بنوں میں جس طرح زیرتفتیش دہشت گردوں کے ہاتھوں خیبر پختونخوا کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار اور افسران یرغمال بنے وہ اپنی جگہ ایک کلاسک واقعہ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان اہلکاروں میں سے کسی کو ان پر ترس آگیا ہو اور خود کو ہی یرغمال بنوانے کی پیشکش کی ہو اور یہ ایسی انہونی بات نہیں ہے لوگ تھریٹ یا لالچ میں آکر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
یہ کیسی تفتیش ہورہی تھی کہ ملزمان نے الٹا ان افسران اور اہلکاروں کو پکڑ کر باندھ لیا اور اب وہاں خون کی ہولی کھیلی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک سال پہلے تک اکثر پاکستانی کابل میں طالبان کی فتح پر نعرے ماررہے تھے اور ملک بھر میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔ اس وقت بھی کچھ لوگوں نے خبردار کرنے کی کوشش کی تھی کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد یقینی طور پر پاکستان پر اثر پڑے گا۔ پاکستانی طالبان جو آپریشن کے بعد تتر بتر ہوگئے تھے اور حوصلہ ہار بیٹھے تھے وہ بھی اس فتح سے حوصلہ پکڑیں گے کہ اگر بقول عمران خان کے‘ افغان طالبان امریکہ جیسی سپر پاور کو شکست دے سکتے ہیں تو یہ کام پاکستانی طالبان کیوں نہیں کرسکتے ؟
یوں ہم نے دیکھا کہ جنرل فیض حمید کابل کی فتح کے بعد کابل کے ہوٹل میں چائے پی رہے تھے۔ مسکراہٹ بڑی واضح تھی۔ اس پر بھی اُس وقت کافی سوالات اٹھے کہ آیا اس موقع پرجب پوری مغربی دنیا، امریکہ اورافغان عوام ڈھونڈ رہے تھے کہ اس کابل فال کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے‘ ہم نے پوری دنیا کو کھڑے ہو کر ہاتھ کے اشاروں سے بلا کر کہا: بھائی! ہم نے یہ سب کیا ہے‘ ہمیں داد دو جناب!اگر کسر رہ گئی تھی تو وزیراعظم عمران خان نے خوشی سے طالبان کے حق میں بیانات داغے اور امریکی شکست پر واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھ کر امریکیوں کی شکست پر خوشی کا اظہار کیا۔ ہماری پوری قوم مست تھی کہ اب افغانستان ہمارا پانچواں صوبہ بن گیا جس کی کوشش ضیا دور سے شروع ہوئی۔اب وہی طالبان دوبارہ پاکستان کے لیے ایک بڑا تھریٹ بن کر ابھرے ہیں۔ اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ ان برسوں کی قتل و غارت سے ہم سب نے کیا سیکھا ہے۔ اب جب سے افغانستان میں طالبان آئے ہیں ساری ذمہ داری پاکستان پر آن پڑی ہے۔ ان کے سب مسائل اب ہمیں سنبھالنے پڑ رہے ہیں اور اب تو یہ کوئی راز نہیں رہا کہ ایک سال سے ڈالروں کی سمگلنگ افغانستان کو جاری ہے۔ پاکستانی مارکیٹس سے ڈالرز خرید کر افغانستان بھیجے جارہے ہیں۔ افغانستان کے لیے سب سپلائی کے آرڈرز بھی پاکستان سے ہورہے ہیں۔ اس سے پہلے افغانستان میں پاکستان سے لوگ مزدوری کرنے جارہے تھے اور الٹا وہاں سے ڈالرز پاکستان آرہے تھے کیونکہ وہاں موجود کنٹریکٹرز اور دیگر کمپنیاں نہ صرف افغانوں کو نوکریاں دے رہی تھیں بلکہ پاکستانی مزدور اور دیگر کام کرنے والے بھی اچھے بھلے معاوضے پر وہاں کام کررہے تھے۔وہ افغان لوگوں کے سب معاملات ہینڈل کررہے تھے۔
اچانک طالبان کے کنٹرول کے بعد سب یورپی اور امریکی کمپنیاں اور کنڑیکٹرز افغانستان چھوڑ گئے اور اب وہاں قحط کی سی صورتحال ہے۔ اس سال اپریل میں خبر آئی تھی کہ افغانستان کے سوداگروں نے پنجاب کے جنوبی اضلاع میں کھڑی گندم کی فصلیں ایڈوانس زیادہ پیسے دے کر خرید لی تھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس سال اب چار لاکھ ٹن گندم باہر سے ڈالرز دے کر منگوائی جارہی ہے۔ باقی اشیاکی سمگلنگ اپنی جگہ۔
خیر میں اس حق میں ہوں کہ عام افغان بے چارے کا کوئی قصور نہیں اور ہم لوگوں نے ہی افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کی کوشش کی تھی اور ان کی زندگیاں تنگ ہوئیں لہٰذا ان سب افغان بھائیوں کی خوراک کی ضروریات پوری کرنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔لیکن سوال یہ ہے ہمیں افغانستان میں اتنے برسوں تک مداخلت کر کے کیا ملا؟
