کچھ دنوں کیلئے امریکہ آنا پڑا۔ یہاں مجھے اپنا ایک پاکستانی صحافی دوست بہت یاد آرہا ہے جو میرا ہمیشہ مذاق اڑاتا ہے کہ کیا تمہیں سیانا بننے کا شوق ہے؟ ان لوگوں سے تالیاں بجوانے کا فن سیکھو‘ ان کو وہی چورن بیچو جو وہ خریدنا چاہتے ہیں۔
وہ یہی کہتا ہے کہ لوگوں کو بیوقوف بنانا آسان ہے بہ نسبت انہیں قائل کرنے کے کہ انہیں بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ وہ خود بھی ٹی وی شوز میں اکثر یہی کررہا ہوتا ہے کہ جس رخ ہوا چل رہی ہو وہ اسی رخ چل پڑتا ہے۔ وہ ہر ایک سے تالی بجوانے کا فن جانتا ہے اور میں اسے حسرت سے دیکھتا ہوں کہ کیسا خوش نصیب انسان ہے۔
اب میں زندگی کے اس موڑ پر ایک اور فیز سے گزر رہا ہوں کہ بہتر ہے لوگوں کی ہاں میں ہاں ملائی جائے۔ کیا لمبی بحث کریں‘ اگلا جو کچھ کہہ رہا ہے اسے حرفِ آخر سمجھ کر قبول کریں‘ تھوڑی دیر کی خاموشی کیا اس دو گھنٹے کی لاحاصل بحث سے بہتر نہیں جس کے بعد نتیجہ وہی نکلنا ہے جو بحث سے پہلے تھا؟ میں اکثر کہیں جا کر لیکچر دینے سے گریز کرتا ہوں۔ امریکہ سے بھی تین چار دفعہ امریکن پاکستانیوں کے اہم فنکشنز میں شرکت اور گفتگو کی دعوت ملی لیکن ہر دفعہ شائستگی سے معذرت کر لی۔ وجہ یہی بتائی کہ عمر کے اس حصے میں پہنچ کر احساس ہوا ہے کہ کوئی آپ کی باتوں اور تحریروں سے متاثر نہیں ہوتا اور نہ ہی آپ کے کہے یا لکھے پر کوئی اپنی رائے بدلتا ہے۔ ہاں کچھ ہم خیال لوگ جو پہلے بھی آپ کو پسند کرتے ہیں وہ کرتے رہتے ہیں اور جو ناپسند کرتے ہیں ان کی رائے بھی آپ کے بارے نہیں بدلتی۔ تو پھر کیا کسی اونچے منبر پر چڑھ کر واعظ کیا جائے اور خود کو عقلِ کُل سمجھ کر لوگوں کو بتایا جائے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے؟
لوگ آپ کے کہنے پر کیوں چلیں یا سوچیں اور وہی کریں جو آپ چاہتے ہیں؟ آپ کو لگتا ہوگا کہ آپ کو زیادہ پتہ ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ اگر لوگ آپ کی سمجھ پر چلیں تو دنیا بہتر ہو سکتی ہے لیکن آپ جن کی زندگیاں بدلنے کا جنون پالتے ہیں وہ اپنی زندگیوں میں خوش ہیں۔ انہیں آپ سے کوئی بڑا عقل مند پہلے ہی چورن بیچ چکا ہے۔ آپ سے بڑے بڑے فنکار دنیا میں موجود ہیں‘ ان کی اداکاری اس لیول کی ہے کہ آپ کی سنجیدہ اور حقائق پر مبنی گفتگو یا لکھائی لوگوں پر اثر نہیں کرتی۔ وہ اپنے اپنے رول ماڈلز اور ہیروز چن چکے ہیں۔ اگر آپ نے ان ہیروز کی جگہ لینی ہے تو پھر آپ کو ان کے ہیروز سے کچھ مختلف کرنا پڑے گا۔ آپ کو ان سے بڑا لائوڈ سپیکر آن کرنا پڑے گا۔ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ آپ کو لائوڈ سپیکر بننے کی کیا ضرورت ہے؟ ہو سکتا ہے وہ لوگ جنہیں آپ سمجھ رہے ہوں کہ وہ آپ سے کم عقل ہیں‘ دراصل وہی عقلمند ہوں۔ بہتر نہیں ہے کہ وہ اس طویل سفر کو خود طے کریں جو آپ طے کرکے یہاں تک پہنچے ہیں اور خود کو دوسروں سے زیادہ عقلمند سمجھ کر انہیں لیکچر دیتے ہیں؟
میں اکثر والدین کو دیکھتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو پہلے دن سے سقراط اور ارسطو بنانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ بچوں کا جینا حرام کر دیں گے کہ وہ ابھی پانچ سال کے ہوکر پچاس سال والے بندے جیسی گفتگو‘ انفارمیشن اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے؟ میں نے یہی بات اپنے رشتہ داروں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر آپ کا بچہ ایک لمحے میں زندگی کے پچاس سال گزار کر آپ کے لیول پر پہنچ جائے تو اس کا بچپن‘ لڑکپن اور جوانی کہاں گئی؟ مجھے یاد آیا کہ ایک جاننے والی لڑکی نے بڑی خوبصورت بات کی کہ مجھے میرے والدین نے بچپن سے اتنا میچور کر دیا کہ میں اپنے لڑکپن اور آنے والے برسوں کو انجوائے نہ کر سکی۔ میری میچورٹی ہی اس ینگ ایج میں میری دشمن بن گئی۔ اس میچورٹی نے میری نیند مجھ سے چھین لی ہے۔ میچورٹی ایک سٹیج پر حسایت کا درجہ اختیار کر لیتی ہے اور آپ ساری عمر کڑھتے رہتے ہیں۔
جب میں اپنے تئیں دوسروں کی بات پر کڑھتا ہوں کہ شاید انہیں حقیقت کا پتہ نہیں ہے تو مجھے ان پر رشک آتا ہے کہ کتنے خوش نصیب ہیں اور مزے کی زندگی ہے ان کی۔ حقائق سے دور زندگی گزارنا بھی کتنا خوبصورت اَمر ہے۔ کیا خود کو آگاہی کے عذاب کی بھٹی میں مسلسل جلایا جائے؟ بہتر نہیں کہ بیوقوف بن کر جیا جائے؟ لوگوں کی ہاں میں ہاں ملائی جائے؟ بھیڑ بکریاں کتنی خوش نصیب ہیں کہ سر جھکائے ایک ہی سمت چلتی رہتی ہیں۔ انہیں اپنے اردگرد ماحول سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کے آگے جو بھیڑ چل رہی ہے وہی ان کی راہبر ہے‘ چاہے وہ اس کے پیچھے لگ کر کسی کنویں ہی میں کیوں نہ جا گریں۔
میں جب بولنے لگوں تو مجھے مشہور امریکن ناول The Great Gatsby کی وہ ابتدائی سطریں یاد آتی ہیں‘ جب اس ناول کا کردار یاد کرتا ہے کہ اس کے باپ نے ایک دفعہ اسے نصیحت کی تھی کہ بیٹا اگر تمہارا زندگی میں کسی ایسے بندے سے واسطہ پڑے جو تمہیں خود سے کم ذہین لگے تو ایک بات یاد رکھنا کہ جو تمہیں زندگی میں مواقع ملے جنہوں نے تمہیں تمہارے خیال میں اس سے بہتر‘ سمجھدار اور عقلمند بنایا وہی مواقع اس بندے کو نہ ملے ہوں گے جسے تم خود سے کم عقل سمجھتے ہو۔ پھر تو ہو سکتا ہے دنیا میں کئی لوگ ہوں گے جو خود کو آپ سے بھی زیادہ بہتر سمجھتے ہوں گے اور انہیں بھی لائف میں آپ سے زیادہ بہتر مواقع ملے ہوں گے۔ اس لیے جوں جوں زندگی گزر رہی ہے دل چاہتا ہے کہ اب بحث مباحثہ کم کیا جائے۔ لوگوں کو ان کے خیالات‘ خواب اور توقعات کے ساتھ زندہ رہنے دیا جائے۔
ایک دو دوستوں نے مجبور کیا کہ پاکستان کے حالات پر کچھ گپ شپ کی جائے۔ میں نے کچھ باتیں شروع کیں تو محسوس ہوا ان کے چہروں کے تاثرات بدل رہے ہیں۔ پھر وہی اپنا پاکستانی صحافی دوست یاد آیا۔ ویسے بھی میرا تجربہ ہے کہ لوگ دراصل آپ سے حالات کا تجزیہ نہیں سننا چاہتے وہ آپ کو اپنی سنانا چاہتے ہیں۔ بلکہ اب تو کوئی میری تعریف کرے تو بھی اچھی نہیں لگتی کیونکہ مجھے علم ہے کہ اب ایک گھنٹہ مجھے اس کی باتیں چپ کر کے سننی ہیں کہ کہیں اس کا میرے بارے قائم کیا گیا تاثر ہی غلط نہ ہو جائے اور میں اپنے ایک فین سے ہاتھ نہ دھو بیٹھوں۔ اس لیے چپ ہی بہتر ہے۔ صدیوں سے انسان ایسے ہی تھا اور ایسے ہی رہے گا۔ وہ اپنی بنائی ہوئی محبتوں اور نفرتوں کو ساتھ لے کر چلتا رہے گا۔ وہ آپ کے کہنے یا آپ کی تحریر یا بات سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کے نظریات نہیں بدلے گا۔ اس لیے میں اکثر کہیں یونیورسٹی‘ کالج یا اہم فنکشن میں گفتگو کرنے سے کتراتا رہا ہوں۔ کوئی آپ کی ایک آدھ گھنٹے کی بات سن کر خود کو نہیں بدلتا۔ سوال یہ ہے کہ وہ بدلتے ہیں یا نہیں‘ آپ خود دوسروں کی باتیں سن کر کتنا بدلتے ہیں؟ اگر آپ نہیں بدلتے تو دوسرے آپ کی باتوں سے متاثر ہو کر خود کو کیوں بدلیں؟
امریکہ میں ایک لطیفہ پیش آیا کہ کسی نے پاکستان کے حالات کے بارے پوچھا تو میں کچھ دیر خاموش رہا تو محسوس ہوا کہ کہیں وہ میری خاموشی کو میری arrogance نہ سمجھ لیں۔ میں نے اپنے تئیں پوری نیت کے ساتھ ایک گھنٹہ لگا کر وہاں موجود تین چار لوگوں کو صورتحال کا جائزہ پیش کیا‘ حالانکہ مجھے علم تھا کہ میری باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایک گھنٹہ بعد آواز آئی کہ آپ کی باتوں میں وزن تو ہے لیکن... پھر بھی... دیکھیں ناں... میں ہنس پڑا اور انہیں انگریزی کا محاورہ سنایا کہ کہا جاتا ہے میں نے پکا فیصلہ کر لیا ہے‘ اب آپ کی مہربانی مجھے حقائق بتا کر کنفیوز مت کریں۔