کانگریس کے چند بڑوں نے جب مرار جی ڈیسائی کو کامیابی سے رِنگ سے اٹھا کر باہر پھینک دیا تو اگلا مرحلہ یہ تھا کہ اب اندرا کو کیسے کنٹرول کیا جائے اور کون ایسا مرد ہوگا جو اندرا کو چلائے گا۔ اس کام کے لیے انہیں ایک موزوں شخص نظر آیا جس کا نام دنیش سنگھ تھا جو کبھی بھارت کی ایک ریاست کا راجہ تھا۔ ایک پڑھا لکھا اور خوبصورت راجہ۔ دنیشن سنگھ کو اندرا گاندھی کی پہلی کابینہ میں وزیرِ مملکت کا عہدہ دیا گیا۔ دھیرے دھیرے اندرا گاندھی دنیشن سنگھ پر اعتماد کرنے لگیں اور ایک دن وہ بھی آیا کہ ایک صدارتی حکم نامہ جاری کرایا گیا کہ وزیراعظم اسے کوئی بھی اہم کام سونپ سکتی ہیں۔ ابھی ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ دنیشن سنگھ کا اندرا کی حکومت میں اتنا اثر و رسوخ بڑھ گیا کہ پارلیمنٹ میں ایک دن گونج ابھری کہ اندرا گاندھی تو نام کی وزیراعظم ہیں‘ ہندوستان کا اصل وزیراعظم تو دنیشن سنگھ ہے۔ بلکہ بات تو یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ایک دفعہ کرشن مینن کو مورخ نے بتایا کہ اس نے سید محمود پروزیراعظم کو اپنی کتاب پیش کی تھی تو آگے سے کرشن منین نے بے ساختہ کہا: آپ کا مطلب ہے دنیشن سنگھ؟
حالت یہ ہو چکی تھی کہ اندرا گاندھی تک کوئی بھی کاغذ اس وقت نہیں جا سکتا تھا جب تک وہ کاغذ‘ دستاویز یا خط دنیشن سنگھ کی میز سے نہ گزر جاتا۔ اندرا کا دنیش سنگھ پر اعتماد بہت بڑھ چکا تھا اور وہ روزانہ اس کے ساتھ کئی گھنٹے گزارتی تھی۔ بعد میں یہ سرگوشیاں بھی سنی گئیں کہ اندرا گاندھی دنیشن سنگھ کے حسن کا شکار ہوگئی تھی اور وہ ان کا محبوب تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان افواہوں کو کوئی اور نہیں خود دنیشن سنگھ ہوا دے رہا تھا کہ وہ اندرا کے کتنے قریب جا چکا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ پارٹی کے اندر لوگ اس سے ڈر کر رہیں اور بیوروکریسی بھی مؤدب بنی رہے اور اس کے کسی کام میں رکاوٹ نہ ڈالے کہ وہ تو ایسا اہم بندہ تھا جس پر وزیراعظم عاشق تھی۔ جب یہ خبریں اندرا گاندھی تک پہنچیں کہ دنیش سنگھ تو اسے اپنی محبوبہ بنا کر اپنے کام نکلوا رہا ہے تو اندرا نے ایکشن لینے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران اندرا نے کچھ عرصہ وزیراعظم بن کر اعتماد بھی حاصل کر لیا تھا۔ دنیشن سنگھ کو بلا کر اندرا نے ایک بڑی ڈوز دی۔ ساتھ ہی اندرا نے سیکرٹری پی این ہسکر کو آگے کر دیا کہ وہ اب سب معاملات دیکھے گا۔ اندرا اپنے سیکرٹری پر مکمل اعتماد کرتی تھی۔ اس نے اسے اپنا ایڈوائز بنا دیا اور دنیشن سنگھ کا پتّا کاٹ دیا گیا۔
دنیشن سنگھ کے لیے یہ بڑی بے عزتی تھی کہ کہاں وہ اندرا کے ساتھ گھنٹوں گزارتا تھا اور خود کو وزیراعظم کا محبوب سمجھتا تھا اور کہاں اسے اچانک آسمان سے نیچے زمین پر پھینک دیا گیا تھا۔ فرسٹریشن کا شکار ہو کر دنیشن سنگھ نے کابینہ چھوڑنے کی دھمکی دے دی۔ اس کا خیال تھا اس کی ''پرانی محبوبہ‘‘ فوراً اسے منائے گی اور پرانا سٹیٹس بحال کر دے گی۔ جونہی اندرا کو پتا چلا کہ اس کا نام نہاد محبوب یہ دھمکیاں دیتا پھر رہا ہے تو اس نے دنیش کو مستعفی ہونے کا وقت ہی نہیں دیا۔ اس نے فوراً ایک حکم جاری کیا اور اس کا عہدہ واپس لے کر اسے وزارتِ خارجہ میں وزیرِ مملکت کا عہدہ دے دیا۔ دنیشن سنگھ وزارتِ خارجہ نہیں جانا چاہتا تھا۔ اندرا کو اس بات کا بخوبی علم تھا‘ اس لیے اس نے جان بوجھ کر اسے وہاں پھینکا جہاں اس کا خیال تھا کہ دنیشن کو زیادہ اذیت محسوس ہوگی۔سکارپین سٹار والی اندرا گاندھی کا وزیراعظم بننے کے بعد یہ پہلا بڑا قدم تھا۔ پیغام بڑا واضح تھا کہ جو اس کا راستہ کاٹے گا وہ اسے اپنے برتھ سٹار کے بچھو سائن کی طرح کاٹ کر رکھ دے گی۔
جنوری 1966ء بھارت کی تاریخ کا بدترین سال تھا۔ اتنا برا سال تو وزیراعظم نہرو اور وزیراعظم شاستری کے دور میں بھی نہیں آیا تھا۔ ہندوستان کے اکثر علاقوں میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے غلے کی شدید قلت ہوئی اور قحط کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ اس سے بھارت میں حالات خراب ہونا شروع ہوئے‘ خصوصاً کیرالا ریاست میں جہاں رائس فسادات شروع ہو گئے۔ مہنگائی بہت اوپر چلی گئی تھی‘ معیشت کا بیڑا غرق ہو رہا تھا اور ساتھ ہی بھارت کے پاس موجود ڈالرز تیزی سے ختم ہورہے تھے لہٰذا فوری طور پر باہر سے ڈالروں کے عوض گندم یا چاول بھی نہیں منگوائے جا سکتے تھے۔ابھی قحط والا مسئلہ ہی درپیش تھا کہ بھارتی پنجاب کے پنجابی بولنے والے کھڑے ہو گئے۔ وہ ایک الگ پنجابی سٹیٹ مانگ رہے تھے۔ پھر شمال مشرق میں ناگا لوگوں نے ہتھیار اٹھا لیے اور بھارت سے علیحدگی کا نعرہ لگانے لگے۔ عالمی سطح پر بھارت کے تعلقات امریکہ سے اس وقت سے خراب چلے آرہے تھے جب 1965ء کی جنگ میں پاکستان نے امریکی اسلحہ بھارتی فوجوں کے خلاف استعمال کیا تھا جس پر بھارت نے شدید ردِعمل دیا تھا۔ بھارت کا ماننا تھا کہ اگر امریکہ پاکستان کو اسلحہ نہ دیتا تو دونوں ملکوں میں کشمیر پر جنگ نہیں ہونی تھی۔ پاکستان کو جدید امریکی اسلحہ ملا تو اس کا حوصلہ بڑھ گیا اور اس نے سیدھا کشمیر پر حملہ کر دیا جس سے جنگ شروع ہو گئی اور بھارت نے عالمی بارڈر کراس کرکے لاہور کا رخ کیا تاکہ اس پر قبضہ کیا جا سکے۔ پھر بھارت کو ایک اور مسئلہ یوں درپیش آیا کہ امریکہ نے ویتنام میں بھی اپنی فوجیں بھیج دیں۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہت بگڑ چکے تھے۔ جب خوراک کی قلت عروج پر تھی‘ اسی دوران اندرا نے جے پور میں کانگریس کی کمیٹی سے خطاب کیا۔ اندرا نے اعلان کیا کہ جب تک کیرالا میں لوگوں کو چاول نہیں ملتے‘ وہ چاول نہیں کھائیں گی۔ ساتھ میں کانگریس کا خیال تھا کہ جن علاقوں میں یہ غذائی اجناس موجود ہیں وہاں سے قحط زدہ علاقوں میں بھیجی جائیں؛ تاہم اندرا اس قحط کی صورتحال کو ٹھیک طریقے سے ہینڈل نہ کر سکی۔ جب اندرا واپس دہلی گئی تو جے پور میں کی گئی تقریر اور فیصلوں کی وجہ سے اس پر شدید تنقید شروع ہوگئی۔
ایک دن اندرا نے اپنا دل کھول کر اپنی سہیلی پیوپل جیکار کے سامنے رکھ دیا کہ کیسے اس کی پھوپھی وجے لکشمی پنڈت نے بچپن سے ہی اس کی شخصیت تباہ کر دی تھی۔ وہ ہر وقت اسے ''بدصورت اور بیوقوف‘‘ کہہ کر بلاتی تھی۔ ان دو لفظوں نے اس کے اندر بہت توڑ پھوڑ کی‘ جس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہی تھی۔ اس کا سارا اعتماد اس کی پھوپھی نے ختم کر دیا تھا۔ اب جب کوئی اس کی مخالفت کرتا تھا یا اسے کسی مزاحمت کا سامنا ہوتا تھا تو اس کی زبان رُک جاتی تھی۔ وہ لُکنت کا شکار ہو جاتی تھی اور لڑائی سے پیچھے ہٹ جاتی تھی۔ اندرا نے پہلی دفعہ اپنے سہیلی کے سامنے انکشاف کیا کہ وہ اس وجہ سے پارلیمنٹ کے پہلے سیشن سے خوفزدہ تھی کہ اس کے مخالفین اسے روسٹ کر دیں گے۔ اور وہی ہوا جب سیشن شروع ہوا تو اندرا گاندھی کی حالت دیکھنے والی تھی۔
جب حالات اندرا کے ہاتھ سے نکلنا شروع ہوئے تو اس نے فیصلہ کیا وہ امریکہ کا دورہ کرے گی۔ اندرا گاندھی کو امریکہ سے ڈالرز اور گندم چاہیے تھی لیکن وہ چاہتی تھی کسی کو یہ بھی نہ لگے کہ وہ کشکول اٹھا کر امریکہ جا رہی ہے لیکن امریکی صدر جانسن وائٹ ہاؤس میں بیٹھا کچھ اور سوچ رہا تھا۔ اندرا کو ڈالرز اور گندم درکار تھی مگر امریکی صدر کو ایک شرارت سوجھ رہی تھی کہ شرمیلی وزیراعظم اندرا گاندھی کے سامنے وہ ایک دلچسپ شرط رکھے گا۔ دیکھتے ہیں کہ ڈالروں اور گندم کیلئے وہ یہ شرط پوری کرتی ہے یا نہیں؟ جانسن کے شرارتی ذہن میں جو چل رہا تھا وہ اندرا کیلئے بہت مشکلات پیدا کرنیوالا تھا۔ جانسن ابھی سے اندرا گاندھی کی اس حالت کا سوچ کر مسکرا رہا تھا۔(جاری)