ہم جس حالت کو آج پہنچے ہیں‘ اس پر ہمیں کافی محنت کرنا پڑی ہے۔ وہ کام راتوں رات نہیں ہوا جس کی وجہ سے ہم ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ آج آپ کو ایسی ہی کہانی سنانے لگا ہوں۔ 30نومبر کے کابینہ اجلاس میں فارن سیکرٹری ایک سمری لائے جس میں یہ اجازت مانگی گئی تھی کہ ہماری واشنگٹن میں دو سفارتی عمارتیں ہیں‘ جنہیں وہ اب بیچنا چاہتے ہیں۔ جب ان بلڈنگز کی تفصیلات سامنے رکھی گئیں تو سب کی آنکھیں کھل گئیں کہ ہمارے بابوز یہ کام بھی کرتے ہیں اور اتنی باریک واردات ڈالتے ہیں۔
2003ء کی بات ہے‘ صدر مشرف کے دور میں جب واشنگٹن سفارت خانے کے افسران کو محسوس ہوا کہ وہ جن دو عمارتوں میں دفاتر بنا کر بیٹھے ہیں‘ وہ ان کے شایانِ شان نہیں ہیں۔ Rسٹریٹ پر واقع بلڈنگ 1953ء میں پاکستان کے سفیر سید امجد علی کے دور میں خریدی گئی تھی جبکہ سفارتخانے کی دوسری عمارت پاکستان کے امریکہ میں پہلے سفیر عبدالحسن اصفہانی صاحب کے دور میں لی گئی تھی۔ دفتر منتقلی کے فیصلے کے بعد واشنگٹن کے اہم علاقے چانسری میں واقع یہ عمارتیں خالی چھوڑ کر‘ ہمارے سفارتکار نئی عمارت میں شفٹ ہوگئے۔ چلیں یہاں تک بھی ٹھیک تھا کہ آپ کو یہ دو عمارتیں پسند نہیں آئیں یا آپ کے خیال میں یہ اب پرانی ہو چکی تھیں لہٰذا آپ کو نئے دفاتر چاہیے تھے لیکن آپ کو یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ اب ان دو خالی عمارتوں کا کیا کرنا ہے؟ کیا یہ خالی ہی رہیں گی یا انہیں بیچ دیا جائے گا یا پھر اسے کرایہ پر اٹھا دیا جائے گا؟ لیکن شاید ان عمارتوں کو سفارتی درجہ حاصل ہونے کی وجہ سے انہیں کرایہ پر نہیں دیا جا سکتا تھا‘جس کا مطلب تھا کہ ان پر مقامی ٹیکس بھی نہیں لگتے تھے۔ لیکن داد دیں ہمارے ان افسران کو جو یہاں سے سفارتخانہ منتقل کرنے کے بعد بھول گئے کہ لاکھوں ڈالرز مالیت کی عمارتیں اب بھی وہاں موجود تھیں۔
2003ء سے 2010ء تک کسی کو ان عمارتوں کا کچھ خیال نہ آیا۔ اس دوران حسین حقانی‘ جو پیپلز پارٹی دور میں وہاں سفیر لگائے گئے تھے‘ نے فیصلہ کیا کہ ان دو عمارتوں کی تزئین و آرائش کی جائے۔ اس پر سوال اٹھا کہ ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟ اس کا حل نیشنل بینک کی واشنگٹن برانچ سے ستر لاکھ ڈالرز قرض کی صورت میں نکالا گیا۔ اس قرض سے اُن عمارتوں کی تزئین و آرائش کا کام شروع ہوا۔ جب یہ کام ساٹھ فیصد تک پہنچ چکا تھا تو اچانک ایک دن مقامی کونسل نے سفارت خانے کو نوٹس جاری کیا کہ آپ یہ کام نہیں کر سکتے کیونکہ آپ نے مقامی بلڈنگز لاز کے تحت اُن تبدیلیوں کی اجازت نہیں لی جو آپ یہاں کررہے ہیں۔ ساتھ ہی ستر‘ اسّی ہزار ڈالرز کا جرمانہ بھی کر دیا گیا۔ جس کے بعد سب کام روک دیا گیا جبکہ اس دوران بینک کو حکومت پاکستان اپنی جیب سے ستر لاکھ ڈالر سود سمیت ادا کرتی رہی۔اب ذرا ہماری قابلیت چیک کریں کہ ہم نے 70لاکھ ڈالرز قرض بھی لیا‘ چالیس پینتالیس لاکھ ڈالرز اس میں سے خرچ کر لیے‘ تب جا کر ہمیں پتا چلا کہ مقامی کونسل کے قوانین کے تحت ہم یہ تبدیلیاں نہیں کر سکتے تھے۔ واشنگٹن کے سفارتی عملے میں سے کسی نے عمارت پر کام شروع کرانے سے پہلے سب بائی لاز پڑھنے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں‘ کی زحمت گوارا نہیں کی۔بس ڈالرز بینک سے پکڑے اور خرچ کرنا شروع کر دیے۔ پھر جب کونسل نے نوٹس لیا تو یہ کام روک دیا گیااور عمارت کو پھر سے خالی چھوڑ دیا گیا جبکہ بینک کا قرضہ سود سمیت ادا ہوتا رہا۔
واشنگٹن کا سفارتی عملہ اس دن نیند سے جاگا جب ایک دن اُسے مقامی کونسل کی طرف سے ایک خط ملا جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ چونکہ یہ عمارتیں پچھلے پندرہ برس سے خالی پڑی ہیں لہٰذا اب ان پر سفارتی قوانین لاگو نہیں ہوتے‘ اس لیے اب ان عمارتوں پر ٹیکس لاگو ہو گا۔ پہلی قسط کے طور پر کہا گیا کہ فوراً اسّی ہزار ڈالرز ٹیکس ادا کریں۔ اس پر پہلی دفعہ اسلام آباد فارن آفس سے رابطہ کیا گیا اور کہا گیا کہ فوری طور پر ہمیں ڈالرز دیں تاکہ ادائیگی کر سکیں۔ یوں اُنیس برس بعد فارن آفس میں سوچا گیا کہ اب ان عمارتوں کا ہم نے کیا کرنا ہے۔ ستر لاکھ ڈالرز کے قرض سے بھی چالیس لاکھ ڈالرز آرائش کے نام پر پہلے ضائع ہو چکے تھے۔ قرض اب بھی باقی تھا۔
اس دوران واشنگٹن کی مقامی کونسل نے بھی ہر سال ٹیکس بھیجنا شروع کر دیا ۔تازہ ترین اطلاع کے مطابق ان کا ٹیکس تقریباً 13 لاکھ ڈالرز بن چکا تھا۔ کونسل نے پاکستانی سفارت خانے کو لکھ بھیجا کہ اگر فوری طور پر یہ ادائیگی نہ کی گئی تو وہ عمارتوں کو نیلام کرکے اس پر لگنے والے ٹیکس کی خود کٹوتی کر لیں گے۔
اس پر فارن آفس نے حکومت کو تجویز دی کہ بہتر ہے ان دونوں عمارتوں کو بیچ دیا جائے۔ اس پر چند وزارتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی گئی کہ وہ فیصلہ کریں کہ ان عمارت کا کیا کرنا اور اسے کیسے بیچنا ہے۔2021ء میں عمران خان حکومت کے دور میں اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے لیکن معاملہ فائنل نہ ہو سکا۔ اب 30نومبر 2022ء کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں فارن سیکرٹری ایک سمری لائے جس میں ان دونوں عمارتوں کو فروخت کرنے کے پلان کی منظوری مانگی گئی۔ بتایا گیا کہ یہ عمارتیں انیس برس سے خالی پڑی ہیں۔ اسے بیچنے کے لیے ایمبیسی نے 45 لاکھ ڈالرز قیمت مانگی تھی لیکن چھ پارٹیوں میں سے ایک پارٹی اب 68 لاکھ ڈالرز دینے کو تیار ہے۔ اسے بیچ کر پہلے کونسل کا 13 لاکھ ٹیکس دیا جائے گا۔ ان عمارتوں کی آرائش کے لیے جو ستر لاکھ قرض 2010ء میں لیا گیا تھا اس کے 14لاکھ ڈالرز بھی واجب الادا ہیں۔ یوں 27لاکھ ڈالرز واشنگٹن کونسل اور بینک قرضہ واپس کرکے باقی جو 41 لاکھ ڈالرز بچتے ہیں وہ پاکستان بھجوا دیں گے۔
اس پر کابینہ میں شامل چند وزیروں نے رولا ڈال دیا اور شہباز شریف کو کہا: آپ اس عمارت کی فروخت کی اجازت نہ دیں۔ یہ ہم پاکستانیون کے لیے فخر کی بات ہے کہ ہمارے ملک کی بیرونِ ملک کچھ جائیدادیں پڑی ہیں۔ ان برے حالات میں یہ خیال بھی بہت ہے کہ ہم بیرونِ ملک کچھ جائیدادوں کے مالک ہیں۔ اس کے علاوہ ان وزیروں کا کہنا تھا کہ عوام اور میڈیا میں اس کا تاثر اچھا نہیں جائے گا کہ شہباز شریف حکومت اب اندرونی کے بعد بیرون ملک جائیدادیں اور سفارتی عمارتیں بیچ رہی ہے لیکن باقی وزیروں کا خیال تھا کہ نہیں‘ انہیں بیچ دیں اور جو قیمت مل رہی ہے وہ لے کر جان چھڑائیں کیونکہ اس پر اب جرمانے اور ٹیکس اور قرضوں کا سود پڑرہا ہے۔ یوں شہباز شریف نے ان عمارتوں کی فروخت کی منظوری دے دی۔ بتایا جارہا ہے یہ عمارتیں اس علاقے میں واقع ہیں جہاں امریکی صدر براک اوباما‘ ٹرمپ کی بیٹی اور چند دوسرے ارب پتیوں کے گھر بھی ہیں۔
ویسے داد دیں اس عظیم سفارت کار کو جسے 2003ء میں یہ بلڈنگز خالی کرکے کہیں اور شفٹ ہونے کا خیال آیا اور پھر اس سفارت کار کو بھی جس نے 2010ء میں اس عمارت کی آرائش کے نام پر ستر لاکھ ڈالرز کا قرضہ لیا جو ہم آج تک واپس کررہے ہیں۔ اس عمارت کی فروخت سے ہونے والی پچاس فیصد انکم تو واشنگٹن کونسل کے جرمانوں اور آرائش کی غرض سے لیے گئے قرضے کی سود سمیت ادائیگی پر خرچ ہوگئی۔ اندازہ کریں کہ 70لاکھ ڈالرز بینک سے قرضہ لیا گیا کہ ان عمارتوں کی آرائش کریں گے‘ اب 68 لاکھ ڈالر میں عمارت بیچی جا رہی ہے۔