دو دن پہلے سینیٹ کی پٹرولیم کمیٹی کا اجلاس تھا۔ عمران مگھرانہ‘ جو میرے ساتھ ہوتے ہیں‘ نے اجلاس کا ایجنڈا بھیجا تو بہت اہم ایشوز تھے جو زیر بحث آنے تھے۔ ساری سستی ایک سائیڈ پر رکھی اور تیار ہو کر اجلاس شروع ہونے سے دس منٹ پہلے پہنچ گیا۔ کمیٹی روم میں اس وقت صرف دو لیڈی سینیٹر زتھیں‘ سعدیہ عباسی اور رخسانہ زبیری۔ مرد سینیٹرز کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا۔ چیئرمین کمیٹی بھی نہیں تھے۔ رولز کے تحت تین ممبروں کا کورم بنتا ہے۔ اب تین سینیٹرز بھی پورے نہیں ہو رہے تھے۔ پندرہ بیس منٹ گزر گئے۔ پٹرولیم سیکرٹری اور دو درجن سے زیادہ مختلف اداروں کے سربراہ اور ان کا سرکاری سٹاف میٹنگ روم میں بیٹھے انتظار کررہے تھے کہ کب سینیٹرز آئیں اور اجلاس شروع ہو۔ اس اجلاس میں کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد سے PSO‘ SSGC‘ SNGPL اور OGDCکے اعلیٰ افسران شریک تھے۔ اس کے علاوہ ایجنڈے پر موجود ایشوز پر بات کرنے کے لیے PMDCکے اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔ ان سب کی تعداد تقریباً تیس سے چالیس ہوگی۔ اس کے علاوہ درجن بھر میڈیا کے لوگ بھی موجود تھے۔ سینیٹ سیکرٹریٹ کا سٹاف اور سکیورٹی پر مامور اہلکار الگ تھے۔ مطلب تقریباً پچاس کے قریب لوگ وہاں بیٹھے انتظار کررہے ہیں۔ صرف دو سینیٹرز موجود ہیں اور جب تک ایک اور سینیٹر اور چیئرمین نہیں آتے‘ اجلاس شروع نہیں ہو سکتا۔اب پندرہ بیس منٹ بعد ایک اور سینیٹر تشریف لاتے ہیں اور پھر چیئرمین کمیٹی آتے ہیں۔ یوں اب تین سینیٹرز کی موجودگی میں اجلاس شروع ہو سکتا ہے حالانکہ اس کمیٹی کے کل ممبران چودہ ہیں‘ جن میں پٹرولیم کے وزیر بھی شامل ہیں۔ بڑی مشکل سے تین سینیٹرز پورے ہوئے تاکہ اجلاس شروع ہو سکے۔
اب ذرا ایجنڈا ملاحظہ فرمائیں کہ اس اجلاس میں کن کن موضوعات پر بات ہونی ہے جس پر ان تین سینیٹرز کو بریف کرنے کے لیے درجنوں افسران سب کام چھوڑ کر موجود ہیں۔ پٹرولیم بل 2022ء میں کچھ اہم ترامیم ہونی ہیں۔ ایل پی جی ریٹس پر بھی کمیٹی کو افسران نے بریف کرنا ہے۔ کم آمدن والے طبقے کے لیے سستا فیول فراہم کرنے پر بھی بات ہونی ہے۔ آئل اور گیس کمیٹی نے جن تین فیلڈز پر دسمبر 2022ء کے اجلاس میں ہدایات دی تھیں‘ ان پر پراگریس کے حوالے سے بھی کمیٹی ممبران کو بریف کرنا تھا جس میں جھل مگسی فیلڈ بھی شامل تھا۔ سب سے اہم ایجنڈا یہ تھا کہ وزارتِ پٹرولیم کو جاپانی کمپنی نے پیشکش کی ہے کہ وہ پاکستان کو روسی تیل اور نائیجیرین ایل این جی عالمی مارکیٹ ریٹ سے 35فیصد کم ریٹ پر فراہم کرنے کو تیار ہے۔ سینیٹرز کو اس بات پر بھی بریف کرنا تھا کہ پی ایس او‘ SSGC‘ SNGPLاور OGDCکا سرکلر ڈیٹ کیسے کم کرنا ہے جو اس وقت پورے آئل اور گیس سیکٹر کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔ جو سب سے بڑا ایشو اجلاس میں اٹھایا جانا تھا وہ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں آئل ریفائنری کا قیام‘ دس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری اور اس منصوبے میں تاخیر کے عوامل پر بات کرنا تھا۔ایک اور اہم ٹاپک یہ تھا کہ پاکستان روس سے لانگ ٹرم بنیادوں پر آئل اور گیس خریداری کے کنٹریکٹس کیسے لے سکتا ہے تاکہ انرجی بحران کو مستقل بنیادوں پر کم کیا جا سکے۔ اب ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ مذکورہ اجلاس میں پاکستان کے ان اہم ایشوز پر کیا بات ہوئی۔ اجلاس شروع ہوتے ہی پٹرولیم بل پر ایک افسر نے بریفنگ شروع کی۔ چند منٹ گزرے ہوں گے کہ پی ٹی آئی کے دو سینیٹرز آئے اور دو تین منٹ بعد انہوں نے اس بریفنگ کو روک دیا اور کہا کہ پہلے یہ بتایا جائے کہ متعلقہ وزیر کہاں ہیں؟ انہیں بتایا گیا وہ کسی کانفرنس کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں۔ پھر یہ بات شروع ہو گئی کہ وہ وزیر پہلے بھی دو‘ تین اجلاسوں میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ کمیٹی کی توہین ہے۔ اس پر سیکرٹری پٹرولیم نے کہا: سر وزیرصاحب اور کمیٹی کے درمیان کوئی پرانا ایشو چل رہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ لوگ آپس میں بیٹھ کر وہ معاملہ طے کر لیں‘ اس سے معاملات سلجھ سکتے ہیں۔ان الفاظ پر پی ٹی آئی سینیٹرز بھڑک اٹھے۔ سیکرٹری اور ان سینیٹرز کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ شروع ہوگیا۔
سیکرٹری نے کہہ دیا: آپ مجھے براہِ راست رگڑنے کے بجائے کمیٹی چیئرمین کو ایڈریس کریں کیونکہ رولز آف بزنس یہی کہتے ہیں تاکہ آپس میں کراس ٹاک نہ ہو ۔ سیکرٹری پٹرولیم بھی احتیاط کا دامن چھوڑ چکے تھے۔ سینیٹرز پہلے سے غصے میں تھے‘ یوں اجلاس میں شاؤٹنگ میچ شروع ہوگیا۔ پتا چلا وزیر مملکت برائے توانائی مصدق ملک کے اجلاس میں نہ آنے کی وجہ‘ چند ماہ پہلے کا وہ اہم اجلاس تھا جس میں سندھ سے سینیٹر ابڑو کے ساتھ ان کی تلخ کلامی ہوئی تھی اور سینیٹر نے انہیں کہا تھا کہ آپ وزیرمملکت ہیں‘ آپ اجلاس میں نہیں آسکتے۔ صرف وفاقی وزیر آسکتا ہے۔ اس سے پہلے مصدق ملک اجلاس میں شریک ہوتے تھے اور سینیٹرز کو اچھی طرح بریف کرتے اور سوالات کے تسلی بخش جوابات دیتے تھے۔ جب انہیں کہا گیا کہ وہ اجلاس میں شریک نہیں ہو سکتے تو انہوں نے اجلاس میں آنے سے معذرت کر لی۔ انکا کہنا تھا کہ پہلے سینیٹرز طے کر لیں کہ وہ اجلاس میں شریک ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ اس بات کی طرف اب سیکرٹری پٹرولیم نے اشارہ کیا تھا جس پر پی ٹی آئی سینیٹرز بھڑک اٹھے تھے۔
دراصل مصدق ملک نے اس اجلاس میں انکشاف کیا تھا کہ جب اسد عمر وزیر تھے تو اس وقت ایل این جی تین ڈالر کے حساب سے مل رہی تھی لیکن انہوں نے وزارتِ پٹرولیم کو خط لکھ کر روک دیا تھا کہ وہ اس ریٹ پر ایل این جی نہ خریدیں۔ وزارت کے افسران پٹتے رہ گئے کہ سر بہت سستی مل رہی ہے‘ خریدنے دیں۔ مصدق ملک کی وزارت کے افسران کا اجلاس میں کہنا تھا کہ اسد عمر نے سستی ایل این جی خریدنے سے روک دیا تھا۔ مصدق ملک نے اجلاس کو بتایا کہ جو ایل این جی تین ڈالر کے حساب سے مل رہی تھی کچھ عرصے بعدوہ 41 ڈالرز کے حساب سے خریدی گئی اور پاکستان نے کئی کروڑ ڈالرز زیادہ ادا کیے اور پاکستانیوں کو بھی وہ گیس مہنگے داموں بیچی گئی کیونکہ مہنگی ملی تھی۔ اگرچہ اسد عمر اس خط سے یکسر انکار کرتے رہے ہیں؛ تاہم وزارت کے افسران کا اجلاس میں کہنا تھا کہ وہ خط ان کے پاس موجود تھا‘ جب انہیں تین ڈالر کے حساب سے ایل این جی کا کارگو شپ نہیں خریدنے دیا گیا اور بعد ازاں 41 ڈالرز میں خریدا گیا۔ شاید اس انکشاف کے بعد پی ٹی آئی سینیٹرز مصدق ملک اور ان کی وزارت کے افسران کے دشمن ہو گئے تھے۔ ابڑو بھی پی ٹی آئی کے سینیٹر تھے‘ جنہوں نے مصدق ملک کو کہا تھا کہ آپ اجلاس میں نہ آیا کریں اور وہ آنا چھوڑ گئے۔
ابھی اجلاس چند منٹ چلا ہوگا کہ ایک سینیٹر کھڑے ہوئے کہ میں احتجاجاً واک آئوٹ کررہا ہوں‘ پھر دوسرے دو بھی کھڑے ہوئے اور چل دیے۔ کورم ٹوٹ گیا۔ سینیٹر رخسانہ زبیری چیئرمین سے لڑتی رہیں کہ اجلاس مت ملتوی کریں۔ وہ کراچی سے فلائٹ لے کر عوام کے پیسے لگا کر آئی ہیں۔ یہ سب افسران اپنے کام چھوڑ کر آئے ہیں۔ ٹی اے ڈی اے خرچ ہوا ہے۔ قوم کے لاکھوں روپے اس اجلاس پر لگے ہیں۔ پٹرولیم کمیٹی کے چیئرمین بھی پی ٹی آئی سینیٹر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے پارٹی سینیٹرز کے آگے بے بس ہیں۔ یہ اجلاس چند منٹ چلا۔ سب نے اپنا اپنا ٹی اے ڈی اے لیا۔ اتنا اہم ایجنڈا اور ایشوز سب ٹھس۔ یہ ہے ہماری حکمران کلاس کی اس ملک کے حالات درست کرنے کیلئے سنجیدگی۔ یہ ہیں آپ کے عظیم لیڈرز جنہوں نے اس ملک اور قوم کو عظیم بنانا ہے۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں