وزیراعظم عمران خان کے ایک قریبی بندے سے بات ہورہی تھی۔ کہنے لگے‘ مجھے حکومت میں جا کر محسوس ہوا ہے کہ ہر حکمران یہی سمجھتا ہے کہ اس نے کبھی اس کرسی سے نہیں اترنانہ ہی اس کا اقتدار ختم ہوگا‘ لہٰذا وہ جو بھی اقدامات کر رہا ہوتا ہے یہ سوچ کر کرتا ہے کہ اس نے ہمیشہ اقتدار میں رہنا ہے۔ اس کے کان اور آنکھیں بند ہوجاتی ہیں اور وہی سننا چاہتا ہے جو اس کے ذہن میں ہے یا جس کا وہ فیصلہ کرچکا ہوتا ہے۔میں نے کہا :آپ لوگ کوئی مشورہ نہیں دیتے یا آپ سے مشورہ نہیں لیا جاتا؟بولے: مشورہ بھی ہم وہی دیتے ہیں جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ ہم کیوں بہادر بنیں اور اس محفل یا اجلاس سے ہی اٹھا دیے جائیں جہاں خوشامد اور خوشامدیوں کا مقابلہ چل رہا ہوتا ہے۔ کہنے لگے: حکمران کے کان یس سر سننے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ پھر آپ اس کے سرہانے ڈھول بھی بجاتے رہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر ایک دن اس کے نیچے سے تخت کھینچ لیا جاتا ہے اور وہ سنبھل نہیں پاتا۔
ان کی باتوں میں بڑا وزن تھا اور وہ کچھ مایوس بھی لگ رہے تھے۔ میں انہیں چپ چاپ سنتا رہا کہ چلیں دل کی بھڑاس نکال لیں۔مجھ سے پوچھا جائے کہ دنیا کا سب سے بڑا نشہ کون سا ہے‘ تو میرا جواب ہوگا انسانوں پر حکمرانی کا نشہ۔ اس کے سامنے سب نشے دم توڑ دیتے ہیں۔ اب جب خان صاحب اپنی چند باتوں پر اَڑ گئے ہیں تو نواز شریف یاد آتے ہیں کہ انہیں بھی بہت سے کاموں کی جلدی تھی۔ وہ بھی اس پر بڑافخر کرتے تھے کہ میں سب سے لڑ جھگڑ کر وزیراعظم کی کرسی تک پہنچا ہوں۔ ان کی یہی عادت انہیں تقریباً پھانسی کے پھندے تک لے گئی تھی۔ وہ تو بھلا ہو بل کلنٹن کا جو پاکستانی دورے میں جنرل مشرف کو کہہ گئے تھے کہ نواز شریف کو پھانسی نہیں دینی‘ تو عمر قید مل گئی۔
مان لیا کہ ضد انسان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے کہ آپ کسی مقصد کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں لیکن کیا پوری عمر ضد کے ساتھ گزاری جاسکتی ہے؟ مجھے خود احساس ہوتا ہے کہ بعض مواقع پر میرا اپنا ضد کرنا غلط تھا‘لیکن اُس وقت میرے پاس اس ضد کے حق میں ایک ہزار دلائل تھے۔آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو خود کو غلط پاتا ہوں۔ اس ضد کا نقصان کس کو ہوا؟ مجھے ہوا۔ضد کسی اور کو نہیں خود اس ضدی انسان کو نقصان پہنچاتی ہے لیکن حکمرانوں کے کیس میں یہ ضد پورے معاشرے یا ملک کو نقصان پہنچاتی ہے۔اپوزیشن نے ضد پکڑ لی تھی کہ وہ عمران خان کو ہاؤس میں تقریر نہیں کرنے دیں گے تو خان صاحب نے مصمم ارادہ کر لیا کہ پارلیمنٹ ہی نہیں آئیں گے یا ان اہم اجلاسوں میں شریک نہیں ہوں گے جن میں اپوزیشن شریک ہو گی۔ اندازہ کریں یہ لوگ ہمارا ملک چلا رہے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔
عمران خان کا اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دلوانے کا جنون سمجھ میں آتا ہے کیونکہ اس وقت اگر ان سے کوئی خوش ہے اور خوشی سے انہیں ووٹ ڈالے گا تو وہی اوورسیز پاکستانی ہیں حالانکہ بلاول بھٹو زرداری کی تجویز معقول تھی کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو الگ سے پانچ چھ سیٹیں دے دیں جن پر وہ خود الیکشن لڑیں اور پارلیمنٹ آجائیں۔ اوورسیز پاکستانی خوش قسمت ہیں کہ عمران خان حکومت کی پالیسیوں سے انہیں فائدے ہی ملے ہیں‘ نقصان ان کا ایک ٹکے کا نہیں ہوا۔ عمران خان نے ہاٹ منی متعارف کروائی جس کے تحت بیرون ملک پاکستانیوں کو کہا گیا کہ وہ پاکستان ڈالر بھیجیں انہیں تیرہ فیصد سود یا پرافٹ ملے گا۔ پہلے ڈالرز کو پاکستانی روپے میں کنورٹ کر کے اسے تین سے چھ ماہ ڈیپازٹ کر کے اس رقم پر تیرہ فیصد پرافٹ فکس کر دیا گیا۔ ساتھ ہی ڈالر ایک سو ساٹھ تک لے گئے تاکہ انہیں زیادہ پیسے ملیں۔ جب انہوں نے پیسہ واپس لیا تو انہیں ڈالروں میں پرافٹ سمیت دیا گیا۔ اس کا سارا فائدہ اوورسیز والوں کو ہوا اور انہوں نے تین سے چھ ماہ میں خاصا پیسہ کمالیا۔ اس کا مقامی نقصان یہ ہوا کہ 13 فیصد مارک اپ پر کوئی بزنس میں بینک سے قرضہ افورڈ نہیں کر سکتا تھا یوں مقامی کاروبار بیٹھ گئے‘ معیشت سست ہوگئی۔ تین ارب ڈالرز آئے اور تین سے چھ ماہ میں وہ کما کر نکل گئے، پھر پاکستان کو دنیا بھر سے ڈالرز کی بھیک مانگنا پڑی اور معیشت پر دبائو بڑھ گیا۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں بھی یہی ہوا۔ اوورسیز پاکستانیوں کو سات فیصد ڈالر ریٹ میں پرافٹ دیا گیا ہے۔ یعنی آپ امریکہ میں بیٹھ کر وہاں بینکوں سے دو تین فیصد پر قرض لے کر پاکستان میں جمع کرائیں اور سات فیصد منافع کمائیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا پرافٹ ہے جو دیا جارہا ہے۔ رہی سہی کسر ڈالر ریٹ نے پوری کر دی ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ایک سو اسی روپے تک چلا گیا۔ یوں ڈالر کے ریٹ نے جہاں پاکستانیوں کی تباہی کر دی وہیں اوورسیزپاکستانیوں اور ایکسپورٹرز کی چاندی ہوگئی۔ ایکسپورٹرز نے کہانی ڈالی تھی کہ اگر ڈالر ایک سو ساٹھ تک لے جائیں تو وہ ڈالروں کا انبار لگا دیں گے۔ اب پتہ چلا ہے کہ انبار کیا لگناتھا ایکسپورٹرز ڈالرز باہر رکھ کر بیٹھے انتظار کررہے ہیں کہ ڈالر کا ریٹ دسمبر تک مزید اوپر جائے گا تو لائیں گے اور لمبا مال کمائیں گے۔ انہی ڈالرز سے باہر جائیدادیں الگ خرید رہے ہیں۔ اب ایکسپورٹرز سے پوچھا جائے کہ پی پی پی دور میں جب ڈالر سو روپے سے بھی کم تھا اُس وقت ہماری ایکسپورٹ کیسے 26 ارب ڈالرز سے بڑھ گئی تھی؟ اس حساب سے تو اِس وقت ایکسپورٹ 50 ارب ڈالرز ہونی چاہیے لیکن ہم ابھی تک وہیں کھڑے ہیں جبکہ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر فرماتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی ڈالر کی ویلیو بڑھنے سے فائدے میں ہیں۔ انہیں ہم پاکستانیوں کی کوئی فکر نہیں کہ ڈالر کی ویلیو نے سب کی کمر توڑ دی ہے۔ اس لیے اوورسیز پاکستانیوں کا خان صاحب سے خوش ہونا بنتا ہے کہ سب میٹھا ان کے حصے میں آرہا ہے اور سب کڑوا پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ حکومت کا فوکس بائیس کروڑ عوام پر نہیں ‘ سب قوانین یا پالیسیاں بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کے لیے بن رہی ہیں کیونکہ خان صاحب کو پتہ ہے کہ انہیں الیکشن میں پاکستانی عوام سے ٹفٹ ٹائم ملے گا لہٰذا ان ووٹوں کی کمی باہر سے پوری کر لی جائے۔ دوسرے خان صاحب کو پارٹی فنڈ یا ہسپتال کے فنڈز بھی باہر سے ملتے ہیں۔ کل کو اپوزیشن کے دنوں میں پھر انہیں اوورسیز کے ڈالروں میں چندے کی ضرورت پڑے گی۔
میں نے ایک پروگرام میں کہاتھا کہ اس دفعہ الیکشن صرف اوورسیز کے ووٹوں پر کرایا جائے‘ ہم بائیس کروڑ نے جو توپیں چلانی تھیں چلا کر دیکھ لیں۔ وہی(اوورسیز) جو پارلیمنٹ منتخب کریں وہی حکومت کرے۔ ہم نے چوہتر سالوں میں تو یہی ہجوم اکٹھا کیا جس کا مظاہرہ آپ نے بدھ کو پارلیمنٹ میں دیکھ لیا۔
ہوسکتا ہے ہمارے اوورسیز بھائی بشیر احمد المعروف اعظم سواتی جیسے مزید اوورسیز ہمیں منتخب کر کے دیں۔ وہی اعظم سواتی جو امریکہ سے پاکستان کو ٹھیک کرنے آئے اور ان کی بدعنوانیوں کی تحقیقات پر پانچ جے آئی ٹی رپورٹس سپریم کورٹ میں پیش ہوئی تھیں۔ ان میں ایک رپورٹ ون ملین ڈالر جعلی نوٹ کی بھی تھی کہ کیسے موصوف نے شادیوں پر چلنے والے جعلی نوٹ مانسہرہ سیلاب میں جاں بحق ہونے والوںکو دفنانے کے لیے عطیہ میں دیے تھے اور وہ آج عمران خان کو نیا پاکستان بنا کر دے رہے ہیں۔