پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان میانوالی تشریف لے گئے اور میانوالی مظفرگڑھ ساڑھے چار سو کلو میٹر طویل سڑک جسے ایم ایم یا قاتل روڈ بھی کہا جاتا ہے پر مٹی سے گڑھے بھرنے کے لیے اٹھارہ ارب روپے کا اعلان کیا۔ اب آپ کہیں گے میں غلط سمجھا ہوں کیونکہ خان صاحب نے یہ فنڈز ایم ایم روڈ کے گڑھے بھرنے کے لیے نہیں بلکہ دراصل چار سو کلومیٹر سے زائد اس سڑک کی تعمیر کے لیے دیے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ صرف اعلان ہوا ہے کہ اٹھارہ ارب دیں گے۔جب دینے کا وقت آئے گا تو بابو اس فائل پر بیٹھ جائیں گے۔ بائیس برس سے اسلام آباد میں دیکھ رہا ہوں کہ اعلان کر دو باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔بجٹ میں نو سو ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھا گیا تھا جو پچھلے ماہ دو سو ارب کاٹ کر سات سو ارب تک لے آئے ہیں۔ ابھی مالی سال ختم ہونے میں چھ ماہ رہتے ہیں اور لگتا ہے یہ گھٹتا ہی رہے گا۔ چلیں مان لیا کہ ایم ایم روڈ کے نام پر اٹھارہ ارب روپے مل بھی جائیں گا تو آپ اس سے ایم ایم روڈ کا کون سا پہاڑ سر کر لیں گے؟ اس اٹھارہ ارب سے 400 کلومیٹر سے زائد سڑک پر پڑے گہرے گڑھوں اور ٹوٹ پھوٹ پر مٹی ڈال کر چند دن کی چاندنی دکھائی جاسکتی ہے‘ اس سے نئی سڑک نہیں بن سکتی۔
مجھے بہت سے دوستوں نے وزیر اعظم کے اس اعلان کی خبر کو ٹوئٹر اور فیس بک پر ٹیگ کیا۔ میرے دوست اور سرائیکی کے بڑے شاعر افضل عاجز‘ جو خود میانوالی سے ہیں‘ نے بھی ٹیگ کر کے مبارکباد دی کیونکہ ان کا خیال ہے کہ شاید میں پچھلے کئی برسوں سے ایم ایم روڈ پر لکھتا رہا اور بولتا رہا اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیموں سے گالیاں بھی کھاتا رہا کہ وزیراعظم عمران خان سے صحافیوں کی ہونے والے پہلی ملاقات میں رئوف نے کیوں یہ سوال اٹھایا کہ ایم ایم روڈ کو بنوا دیں جو سرائیکی علاقوں کے پانچ اضلاع سے گزرتی ہے اور لاکھوں لوگ اس پر کراچی سے مظفرگڑھ، لیہ، بھکر، میانوالی سے ہوتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور سے کابل تک جاتے ہیں‘ بلکہ یہ سڑک شمالی پنجاب سے ہوتی ہوئی اسلام آباد اور پنڈی تک کو ملاتی ہے۔ یہ کراچی سے اسلام آباد اور کابل تک بڑا روٹ ہے۔ اس پر ہی افغانستان میں نیٹو کنٹینرز سپلائی ہوتے رہے جنہوں نے ان علاقوں کی سڑکوں کو تباہ کر دیا۔اس سپلائی کے بدلے جو ڈیڑھ ارب ڈالرز کولیشن سپورٹ فنڈ سالانہ ملتا رہا اس میں سے ایک ٹکا بھی ان بیس برسوں میں ان علاقوں میں ہونے والی تباہی بربادی پر نہیں لگایا گیا۔ وہ اربوں ڈالرز کوئی اور لوگ ڈکار گئے اور سرائیکی علاقوں کا انفراسٹرکچر اب بیس برس بعد بھی تباہ حال ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایم ایم روڈ پر روز حادثے ہونا شروع ہوگئے اور ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس طویل سڑک کا کوئی حصہ سلامت نہیں رہا۔ ان علاقوں پر نہ کبھی شریف برادران نے توجہ دی نہ ہی تحریک انصاف نے۔جب میں نے عمران خان صاحب سے کہا کہ آپ ان علاقوں سے جیتے ہیں‘ آپ اس کے بدلے ایم ایم روڈ کی از سر نو تعمیر کا کام کروادیں تو الٹا وہ ناراض ہوگئے اور مجھے سب صحافیوں کی موجودگی میں کہا کہ یہ ان کا کام نہیں ہے‘ ان کے پاس صوابد یدی فنڈز نہیں ہیں۔ انہیں یہ بھی پتہ نہ تھا کہ وزیراعظم نے این ایچ اے کو کہنا ہوتا ہے وہ سب پلان کرتے ہیں‘ پی سی ون بنتا ہے اور پھر فنڈز کا بندوبست ہوتا ہے۔ وہاں موجود کچھ صحافی دوستوں نے میرا مذاق اڑایا‘ باقی کا کام خان صاحب کی سوشل میڈیا ٹیم نے کر دیا کہ رئوف نے وزیراعظم سے اپنے گھر کی سڑک مانگ لی اور انہوں نے انکار کیا تو وہ اب حکومت کے خلاف خبریں لگاتے ہیں۔
خان صاحب اس سڑک کے سوال پر اتنے ناراض ہوئے کہ حکم ہوا کہ آئندہ اس گستاخ کو صحافیوں سے وزیر اعظم کی ملاقات میں نہ بلایا جائے۔ میں بھی خاموش ہو گیا‘ خیر چھ ماہ‘ سال بعد خود ہی بین اٹھا لیا گیا‘بلاواملا کہ میٹنگ ہے آ جائیں‘ وہاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی موجود تھے۔ بزدار صاحب سیدھے میری طرف آئے اور ہاتھ پکڑ کر کہا: مٹھائی کا ڈبہ تیار رکھیں آپ کا ایم ایم روڈ اب میں بنائوں گا۔ اینکر دوست کاشف عباسی ساتھ کھڑے تھے ‘انہوں نے قہقہہ لگایا اور مجھے کہا: چلیں رئوف صاحب آپ کی سڑک بن گئی۔ تین سال گزر گئے بزدار صاحب مٹھائی وصول کرنے تو نہ آئے لیکن وفاقی وزیر مراد سعید کا فون آگیا کہ جناب آپ کے ایشو اٹھانے پر میں اتنا کرسکتا تھاکہ پنجاب حکومت سے وہ سڑک ہم نے این ایچ اے کو ٹرانسفر کرا لی ہے۔ اب یہ این ایچ اے بنائے گا۔ مراد سعید کا شکریہ ادا کیا کہ پختون ہو کر بھی ہم سرائیکیوں کا احساس کر لیا جواس خطے کے 100 ایم پی ایز اور50 ایم این ایز نہ کر سکے۔ مراد سعید سے درخواست کی کہ مہربانی کریں اور اس طویل سڑک کو موٹر وے میں بدل دیں‘اگر یہ ممکن نہیں تو کم از کم ون وے بنائیں ورنہ کوئی فائدہ نہ ہوگا‘ لوگ سنگل سڑک پر آمنے سامنے گاڑیوں کی ٹکر سے مرتے رہیں گے۔ وہ بولے کہ اس پر سروے ہورہا ہے‘ پبلک پرائیوئٹ پارٹنرشپ پر کام کرائیں گے‘ اگر موٹر وے نہ بھی بن سکی تو کم از کم نئی ون وے سڑک بنوا دیں گے۔ ایک دن وہاڑی سے دوست محمد حسین جٹ اور ان کی بیگم صاحبہ میرے ساتھ ایک کیفے پر بیٹھے تھے کہ مراد سعید سے بات ہوگئی۔ انہوں نے کہا :مبارک ہو اٹھارہ ارب روپے ایم ایم روڈ کی مرمت کے لیے رکھے گئے ہیں‘ میں ہنس پڑا اور کہا: صرف 18 ارب روپے 400 کلومیٹر سے زائد سڑک کے لیے ؟ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ میں نے کہا: مراد بھائی آپ نے تو موٹر وے کا کہا تھا۔ موٹر وے نہ سہی کم از کم ون وے کی بات ہوئی تھی۔ وہ بولے :پتہ نہیں کتنی مشکل سے 18 ارب روپے منظور کرائے ہیں۔میں نے کہا: اب ان 18 ارب سے ایم ایم روڈ پر مٹی ڈال کر کھڈے ہی بھرے جاسکتے ہیں۔ حسین جٹ گواہ ہیں کہ مراد سعید سے کتنی طویل بحث کی۔ پھر خود کو یہ سوچ کر تسلی دی کہ چلیں مراد سعید کی مہربانی کہ انہوں نے میری چیخ و پکار پر کچھ کام تو کیا ورنہ سرائیکی علاقوں کے ایک سو ایم پی ایز‘ پچاس ایم این ایز اور درجن بھر وزیروں نے کبھی جرأت نہ کی۔
سرائیکیوں کی قسمت میں یہی لکھا تھا کہ اٹھارہ ارب کی مٹی کھائیں ورنہ فواد چوہدری نے اسلام آباد کھاریاں موٹر وے کے 117 کلو میٹر چار لین کے لیے 90 ارب کا بجٹ لے لیا اور کلر کہار موٹر وے سے پنڈ دادن خان ‘ جہلم تک 120 کلو میٹر ون وے سڑک کے لیے سولہ ارب لیے ہیں۔ شمالی پنجاب کے ان علاقوں کو بھی یقینا ضرورت ہے لیکن ساڑھے چار سو کلو میٹر طویل ایم ایم روڈ کے لیے صرف 18 ارب روپے۔ اس سے بڑا مذاق خان صاحب اپنے میانوالی کے ووٹروں اور عثمان بزدار سرائیکیوں کے ساتھ نہیں کرسکتے تھے۔ بہرحال فواد چوہدری کو داد کہ وہ اکیلے اپنے علاقوں کے لیے 100 ارب روپے سے زائد بجٹ لے گئے اور ہمارے سرائیکی خان، ملک، جھکڑ، نیازی، مہر، مستی خیل، قریشی، دریشک، مزاری، لغاری، مخدوم، کھر‘ اپنی نمبرداری کے لیے ایس ایچ اواور پٹواری مرضی کے لگوانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرسکتے۔ مراد سعید کیوں ان لوگوں کے لیے موٹر ویز یا ون وے سڑک بنوائیں جن کے اپنے 150 گونگے بہرے اسمبلیوں میں خوف کے مارے بات نہیں کرتے۔
جو مجھے مبارکبادیں دے رہے ہیں وہ اپنی مبارکبادیں اپنے پاس رکھیں۔ اس سے بڑا فراڈ کیا ہوسکتا ہے جو ایم ایم روڈ کے نام پر اس خونی سڑک پر صرف مٹی ڈالنے کا کیاجارہا ہے۔ہمارے پانچ سرائیکی اضلاع کے بھائی اٹھارہ ارب کی مٹی سڑک پر ڈالنے پر خوش ہیں۔ ان پانچ اضلاع کے لوگوں سے زیادہ بھولے ‘ سادہ اور بے وقوف کون ہوں گے۔