پاکستانی عوام کو بتایا گیا تھا کہ طالبان کے آنے سے پاکستان میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘ ہماری مغربی سرحد محفوظ ہو جائے گی اور بھارت افغانستان کی زمین ہمارے خلاف استعمال نہیں کر سکے گا۔ مغربی سرحدوں پر بیس برسوں سے ہونے والے ہمارے اخراجات کم ہوں گے اور پاکستان کے اندر قتل وغارت نہیں ہوگی۔ پہلے کی طرح اسّی ہزار پاکستانی نہیں مارے جائیں گے۔ ہمارے ہاں خوشیاں منائی گئیں۔
گزشتہ رات میں اپنے پروگرام میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل(ر) جاوید اشرف قاضی سے فون پر بات کررہاتھا تو بنوں میں ہونے والے واقعہ پر بات ہونے لگی۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ ہم تو بڑے خوش بیٹھے تھے کہ اب افغانستان میں ہمارے بھائی لوگ آگئے ہیں اور مسئلہ ختم ہوگیا۔ ہم پاکستانیوں نے تو خوشیاں تک منا لیں۔ اب کیا کریں کیونکہ ہمارے والے طالبان کو تو ساری سپورٹ افغانستان سے مل رہی ہے۔ کیا بنا ہمارے منصوبوں اور سٹرٹیجک ڈیپتھ کا؟
سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل(ر) جاوید اشرف قاضی نے انکشاف کیا کہ یہ دہشت گرد افغانستان سے آئے ہیں۔ انہوں نے سرحد پر لگی باڑ کو کاٹا اور اندر گھس آئے ہیں اور اب کارروائیاں کرنے لگ گئے ہیں۔میں نے پوچھا: تو کیا ہم سہل پسند ہوگئے ہیں کہ اب ہمارے ہمسائے میں دوست آگئے ہیں لہٰذا سرحد سے لے کر اندر پاکستان تک‘ سب سکون ہی سکون ہو گا۔ ہم تو ان طالبان کی آمد کی خوشیاں منا رہے تھے۔جنرل قاضی بولے: میرا خیال ہے ہم پاکستانیوں نے طالبان کی کابل فتح پر جلدی خوشیاں منا لی تھیں۔ ہمیں اتنا خوش نہیں ہونا چاہئے تھا۔
ان پچھلے چالیس سالوں کی پاکستان کی افغان پالیسی کا اس سے بہتر تجزیہ نہیں ہوسکتا تھا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی خود کہہ رہے تھے کہ ہم خوشیاں منانے میں جلدی کر گئے۔ وہ بتانے لگے کہ آپ کو ان طالبان کے ساتھ پھر بہت سختی کرنی پڑے گی ورنہ بہت نقصان ہوگا۔ویسے تو پچھلے تین چار سال میں دیکھا‘جب جنرل باجوہ اور جنرل فیض طالبان کے ساتھ مذاکرات اور دوستی کی کوشش کررہے تھے۔ اب 29نومبرکو‘ اسی روزطالبان نے وہ سیز فائر ختم کر دیا جس دن جنرل باجوہ ریٹائر ہوکر گھر چلے گئے۔
چالیس سال افغانستان اور پاکستان میں جاری جنگ وجدل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم وہیں جا کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ ہم نے دشمن مشرقی سرحد پر بنا رکھا ہے جبکہ مضبوط ہم مغربی باڈرز کرتے رہے ہیں کہ کہیں سے بھارت افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ کرسکے۔ اسی لیے ہم کابل پر طالبان لانے کی کوششیں بھی کرتے رہے اور اس کا اندازہ تک نہیں کہ ہمارے کتنے وسائل خرچ ہوگئے، کتنے فوجیوں نے جانیں دیں اور اربوں کھربوں کی وہاں سرحد پر باڑ لگائی گئی۔ وہاں فوجی آپریشن کیے گئے۔ لاکھوں قبائلی دردبدر ہوئے جو وہاں سے شفٹ ہو کر پورے پاکستان میں پھیل گئے۔پورے ملک نے اس پالیسی کے نتائج بھگتے اور ہمیں بتایا جاتا رہا کہ صبر کریں بس طالبان کو کابل میں آنے دیں پھر آپ دیکھیے گا کہ ہم کیسے پُرسکون زندگی گزارتے ہیں اوراب سارا فوکس بھارت پر ہوگا۔
اس سے بہتر تھا کہ ہم ان چالیس سال میں سارا فوکس بھارت پر کر کے تعلقات ٹھیک کر لیتے جس وجہ سے ہمیں طالبان کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ لیکن کیا کریں ہم نے پیاز بھی کھانے ہیں اور ڈنڈے بھی۔ ہم جیسا کوئی سمجھدار ہو تو بتائیں۔
دو سال پہلے ہم امریکہ‘ چین اور ایران‘ سعودی عرب کی آپس میں صلح کرا رہے تھے۔ ہماری اپنی یہ حالت ہے۔ خوداعتمادی ہو تو ایسی...!