"RKC" (space) message & send to 7575

ایسے ہی چلتا رہے گا!

آج کل پھر وہی سلسلہ جاری ہے جو ہر حکومت کے آخری سال ڈیڑھ سال میں ہر دفعہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہم لوگوں کو بھی زبان کا ایک چسکا لگا ہوا ہے کہ کچھ عرصے بعد ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ سنائیں کیا بنے گا؟ پاکستان کا کیا ہوگا؟ میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو عمران خان کے بہت بڑے حامی تھے اور آج کل یہی سوال پوچھتے ہیں کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ میں جواباً خاموش رہتا ہوں۔ کبھی دانشوری کا شوق ہوتا تھاکہ گھنٹوں تقریر کرسکتا تھا‘ لیکن اب اس موضوع پر بات کرتے اکتاہٹ سی ہوتی ہے۔ وہی ایاز امیر کی تحریریں یاد آتی ہیں کہ اب ہماری بلا سے کچھ بھی ہو۔ جن باتوں کیلئے لوگوں سے لڑتے تھے، بحث کرتے تھے، تعلقات خراب کرتے تھے وہ سب اب بے معنی لگتی ہیں‘ اب انقلاب آئے یا نہ آئے‘ ہماری صحت پر اثر نہیں پڑتا۔ ہمارے نصرت جاوید صاحب بھی اب اس سوال کا جواب دیتے دیتے بیزار ہوچکے ہیں۔
تو کیا لوگ خان صاحب سے بیزار ہورہے ہیں‘ جو یہ سوال دوبارہ شدت سے پوچھا جارہا ہے؟ خان صاحب وزیراعظم بنے تھے تو میں نے ایک کالم لکھا تھا کہ یہ دراصل عمران خان نہیں جیتے نواز شریف اور زرداری ہارے ہیں۔ جو نعرے خان صاحب بلند کر رہے تھے‘ وہی کام وہ دونوں کرتے تو شاید عمران خان کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔مخالفین آپ کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو کام بیس سال تک زرداری اور نواز شریف کرتے رہے‘ جس سے عمران خان نے فائدہ اٹھایا‘ وہی کام اب خان صاحب کررہے ہیں جس سے نواز شریف اور زرداری فائدہ اٹھائیں گے۔
یہ ساری باتیں میرے ذہن میں اس لیے آرہی ہیں کہ پچھلے دنوں کچھ چیزیں سامنے آئیں تو اندازہ ہوا‘ ہمارے ملک میں کیا کیا کرتب ہوتے ہیں اور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ابھی یہی دیکھ لیں کہ ڈالر کا ریٹ ایک دفعہ پھر آسمان کو چھونے لگا ہے اور یہ ریٹ خود حکومت بڑھا رہی ہے۔ پچھلے دو تین سالوں میں ڈالر کا ریٹ پچاس‘ ساٹھ روپے بڑھانے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اس سے پاکستانی ایکسپورٹ بڑھ جائے گی‘ ہمارا ایکسپورٹر بڑی مقدار میں پاکستانی اشیا سستے داموں بیچ کر اربوں ڈالرز پاکستان لائے گا اور ہمارے فارن ریزروز آسمان کو چھونے لگیں گے‘ ہمیں آئی ایم ایف والوں سے انکی شرائط پر قرضوں کی ضرورت نہیں رہے گی‘ نہ ہی وہ ہمارے بازو مروڑ کر اپنی شرائط منوا سکیں گے۔ اگرچہ لوگوں نے شور مچایا کہ اس سے جہاں پاکستانی قرضے بڑھ جائیں گے وہیں مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ جس ملک میں ایکسپورٹ اور امپورٹ میں بہت زیادہ فرق ہو‘ جہاں تیل سارا ڈالروں سے خریدا جاتا ہو، ادویات کا خام مال باہر سے آتا ہو اور پھر ہمارے بارے مشہور ہوکہ یہ ملک تو خود اپنی سوئی تک نہیں بنا سکتا‘ وہاں مہنگائی بڑھنے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ اور وہی ہوا کہ ڈالر کے ریٹ نے مہنگائی کو آسمان تک پہنچا دیا۔ اب لوگوں کی چیخیں نکلنا شروع ہوئی ہیں تو حکومت انہیں ریاست مدینہ پر لیکچر دے رہی ہے۔ ہر بات کا ایک ہی جواب‘ ایک ہی تقریرپچھلے تین سال سے سب سن رہے ہیں۔ تقریروں سے چیزیں ٹھیک ہورہی ہوتیں تو بندہ سن لیتا لیکن حالات مزید خراب ہورہے ہوں اور اوپر سے لیکچر‘ پھر صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔
ڈالر کا سن لیں‘ ابھی پتا چلا ہے کہ ماہ اگست میں دو بڑے کام ہوئے‘ جن سے روپے کا بیڑا غرق ہوا ہے اور مزید ہوگا۔ پہلا‘ اگست میں ایکسپورٹس کم ہو گئیں اور اسی ماہ ڈالر کا ریٹ بھی اوپر جارہا تھا۔ ہمیں تو بتایا گیا تھاکہ روپے کی قدر گرانے سے ڈالروں کی ریل پیل ہو جائے گی۔ الٹا ڈالرز کم ہونا شروع ہوگئے۔ ایکسپورٹرز نے جو ہمیں چونا لگانا تھا وہ لگالیا۔ ایکسپورٹرز پر سے میرا اعتماد تو اس دن ختم ہوگیا تھا جب ایف بی آر نے پانامہ کے دنوں میں ایک رپورٹ سپریم کورٹ جمع کرائی تھی کہ بہت سارے پاکستانی ایکسپورٹرز کے نام جب پانامہ سکینڈل میں سامنے آئے اور انہیں بلا کر پوچھا گیا کہ انہوں نے وہ کمپنیاں ڈیکلیئر نہیں کی تھیں تو پتہ چلا کہ اکثر نے نئی واردات ڈالی ہوئی تھی۔ ان ایکسپورٹرز نے ڈالرز پاکستان واپس لانے کے بجائے بیرون ملک ان سے خفیہ جائیدادیں خرید رکھی تھیں۔ ہوتا یوں ہے کہ حکومت پاکستان ایکسپورٹرز کو دس فیصد تک ڈالرز فارن کرنسی میں رکھنے کی اجازت دیتی تھی تاکہ وہ کرایہ، بلز، ایجنٹ کمیشن وغیرہ کلیئر کرسکیں‘ انہوں نے جعلی انوائسز اور جعلی بلز بناکر اسی پیسے سے بیرون ملک جائیدادیں خرید لیں۔ پاکستانیوں سے روپے کا ریٹ کم کرایا کہ اس سے ڈالرز آئیں گے اور ایکسپورٹ بڑھے گی۔ جب ڈالرز آئے تو انہوں نے وہیں بیرون ملک جائیدادیں خرید لیں۔ اب بتائیں ہمیں اپنی کرنسی کی قدر گرانے پر کتنے نفلوں کا ثواب ہوا؟ پورا ملک مہنگائی کا طوفان فیس کر رہا ہے اور جنہوں نے ہر جگہ رولا ڈال کر کرنسی گرائی تھی وہ اب ایکسپورٹ بڑھانے کے بجائے کم کررہے تھے۔ ڈالر کا ریٹ مزید اوپر جارہا تھا۔ان بزنس مینوں نے کورونا کے دنوں میں حکومت سے اربوں روپوں کے پیکجز لیے، رعایتیں لیں۔ کسی ایک بھی بڑے بزنس مین نے کوئی فنڈ قائم نہ کیا‘ جیسے بھارت میں تاجروں نے کیا۔ الٹا وہ ورکرز اور غریبوں کے نام پر عوام کے ٹیکس سے سارا پیسہ لے گئے۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ قوم ٹیکس نہیں دیتی اور دوسری طرف کاروباری دوستوں اور ڈونرز کو جی آئی ڈی سی کے پانچ سو ارب روپے معاف کر دئیے تھے حالانکہ وہ یہ پیسہ عوام سے اکٹھا کرچکے تھے۔ اب بھی عوام سے ٹیکس اکٹھے کرکے انہی کاروباریوں کو ریلیف دیا گیا۔
اور سن لیں ہماری قابلیت کے چرچے۔ شوکت ترین صاحب نے ایک اجلاس کی صدارت کی تو پتہ چلا کہ انہیں وزارت کامرس کی طرف سے اگست میں امپورٹ کے غلط فگر دیے گئے تھے۔ رزاق دائود کی وزارت کا کام ہے کہ وہ ہر ماہ امپورٹ کا ایک تخمینہ بناتی ہے کہ اس ماہ کتنے ارب ڈالرز کی امپورٹ ہوگی۔ اگست کیلئے اندازہ تھاکہ ساڑھے پانچ ارب ڈالرز کی امپورٹ ہوگی۔ اب پتہ چلا ہے کہ ایک ارب ڈالرز کی اندازے سے زیادہ امپورٹ ہوئی۔ یہ ہے قابلیت ہمارے بابوز کی۔ اس پر شوکت ترین تپ گئے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے‘ چلیں سو‘ دو سو ملین ڈالرز آگے پیچھے ہوجاتے ہیں‘ یہ پورا ایک ارب ڈالر کیسے آگے پیچھے ہوگیا۔ اس کا نتیجہ پھر ڈالر پر دبائو کی شکل میں پڑا اور ریٹ اوپر چلا گیا کیونکہ ریزرو سے آپ کا ایک ارب ڈالر اچانک نکل گیا اور اکثر حکومت کمی پوری کرنے کیلئے مارکیٹ سے خرید لیتی ہے جس سے ڈالرز شارٹ ہونے پر اس کا ریٹ بڑھ جاتا ہے۔
یہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا بلکہ جب سے یہ حکومت بنی ہے یہ تیسری چوتھی دفعہ ہے جب غلط فگرز کی بنیاد پر غلط فیصلے ہوئے اور اس کے اثرات عوام نے بھگتے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو شوگر سکینڈل کی وجہ بھی رزاق دائود صاحب ہی بنے تھے جب انہوں نے ای سی سی اور کابینہ کو بتایا تھاکہ ہمارے پاس بے تحاشہ چینی ہے‘ اسے ایکسپورٹ کر دو اور ساتھ چار ارب روپے بھی تھما دو۔ بعد میں پتہ چلا‘ وہ سب جھوٹ تھا۔ یوں شوگر کا وہ بحران پیدا ہواکہ دو سال سے پاکستان چینی باہر سے منگوا رہا ہے۔ قیمت باون روپے سے بڑھ کر ایک سو پندرہ روپے سے بھی اوپر جاچکی ہے، عوام کی جیب سے اربوں نکل رہے ہیں لیکن رزاق دائود صاحب کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا کہ تم نے کہا تھا چینی بہت ہے‘ باہر بھیج دیں۔ گندم کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ گندم باہر بھیج دی گئی اور اب تک چالیس پچاس لاکھ ٹن روسی کسانوں سے تین چار ارب ڈالرز میں خرید کر پاکستان واپس لائی جا چکی ہے۔ یہ سب غلط فگرز اور غلط فیصلوں کی وجہ سے ہوا‘ جس کی سزا عوام نے بھگتی۔
اب پھر حسب عادت عوام پوچھنا شروع ہوگئے ہیں کہ پاکستان کا کیا ہوگا؟ وہی فیض صاحب والی بات 'کچھ نہیں ہوگا ایسے ہی چلتا رہے گا‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں