تونسہ شریف کے ہمارے استاد محمود نظامی کی اچانک وفات کی خبر پڑھی تو افسردگی نے گھیر لیا۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ایک دفعہ مل لیں تو بھی اثر چھوڑ جاتے ہیں‘ استاد نظامی کے ساتھ تو تیس برسوں کی شناسائی تھی۔ ممکن ہی نہ تھاکہ آپ استاد نظامی کی محفل کی ایک دفعہ چَس اٹھا لیں اور پھر اس درویش کو ڈھونڈتے نہ پھریں۔
شاید1991 کی بات ہے‘ میرا ملتان یونیورسٹی کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ ہوا تھا۔ ہر ویک اینڈ پر میں بہاولپور نعیم بھائی کے پاس چلا جاتا تھا۔ ان کا عباس منزل میں کمرہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ کوئی بھی بھولا بھٹکا مسافر کمرے میں جا سکتا تھا۔ کھلی چھٹی تھی کہ وہ کینٹین سے ان کے نام پر کھانا کھائے، علاج کرائے اور اگر واپسی کا کرایہ نہ ہو تو وہ بھی نعیم بھائی سے لے لے۔ جب بھی نعیم بھائی کے چھوٹے سے کمرے میں رات کو گیا‘ انہیں فرش پر لٹریچر کی کتابیں سر کے نیچے رکھے سوئے دیکھا۔ میں بھی چپکے سے ان کے ساتھ جاکر لیٹ جاتا۔ وہ مجھے اپنے قریب محسوس کرکے تھوڑا سا نیند میں مسکراتے اور ایک بازو میرے گرد حمائل کر پھر سو جاتے۔ ان کے بیڈ پر اکثر ہماری بستی، تونسہ شریف، ملتان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، لیہ کے دوست یا دیگر لوگ سو رہے ہوتے تھے۔ میں انہیں کہتا: یہ آپ کیا کرتے ہیں‘ آپ ڈاکٹر ہیں‘ آپ نے صبح اٹھ کر ڈیوٹی پر جانا ہوتا ہے‘ آپ کو مکمل آرام کی ضرورت ہوتی ہے‘ پھر بھی آپ نیچے فرش پر اور اجنبی مہمان آپ کے بستر پر؟ وہ ہنس کر کہتے: یار کیا کروں‘ جب میں رات کو ڈیوٹی سے آتا ہوں تو کوئی نہ کوئی بستر پر سو رہا ہوتا ہے‘ اب میں ایک گہری نیند سوئے بندے کو کیسے اٹھائوں کہ تم نیچے سو جائو اور میں اپنے بستر پر سوئوں گا؟ مجھ سے یہ نہیں ہوتا‘ گزارنی ایک رات ہے وہ بستر پر بھی گزر جاتی ہے اور فرش پر بھی۔ اگر میں نے نعیم بھائی کو کسی کے لیے اپنا بستر چھوڑ کر نیچے فرش پر سوتے دیکھا تو وہ استاد گاڈی، کریم نواز اور محمود نظامی تھے۔ وہ جب آتے تو بیڈ پر بیٹھے ہوتے‘ میں اور نعیم بھائی نیچے فرش پر بیٹھ کر ان کی باتیں سن رہے ہوتے۔ نعیم بھائی کو پورا علم تھا کہ کس دوست کو کس طرح کی تعظیم دینی ہے اور کس سے لبرٹی لے کر گپ لگانی ہے۔ استاد گاڈی اور کریم نواز سے تکلف کا رشتہ تھا۔ ان سے گفتگو میں احترام اور ادب شامل ہوتا‘ سنجیدگی ہوتی۔ ارشاد تونسوی بھی اس کیٹگری میں آتے تھے یا پھر عبداللہ عرفان، ڈاکٹر انوار احمد، مظہر عارف، احسن واہگہ، عاشق بزدار، رفعت عباس کی بہت عزت کرتے‘ لیکن کھلی گپ شپ استاد نظامی، اشو لال، شہزاد عرفان یا رفیق پہلوان سے لگتی۔ جس دن استاد نظامی نعیم بھائی کے کمرے میں ہوتے‘ پوری رات محفل جمتی۔ پوری عباس منزل نظامی صاحب کے قہقہوں سے گونجتی۔ نظامی سے بہتر گپ شپ یا سنجیدہ بحث کوئی نہیں کر سکتا۔ نظامی میں ایک بڑی خوبی تھی کہ کوئی کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہوتا‘ وہ دھڑلّے سے اس کے منہ پر بات کرتے۔
میری ان کے ساتھ پہلی ملاقات کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ میں نعیم بھائی ساتھ کمرے میں موجود تھا کہ نظامی صاحب دھواں دھار انداز میں داخل ہوئے اور کہا: ڈاک دار کھانا منگوائو۔ نعیم بھائی نے میری طرف اشارہ کیا یہ چھوٹا بھائی ہے۔ نظامی نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور پھر ایسے ظاہر کیا جیسے میرا کمرے میں وجود ہی نہ ہو۔ نعیم بھائی نے اپنا بیڈ نظامی کے حوالے کیا اور خود نیچے میرے ساتھ فرش پر آ بیٹھے‘ نظامی سے پوچھا: کیا کھائو گے؟ نظامی نے کہا: ڈاک دار تمہیں پتہ ہے میں دال نہیں کھاتا۔ نعیم بھائی کو اچانک یاد آیا اور میری طرف اشارہ کرکے کہا: اسے بتائو تم دال کیوں نہیں کھاتے۔ نظامی نے یکدم سنجیدگی اختیار کی‘ اپنی الجھی ہوئی ڈاڑھی کھجائی اور بولے: اگر دال ہی کھانی تھی تو پاکستان کیوں بنایا؟ ہندوئوں اور مسلمانوں کی ساری لڑائی ہی دال گوشت کی تھی۔ ہندو کہتے‘ گوشت مت کھائو دال کھایا کرو‘ دال تو ہندو بھائی مفت کھلاتے تھے۔ پاکستان بناکر بھی دال کھائیں گے؟ میں ہنس پڑا تو ڈانٹا اور کہا: اس میں دانت نکالنے والی کون سی بات ہے‘ ہندوستان کے تقسیم ہونے جو ہزار وجوہات تم درسی کتب میں پڑھتے ہو وہ میں نے تمہیں ایک سادہ مثال دے کر سمجھا دی ہے۔
نظامی کی عادت تھی کہ اپنی بات مکمل کرکے فلک شگاف قہقہہ لگاتے اور اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھاتے‘ جیسے کہہ رہے ہوں‘ دے تالی۔ مجھے اس عادت کا پتہ نہ تھا۔ وہ ہر بات پر اپنا ہاتھ آگے کرتے جیسے کہہ رہے ہوں‘ دے تالی۔ میں بھی احتراماً ہاتھ آگے کرتا۔ جب میں نے دو تین دفعہ کیا تو نعیم بھائی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے: یہ اس کی عادت ہے‘ تم ہاتھ آگے نہ بھی کرو گے تو یہ یہی کرتا رہے گا تم خود کو نہ تھکائو۔ وہی ہوا برسوں تک نظامی پہلے فلک شگاف قہقہہ لگاتے اور پھر ہاتھ آگے کرتے اور میں سختی سے ہاتھ دبائے بیٹھا رہتا۔ واقعی نظامی صاحب کو کوئی فرق نہ پڑا۔
خیر نعیم بھائی نے مجھے بھیجا کہ کینٹین سے تین پلیٹ سالن اور روٹیاں لے آئو۔ اتفاق دیکھیں کینٹین پہ دال پکی ہوئی تھی۔ میں نظامی صاحب کے دال نہ کھانے کے معاملے کو مذاق سمجھا‘ لیکن جب کھانا نظامی صاحب کے سامنے رکھا تو دال دیکھ کر ان کا پارہ چڑھ گیا۔ مجھے وہ صلواتیں سنائیں کہ الامان۔ نعیم بھائی کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا غلط کر دیا۔ نظامی اچانک غصے سے اٹھے اور کہا: تم بھائی یہ دال کھائو میں ارشاد تونسوی کے گھر جاکر مرغی کھائوں گا۔ نعیم بھائی ہنستے رہے اور کہا: دیکھو کینٹین والوں نے بھی اسی روز دال پکانی تھی جس دن نظامی نے آنا تھا۔ خیر ہم دونوں بھائیوں نے مزے لے کر دال کھائی۔ دال اتنی مزیدار تھی کہ میں دوسری پلیٹ بھی کھا گیا۔
رات خاصی ڈھل چکی تھی جب نظامی صاحب پسینے میں شرابور اچانک کمرے میں داخل ہوئے۔ ہماری طرف دیکھے بغیر وہ بیڈ کے قریب پڑی میز کی طرف بڑھے جہاں دال کی خالی پلیٹیں رکھی تھیں۔ تیسری پلیٹ خالی دیکھ کر اونچی آواز میں بولے: میری یہ پلیٹ کس نے کھائی؟ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا: جی میں نے۔ نظامی یکدم مڑے اور میری طرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: شرم نہیں آئی میری پلیٹ بھی چٹ کرگئے؟ میں نے کہا: آپ تو دال نہیں کھاتے۔ صلوات سناتے ہوئے کہا: بندے کو بھوک لگی ہو تو کچھ بھی کھا لیتا ہے۔ نعیم بھائی نے کہا: لیکن تم تو ارشاد تونسوی پاس مرغ کڑائی کھانے گئے تھے؟ نظامی بولا: گھر کو تالا لگا ہوا تھا‘ اب پیدل وہاں سے آرہا ہوں کہ کرایہ بھی جیب میں نہ تھا۔ نعیم بھائی نے کہا: تو سائیکل رکشے پر آجاتے‘ یہاں مجھ سے لے کر اسے دے دیتے۔ نظامی بولا: اگر تمہارے کمرے کو بھی تالا لگا ہوتا تو کہاں سے دیتا لہٰذا پیدل آیا ہوں۔ چلو فوراً کھانا منگوائو بہت بھوک لگی ہے۔ نعیم بھائی نے مجھے کہا: جائو ہسپتال کی کینٹین سے نظامی کیلئے دال پیک کرا لائو؟ یہ سن کر نظامی کا پارہ پھر چڑھ گیا اور بولے: ڈاک دار شرم کرو‘ اب ہوٹل سے منگوا ہی رہے ہو تو مرغ کڑاہی منگوائو‘ وہاں سے بھی دال منگوائو گے؟
یہ تھے ہمارے سرائیکی کے بڑے عوامی دانشور جن کے بغیر سرائیکی وسیب اداس اور ادھورا رہے گا۔ استاد نظامی ہمارے پورے وسیب کے لاڈلے تھے۔ اکیلے لاڈلے جنہیں محاورتاً سات خون معاف تھے کہ وہ کسی کو کچھ سنا دیں، کہہ دیں کوئی برا نہیں مناتا تھا۔