بیرونِ ملک سے ایک اہم سرکاری افسر کا میسج آیا۔ ملک سے باہر‘ وہ مجھے کاشف عباسی کے شو میں دیکھ اور سن رہے تھے۔ ہم سب اُس وقت سیاسی حالات پر تبصرہ کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا: آپ کن سیاسی ایشوز کی بحث میں پڑ گئے ہیں‘ اِس وقت ملک کی معاشی حالت بہت خراب ہے، ہمارے پاس ادائیگیوں کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے بقول ہم عملاً ڈیفالٹ کر چکے ہیں‘ اب مانگ تانگ کر بھی گزارہ نہیں ہوگا۔ باقی چھوڑیں‘ (قومی اسمبلی میں وزارتِ پارلیمانی امور کی طرف سے پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق) اب تو الیکشن کرانے کے لیے جو 60 ارب درکار ہیں‘ وہ بھی نہیں ہیں ہمارے پاس۔ ان کا میسج پروگرام کے درمیان ملا اور وہ پورا پڑھ کر میں بھول گیا کہ میں نے سیاست پر کیا اور کیسے گفتگو کرنی ہے۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ انہیں کیا جواب دوں۔ انہیں کیا بتاؤں کہ ہم نے اس ملک میں اپنی اپنی مرضی کے لٹیرے چن رکھے ہیں۔ ہمارے سیاسی دیوتاؤں پر کوئی بات کرے تو ہمارے تن من میں آگ لگ جاتی ہے۔ جب ان لیڈروں کو ایسے عوام ملے ہوئے ہیں تو وہ کیونکر اس ملک کو بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔
دنیا نے کتنی دفعہ کوشش کی ہے کہ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے۔ امریکی کہتے ہیں کہ وہ اب تک پاکستان کو اسی‘ نوے ارب ڈالرز کی گرانٹ دے چکے ہیں۔ گرانٹ کا مطلب قرضہ نہیں بلکہ مفت پیسے ہیں۔ ہم فرماتے ہیں کہ جناب‘ ہم نے وہ سارا پیسہ جنگ پر لگا دیا۔ اس کے علاوہ ہم اب تک تقریباً 130ارب ڈالرز کا قرضہ لے چکے ہیں‘ جو واپس کرنا ہے۔ پرانا قرضہ ادا کرنا تو کجا ہم تو الٹا نئے قرضے مانگتے پھر رہے ہیں۔ ویسے اوقات دیکھیں اور اکڑ دیکھیں‘ جس کا کوئی جواب نہیں۔ بھیک ‘ قرضے اور رعایتیں بھی ہم نے اپنی شرائط پر لینی ہیں۔ یورپی یونین نے پاکستانی ایکسپورٹرز کو اپنی منڈیوں میں سستا مال بیچنے کے لیے جی پلس کا سٹیٹس برسوں سے دے رکھا ہے تاکہ پاکستان ان کی مارکیٹوں سے زیادہ ڈالر کما سکے۔ ہمارے سابق وزیراعظم ان کے خلاف جلسوں میں تقریریں کرتے پھرتے تھے کہ ہم سے یوکرین پر روسی حملے کے خلاف ووٹ دینے کو کیوں کہا۔ چینی ہمارے لیے سی پیک لائے تاکہ ہمارا بنیادی انفراسٹرکچر ٹھیک ہو تو ان سے بھی ہمارے پنگے شروع ہوگئے اور آخر وہ سی پیک کو پیک کرکے چلے گئے۔ سعودیوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں سب سے بڑی آئل ریفائنری لگائیں گے اور اُن سے مالی امداد لینے کے بعد ہم نے اُن کے ساتھ بھی سینگ پھنسا لیے۔ ویسے دنیا کا کون سا ملک ہوگا جس کے ساتھ ہمارے پھڈے نہیں چل رہے تھے۔
ایک طرف ہم نے ان سے امداد لینی ہے اور پھر انہی سے لڑنا بھی ہے۔ بہت سارے لوگ کہیں گے کہ ہمیں خودمختاری لینی ہے۔ تو لے لیں‘ کس نے منع کیا ہے۔ ہلیری کلنٹن نے پاکستان میں کھڑے ہوکر ایک سوال کے جواب میں کہا تھاکہ آپ لوگ ہمیں ہر وقت طعنہ دیتے ہیں ‘ تو نہ لیا کریں ڈالرز ہم سے۔ ڈالرز بھی لیتے ہیں اور ہمارے اوپر سواری بھی کرتے ہیں کہ ہم آپ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کون سی مفت جنگ لڑتے ہیں۔ ہمارے پاس بڑے اچھے اچھے مواقع آئے ہیں جب ڈالروں کی بھرمار تھی‘ چاہے وہ صدر ضیا کا دور ہو یا پرویز مشرف کا۔ کیا ہم نے کبھی پلان بنایا کہ ہم مستقل بنیادوں پر اپنے ملک میں ایسی فیکٹریاں لگائیں جو امپورٹ کے بجائے ایکسپورٹ پر انحصار کریں اور ملک کو ڈالرز لا کر دیں۔ یہ بات طے ہے کہ دنیا بھر سے ایکسپورٹ ڈیوٹی اور ٹیکسز میں رعایتیں لینے کے باوجود ہمارے ایکسپورٹرز کے پاس بیچنے کو کچھ نہیں ہے۔ وہی دھاگا‘ وہی لومز اور چند ٹیکسٹائل یونٹس جو کچھ ایکسپورٹ کرتے ہیں‘ وہ اب رئیل اسٹیٹ ایجنٹ بن چکے ہیں کہ یہاں پیسہ بڑا ہے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران روپے کی گراوٹ کے باوجود بھی آپ صرف تیس‘ اکتیس ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ کر سکے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے اندر اتنی ہی گنجائش ہے۔ آپ روپیہ مزیدبھی گرا دیں تو بھی آپ کا ایکسپورٹر اس سے زیادہ ڈالرز نہیں کما سکتا۔ اگر وہ کما بھی رہا ہے تو وہ پاکستان واپس نہیں لا رہا کیونکہ اسے چھ ماہ تک اجازت ہے کہ وہ ایکسپورٹ سے کمائے ڈالرز بیرونِ ملک رکھ سکتا ہے۔ چھ ماہ تک اس سے نہیں پوچھا جائے گا۔ وہ اب انتظار کررہا ہے کہ ڈالرز پاکستان میں تین سو روپے تک جائے گا تو وہ ڈالر یہاں لائے گا تاکہ اربوں کما لے۔ ملک کا بیٹرا غرق ہو‘ اسے کوئی پروا نہیں ہے۔ یہ کام صرف ایکسپورٹر ہی نہیں‘ اوورسیز پاکستانی بھی کررہے ہیں۔ وہ اب ہنڈی کے ذریعے ڈالر بھیج رہے ہیں۔ ہنڈی والے ڈالرز خریدنے کیلئے ہر منی ایکسچینج کے باہر لوگ موجود ہیں تاکہ وہ یہ ڈالر افغانستان سمگل کر سکیں۔ جو دس بارہ روپے اوپر ریٹ دے کر دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں۔ پچھلے دنوں کسی دوست کو ٹریول کرنے کیلئے کچھ ڈالرز درکار تھے۔ ایک منی ایکسچینجر کے پاس اسے لے گیا تو وہ سنجیدگی سے مجھے پوچھتا ہے: سر جی کیا بنے گا؟ حالات روز بروز بگڑ رہے ہیں‘ ڈالر نہیں مل رہا۔ ایسے سوالات کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ سے وہ زیادہ ریٹ وصول کرے۔ میں نے کہا: بھائی جان! آپ لوگ یہی ڈالرز سمگلروں کو بیچ کر پانچ دس روپے ایک ڈالر سے کما کر مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ہمارا کیا بنے گا؟ سب سے زیادہ ذمہ داری تو اس وقت آپ لوگوں پر ہے کہ ڈالروں کی سمگلنگ میں شامل نہ ہوں۔ آپ خود تو قربانی دینے کو تیار نہیں‘ چاہے ملک ڈوب جائے۔ میں نے کہا: اگر اس ملک کو کچھ ہوا تو نہ آپ کی دکان رہے گی‘ نہ آپ کا کاروبار۔ ایک سیانا بندہ کچھ نہ کچھ پیچھے بھی رہنے دیتا ہے۔ آپ سب لوگ مل کر سب سمیٹ رہے ہیں تو تسلی رکھیں‘ نقصان آپ کا ہی ہوگا۔
دوسری طرف جن حکمرانوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم بڑے تجربے کار ہیں‘ وہ اپنی تجربہ کاری کو بروئے کار لا کر اپنے ماضی کے سکینڈلز دھڑا دھڑ سیٹل کرنے میں مصروف ہیں۔ نیب قوانین میں تبدیلی کرنے کے بعد کام بہت آسان ہوگیا ہے۔ اب روزانہ کی بنیاد پر احتساب عدالتوں سے ریفرنس واپس ہورہے ہیں کہ جناب اب ہم نئے قانون کے تحت اسے سن نہیں سکتے۔ حکمرانوں کے اپنے اللے تللوں میں کمی کے بجائے تیزی آگئی ہے۔ شہباز شریف کی کابینہ اور مشیروں کی تعداد 80کے قریب پہنچ گئی ہے۔ ہر روز ایک نیا مشیر اور اس کے اخراجات۔ پنجاب میں تو خزانوں کے منہ اپنے دوستوں پر کھول دیے گئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کہاں سے لگتا ہے اس ملک کو ڈیفالٹ کا سامنا ہے۔
زرداری سے لے کر ڈار تک‘ سب کا سب کچھ سیٹل ہورہا ہے۔ انہیں کوئی پروا نہیں کہ ملک کی اکانومی کا کیا بنے گا یا بن رہا ہے۔ جعلی اکاؤنٹس سکینڈل بھی سیٹل ہوگیا۔ اب ملک چلانے کا ایک ہی طریقہ ہے ان کے پاس کہ ہر دفعہ سعودی عرب‘ دبئی یا چین پہنچ جاؤ اور کچھ دن کے لیے کچھ مانگ تانگ کر لے آؤ اور قوم کا پیٹ بھرو۔ یہی کام عمران خان کررہے تھے اور یہی کام شہباز شریف کررہے ہیں۔ خان صاحب کہتے ہیں مجھے واپس لاؤ‘ ملک ٹھیک کر دوں گا۔ اگلے فرماتے ہیں کہ آپ تو دنیا کے سب اہم ملکوں سے لڑ کر گھر گئے تھے۔ ابھی کچھ دال دلیہ چل رہا ہے‘ آپ واپس آئے تو وہ بھی نہیں ملے گا۔ آئی ایم ایف‘ سعودی عرب آپ سے ناراض‘ امریکہ‘ یورپ کو آپ نے ناراض کر دیا‘ چینی آپ سے ناراض تھے۔ ان ملکوں کے بغیر ہماری دال روٹی نہیں چلتی۔ اس ملک کی قسمت میں سکوں نہیں ہے اور یقیں کریں اس کی پروا ہم وحشیوں کو بھی نہیں۔ انشا جی کا وہی مصرع یاد آتا ہے کہ:
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب