسہ لگ رہا تھا۔ لاہور کے بعد اب اسلام آباد اور پنڈی کی باری ہے۔ جب آپ سارا پیسہ چند شہروں پر لگائیں گے تو پھر وہ شہر ان غریبوں کے نشانے پر ہوں گے۔ اب وہ دنیا نہیں رہی کہ غریب لوگ روکھی سوکھی کھا کر خوش رہیں۔ اسے گائوں میں مزدوری نہیں ملتی۔ ملتی ہے تو اتنی کم کہ گزارہ نہیں ہوتا۔ پہلے سرائیکی علاقوں سے لوگ مڈل ایسٹ مزدوری کرنے جاتے تھے۔ پچھلے دو سالوں سے اب وہ سلسلہ کورونا کی وجہ سے رک گیا ہے لہٰذا ان غریبوں نے شہروں کا رخ کیا ہے۔ شہر ہر ایک کو مزدوری نہیں دے سکتا۔ گھروں میں کتنے ملازم رکھے جا سکتے تھے۔ کسی کے پاس کوئی پلان نہیں ہے کہ دیہات سے شہروں کا رخ کرنے والی آبادی کو کیسے روکا جائے؟ وسائل کا رخ کیسے دیہات کی طرف کیا جائے؟ سرائیکی علاقوں میں دو بڑی شاہراہیں گزرتی ہیں جو کئی برسوں سے حادثوں کا سبب بن رہی ہیں۔ اگر ایم ایم روڈ یا انڈس ہائی وے پر کام شروع ہوتا توآج بیلچے اٹھائے لوگ نظر نہ آتے۔ سرائیکی علاقوں میں کوئی میگا پروجیکٹس شروع نہ ہونے سے غربت بڑھی ہے۔ میگا پروجیکٹس ہمیشہ اپنے ساتھ معاشی سرگرمی اور عام لوگوں کیلئے مزدوری لاتے ہیں۔ سائوتھ کا المیہ رہا ہے کہ وہاں کے سیاستدانوں اور جاگیرداروں کو ہمیشہ سیاسی اقتدار دیا گیا لیکن فنانشل اقتدار کبھی نہ دیا گیا۔ چند گھرانوں کو سائوتھ میں حاکم بنایا گیا‘ جنہوں نے اپنی روح کا سودا لاہور، اسلام آباد اور پنڈی میں کیا اور بدلے میں وزارتیں سمیٹیں۔ جس خطے کے نو دس کروڑ عوام کو دس برس چیخ چیخ کر ایک ایم ایم روڈ کی مرمت یا اس پر موٹروے بھی نہ ملے تو اس علاقے کی پسماندگی کا عالم آپ جان سکتے ہیں۔ اعجاز اعوان صاحب اگر جنوبی پنجاب سے بھکاری ختم کرانا چاہتے ہیں تو ٹی وی شوز میں جرأت کرکے کہیں کہ ان سرائیکی علاقوں میں زمینیں مقامیوں کو الاٹ کی جائیں، بیوروکریسی کو ان علاقوں میں دی گئیں زمینیں منسوخ کی جائیں، سرائیکی علاقوں کو الگ صوبہ بنایا جائے تاکہ وہاں کے لوگ اپنا بجٹ خود پر خرچ کر سکیں۔
مجھے عظیم ناول The Great Gatsby یاد آیا‘ جس میں باپ اپنے بیٹے سے کہتا ہے: اگر زندگی میں تمہیں کبھی اپنے سے کمتر، بیوقوف یا کم عقل پر غصہ آئے تو ایک لمحے کیلئے سوچنا کہ ان لوگوں کو وہ مواقع نہیں ملے جو تمہیں ملے تھے۔ جو مواقع تنقید کرنے والوں کو ملے وہ ان بیلچہ اٹھائے مزدوروں کو نہیں ملے۔ اگر ملتے تو شاید وہ بھی آج میری طرح ٹی وی پر ٹائی پہن کر دانش وری بگھار رہے ہوتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں