وہی پرانا ہنگامہ برپا ہے۔ کچھ دن تک رہے گا اور پھر نیا ہنگامہ ہمارا منتظر ہو گا۔ یہی کچھ ہوتا آیا ہے اور یہی کچھ ہو گا۔
دو ہزار سولہ میں وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کے نام پانامہ سکینڈل میں شامل تھے تو اس دفعہ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کے اہم وزیروں کے نام پنڈورا سکینڈل میں آ رہے ہیں۔
اس وقت خان صاحب سپریم کورٹ گئے اور وہاں سے جے آئی ٹی بنوائی جس میں دو بریگیڈیئرز کے علاوہ نیب، ایس ای سی پی اور دیگر اداروں کے اہلکار بھی شامل تھے۔ اس کا سربراہ واجد ضیا کو بنایا گیا تھا۔ اس جے آئی ٹی کے سامنے نواز شریف اور ان کے بچے پیش ہوئے اور دیگر قریبی لوگ بھی۔ اب خان صاحب نے فوراً اپنے ماتحت کام کرتی وزیر اعظم انسپکشن ٹیم کو انکوائری کا کہا ہے۔ اندازہ کریں کہ جنہیں کابینہ نے خود لگایا ہے‘ وہی اب تفتیش کریں گے۔
وزیر اعظم کو شاید پتہ ہے کہ جس طرح انہوں نے پانامہ لیکس کو فالو کیا تھا‘ وہ کام اس وقت ان کی اپوزیشن نہیں کر سکے گی۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ دو ہزار سولہ میں سرونگ وزیر اعظم کے پورے خاندان کے نام اس سکینڈل میں موجود تھے۔ اس بار وزیر اعظم کا اپنا نام اس میں شامل نہیں‘ لہٰذا انہیں اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں‘ جیسے نواز شریف کو تھا۔ اس لیے وزیر اعظم عمران خان اس وقت اپنے مخالفین سے اس حوالے سے اخلاقی طور پر اوپر کھڑے ہیں‘ لیکن ساتھ ہی ایک بڑا دھچکا جو انہیں لگا ہے‘ یہ ہے ان کے اردگرد اب وہی لوگ اکٹھے ہوگئے ہیں جن کی آف شور کمپنیاں ہیں اور وہ ان کی کابینہ میں بیٹھے ہیں۔ خان صاحب پر الزام لگ رہا ہے کہ پنڈورا لیکس میں ان لوگوں کے نام ہیں جو پارٹی اور ہسپتال کے لیے فنڈنگ کرتے رہے ہیں اور اب بھی وہ ان کے ساتھ بیٹھے ہیں۔
خان صاحب کے حامیوں نے جہاں سکون کا سانس لیا ہوگا کہ وزیر اعظم کا اپنا نام اس لیکس میں شامل نہیں‘ وہیں ان کے ناقدین اب زور شور سے کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ خان صاحب جن لوگوں اور جس کرپٹ ایلیٹ کے خلاف نعرہ بلند کرکے سیاست میں کودے تھے اب اسی کرپٹ ایلیٹ کے وہ سب سے بڑے پروموٹر اور دوست ہیں اور انہیں پروٹیکٹ کررہے ہیں۔ وہ جس capture elite کی بار بار بات کرتے ہیں کہ چند طاقتور سیاسی گھرانوں اور کاروباری گروپس نے ملک کے وسائل پر قبضہ کر لیا ہے وہی ایلیٹ کلاس اب ان کے دائیں بائیں موجود ہے۔ اب یہ متھ بھی دھیرے دھیرے دم توڑ رہی ہے کہ خان صاحب کے اپنے ہاتھ صاف ہیں کیونکہ لوگ دیکھتے ہیں وہ سب امیر لوگ جو خان صاحب کو چندہ دیتے ہیں یا پارٹی فنڈ پیش کرتے ہیں یا دیگر فوائد دیتے ہیں وہ اس وقت سکینڈلز میں ملوث ہیں اور ان کے نام ہر دوسرے سکینڈل یا فراڈ میں آرہے ہیں۔ نواز شریف اور زرداری بارے یہ کہا جاتا تھا وہ ذاتی کاروبار کو فائدہ دینے کیلئے بڑے بڑے ڈاکے مارتے ہیں یا حکومتی اداروں کو اپنے کاروبار کیلئے استعمال کرتے ہیں تو اب یہی بات خان صاحب کے قریبی دوستوں اور ڈونرز کے بارے میں کہی جا رہی ہے کہ وہ اپنے کاروباروں کو فائدہ دلوانے کیلئے حکومتی طاقت اور وسائل استعمال کررہے ہیں اور جواباً وہ خان صاحب کو پارٹی یا ہسپتال چندہ دیتے ہیں۔ ان باتوں نے دھیرے دھیرے خان صاحب کے امیج کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے اور ان کے اپنے پڑھے لکھے حامی بددل ہو رہے ہیں۔ شروع میں انہیں لگاکہ یہ سب اپوزیشن پارٹیوں کا خان مخالف پروپیگنڈا ہے‘ لیکن اب تین سال بعد وہ بھی اس بات کے قائل ہورہے ہیں کہ عمران خان حکومت کے وزیروں اور مشیروں اور پچھلی حکومتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں رہا۔ وہاں زرداری اور شریف براہ راست مالی فوائد اٹھا رہے تھے تو اب مبینہ طور پر خان صاحب کے دوست ہاتھ صاف کررہے ہیں۔ وہ عمران خان جو پانامہ سکینڈل کے آنے بعد دو سال تک مسلسل آف شور کمپنیوں اور ان کے پاکستانی مالکاں کی کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف تقریریں کرتے رہے اور سپریم کورٹ تک گئے، باقاعدہ ایک وزیراعظم کی چھٹی ہوئی، دیگر جیل میں گئے، وہ اب خود ایک ایسی کابینہ کے سربراہ ہیں جس میں ان کے اپنے وزیروں کی آف شور کمپنیاں نکل آئی ہیں‘ لیکن اب وہ ان کے خلاف جے آئی ٹی نہیں بنا رہے‘ جس کا سربراہ واجد ضیا جیسا افسر ہو جیسے نواز شریف کے کیس میں ہوا تھا۔
دوسری طرف پہلی بار بڑی تعداد میں ریٹائرڈ فوجی افسران اور ان کی فیملیز کے نام بھی پنڈورا لیکس میں شامل ہیں۔ دو ہزار سولہ میں فوجی افسران کا نام نہیں تھا اور سارے ہنگامے کا فوکس نواز شریف اور ان کے بچوں یا پھر سیاستدانوں پر تھا۔ نواز شریف اور زرداری فیملیز کی ان گنت دولت نے عام آدمی کو بھی یہ یقین کرنے پر مجبور کر دیاکہ سیاستدان ہی لٹیرے ہیں۔ دفاعی مبصرین بھی ٹی وی چینلز پر یہ بیانیہ لے کر چلتے رہے ہیں۔ اب تک چھ فوجی افسران یا ان کے خاندان کے لوگوں کے نام سامنے آچکے ہیں اور ان میں چند نام تو بہت اہم ہیں جو ملکی سلامتی کے بڑے اداروں میں اہم عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔ اگر ان فوجی افسران کی اپنی یا ان کے بچوں کی چھپی ہوئی جائیدادیں باہر نکل رہی ہیں تو یقینی طور پر یہ بڑا سکینڈل ہے‘ اگر یہ سب حکومتی اداروں یا عوام یا میڈیا کو مطمئن نہیں کر پاتے کہ انہوں نے دولت قانونی طریقوں سے کمائی، اس پر پاکستان میں ٹیکس دیا اور پھر اس پیسے کو باقاعدہ قانونی طور پر بینکوں کے ذریعے باہر لے گئے اور اس کی جائیدادیں لندن وغیرہ میں خریدیں۔
اب سوال یہ ہے کیا خان صاحب تحقیقات صاف شفاف کرا سکیں گے؟ میرا خیال ہے اس حوالے سے ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ آج تک حکومت نے جس سکینڈل کی انکوائری کرائی‘ اس میں ان کے اپنے وزیر یا مشیر ملوث نکلے اور کسی ایک کو بھی پکڑا نہ جا سکا۔ شوگر سکینڈل، گندم سکینڈل، ادویات سکینڈل، تیل سکینڈل، آئی پی پیز سکینڈل اس کی چند مثالیں ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو وزیراعظم نے براڈشیٹ سکینڈل کی خود ستر اسی لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کی منظوری دی، جسٹس ریٹائرڈ عظمت شیخ کو انکوائری افسر بنایا‘ انہوں نے اس سکینڈل کے تین مرکزی کرداروں اور نیب کے سابق چیئرمینوں جنرل امجد، جنرل منیر حفیظ اور جنرل خالد مقبول‘ جن کے فیصلوں کی قیمت پاکستانی عوام نے ستر اسی لاکھ ڈالرز دے کر ادا کی، کو کلین چٹ تھمادی۔
خان صاحب احتساب میں سنجیدہ ہیں تو بقول عامر متین پھر سابق ڈی آئی جی طارق کھوسہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنا دیں جو ان کے وزیروں سمیت سب کی انکوائری کرے۔ ہمارے لکھاری دوست اور افسانہ نگار ظفر عمران نے کمال جملہ لکھا ہے کہ اس سے بڑا ستم کیا ہوگا کہ جو وزیراعظم بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کی فہرست قوم کے ساتھ شیئر کرنے کو تیار نہیں وہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اربوں روپے لوٹ کر آف شور کمپنیاں بنا کر باہر لے جانے والے اپنے قریبی ڈونر دوستوں، مشیروں، سول ملٹری افسران اور وزیروں کا احتساب کرے گا۔
دیکھا جائے تو وزیراعظم اس وقت خود ٹرائل پر ہیں۔