حیران ہوں کوئی اپنی بائیس برس کی مسلسل محنت ایسے بھی ایک دن میں برباد کرتا ہے جیسے حکمرانوں نے کی ہے۔ اس ملک پر بہت عذاب اترے اور گزر گئے۔ ہر دفعہ سب نے یہی سمجھا نیا حکمران کچھ نیا کرے گا اور ان کی زندگی بدل جائے گی۔ ہر دفعہ عوام ہی غلط ثابت ہوئے۔ پھر کوئی نیا بندہ اٹھا اور اس نے اپنی نوٹنکی شروع کر دی اور عوام پیچھے لگ گئے۔ اس نے سب کو چونا لگایا تو عوام کسی اور کے پیچھے لگ گئے کہ اب ہمیں تم چونا لگائو اور ذرا رنگ چوکھا ہو جلدی نہ اتر جائے۔
کراچی سے قرۃ العین مرزا نے خان صاحب کی ایک پرانی ویڈیو بھیجی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ نیب آرڈیننس میں تبدیلی کی ضرورت نہیں بلکہ وزیراعظم کو تبدیل کریں۔ فرماتے ہیں‘ اگر وہ وزیر اعظم بن گئے تو وہ نیب کو مزید خود مختار بنائیں گے اور کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ خان صاحب کا یہ اس وقت کا بیان ہے جب وہ اپوزیشن میں تھے۔ آج وہی وزیر اعظم بن کر وہ ہاتھ دکھا چکے ہیں جو یوسف رضا گیلانی، زرداری، راجہ پرویز اشرف، نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی تک کرنے کی جرات نہ کر سکے تھے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں نیب کے پر کاٹنے کی کوشش کی تھی‘ لیکن نواز لیگ نے شور مچا دیا تھا۔ خود عمران خان احتجاج کرنے میں پیش پیش تھے۔ اور تو اور اٹھارہویں ترمیم کے وقت ایک سو سے زائد آئین اور قانون کی شقوں کو بدلا گیا لیکن نیب کو نہ چھیڑا گیا کہ اس پر شدید عوامی اور میڈیا کا ردعمل آئے گا۔
نواز شریف دور میں بھی کوشش کی گئی‘ جب نیب نے ان کی حکومت کے اہم لوگوں اور بابوز پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا۔ اس وقت بھی نیب چیئرمین کو دھمکیاں دی گئیں لیکن قانون پھر بھی نہ بدل سکے۔ اب جو نیب آرڈیننس جاری کیا گیا ہے اسے پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ پہلے کہانی ڈالی گئی کہ دراصل نیب قانون میں کچھ تبدیلی کرنی ہے کہ خان صاحب نئے چیئرمین نیب پر شہباز شریف سے بات چیت کرنا اپنے رتبے کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی شان کے خلاف ہے کہ جو بندہ خود نیب کو کرپشن اور سکینڈلز میں مطلوب ہے وہ اس سے چیئرمین نیب لگانے کا مشورہ کریں‘ لہٰذا تبدیلی صرف چیئرمین نیب کی حد تک ہوگی۔ چلیں مان لیا کہ آپ موجودہ چیئرمین کو مزید چار سال دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ بڑے کام کا بندہ نکلا ہے۔ مجال ہے کہ انہوں نے خان حکومت کے آٹھ دس سکینڈلز پر کسی ایک وزیر‘ مشیر یا ڈونر پر ہاتھ ڈالا ہو۔
اب پتہ یہ چلا ہے کہ دراصل چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع ایک جھانسہ تھا۔ اصل کھیل تو کچھ اور کھیلا گیا ہے۔ نیب کے نئے آرڈیننس کے تحت جو کابینہ کی منظوری بعد صدر عارف علوی نے جاری کیا‘ نیب آئندہ خان صاحب کی کابینہ میں کیے گئے تمام فیصلوں پر کوئی کارروائی نہیں کرسکے گا۔ کابینہ کی اہم ذیلی کمیٹیوں‘ جن میں اکنامک کوآرڈینیشن سے لے کر نج کاری کمیٹی، ایکنک، این ای سی، اور دیگر اہم فیصلوں کو نہیں چھیڑ سکے گا جن میں اربوں کے فیصلے ہوتے ہیں اور دوستوں کو فائدے پہنچائے جاتے ہیں۔ یہی رعایت پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سمیت باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی میسر ہوگی۔ وہ جو چاہیں فیصلے کریں ان سے نیب نہیں پوچھ سکے گا۔ یوں عثمان بزدار‘ جو چار ارب کے شوگر سکینڈل میں نیب کے ریڈار پر تھے‘ کو ریلیف دیا گیا ہے۔ عمران خان خود اہم ایشوز پر کچھ ایسے فیصلے کر چکے ہیں جو ان کے جانے کے بعد ان کے گلے پڑ سکتے تھے‘ ان کا راستہ روک دیا گیا ہے۔ پہلے کابینہ میں باقاعدہ وزیر کا نام منٹس میں لکھا جاتا تھا کہ کس نے کس ایشو پر کیا کہا۔ کچھ وزیروں اور کابینہ سیکرٹریٹ نے مشورہ دیا کہ اس طرح تو ہم پھنس سکتے ہیں‘ لہٰذا طے ہوا کسی وزیر کا نام نہیں لکھا جائے گا تاکہ پتہ نہ چلے کس نے کیا کہا اور کیوں کہا؟ اب کابینہ سیکرٹریٹ نے منٹس ریکارڈ کا نیا طریقہ کابینہ کو ڈھونڈ کر دیا ہے کہ منٹس میں کسی کا نام نہیں ہوتا بس اتنا لکھا ہوتا ہے کہ ایک وزیر نے فلاں بات کی۔ دنیا بھر میں منٹس ریکارڈ ہوتے ہیں تو باقاعدہ ریکارڈ پر لایا جاتا ہے کہ کس نے کیا بات اور کیوں کی تاکہ کل کو اس کی گواہی کی ضرورت پڑ جائے تو پتہ ہونا چاہئے۔
وزیراعظم سمیت، ان کے ساٹھ وزیروں، پھر ان کے چار وزرائے اعلیٰ اور ان کی صوبائی کابینہ اور پھر ان کی کمیٹیوں کے سربراہوں نے اربوں روپے کے پروجیکٹس کے فیصلے کرنے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ کمیشن ریٹ تیس فیصد تک پہنچ چکا ہے تو جہاں نیب کا کچھ ڈر خوف نہیں ہو گا تو وہاں کیا کیا دھمال ڈالیں گے؟
ابھی دیکھ لیں کابینہ کے پچھلے اجلاس میں ایک وزیر نے انکشاف کیا: چینی کا ٹینڈر تاخیر سے کھولنے اور وقت پر چینی نہ منگوانے سے قوم کو اربوں روپوں کی چینی مہنگی خریدنا پڑ گئی ہے۔ وزیر کا کابینہ میں کہنا تھا: ان وزیروں اور افسران کے خلاف انکوائری کرکے ذمہ داری فکس کی جائے جن کی نالائقی کی وجہ سے پاکستان نے عالمی مارکیٹ سے مہنگی چینی خریدی ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کابینہ اجلاس میں اعتراف کیاکہ چینی منگوانے کے ایشو پر اربوں روپوں کا نقصان ہوا ہے۔ اب بتائیں‘ نیب کے نئے آرڈیننس کے تحت وزیراعظم، وزیرخزانہ، وزیروں یا افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی جو خود اعتراف کررہے ہیں کہ ان کے غلط فیصلوں سے چینی منگوانے پر پاکستان کو اربوں روپوں کا نقصان ہوا ہے۔ اسی طرح لاہور کے انٹرنیشنل سروسز ہوٹل کو فروخت کرنے کا سکینڈل کابینہ کے سامنے لایا گیا‘ جو سینیٹر شمیم آفریدی نے پکڑا تھا۔ پتہ چلا‘ نج کاری کمیشن اور ایوی ایشن کی وزارت‘ دونوں مل کر سب کو ماموں بنا رہے تھے۔ ہوٹل کو اونے پونے بیچا جا رہا تھا۔ جو قیمت پندرہ برس پہلے مل رہی تھی اس سے بھی کم قیمت پر بیچنے کا فیصلہ تک ہوگیا تھا۔ وزیروں نے شور مچایا کہ نج کاری کمیشن اور ایوی ایشن والے اس فراڈ میں برابر کے شریک تھے‘ لیکن اس نئے آرڈیننس کے تحت کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔
ویسے خان صاحب بارے میں کہا جاتا تھاکہ وہ اس ملک کی آخری امید ہیں اور اب اس آخری امید کا جو بھیانک انجام ہوا ہے اس پر سب افسردہ ہیں۔ وہ جو حضرت عمرؓ کے کرتے کی مثالیں دیتے تھے اب خود اپنے فیصلوں پر جواب دہ نہیں ہونا چاہتے۔
ویسے کوئی تھوڑا سا باضمیر ہوتا تو وہ نیب آرڈیننس میں کرپشن لیگل کرنے کے فیصلے کے خلاف ڈٹ کر سٹینڈ لیتا۔ نہ صرف مدت ملازمت میں توسیع سے انکار کرتا بلکہ میعاد ختم ہونے سے دو دن پہلے ہی سہی احتجاجاً استعفا دے دیتا۔ کوئی ایک بھی ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی جیسا نہیں‘ جو صدر کا نہیں ملک کا وفادار نکلتا‘ جس نے صدر ٹرمپ کو کہا تھا کہ وہ ان سے ذاتی وفاداری نہیں بلکہ ایمانداری کی توقع رکھے۔ نوکری کے ابھی چھ سال رہتے تھے لیکن جمیز برطرف ہو کر گھر چلا گیا۔ ہمارے ہاں آج ایک بھی جیمز کومی جیسا نہیں؟