"RKC" (space) message & send to 7575

بجلی مہنگی کیسے ہوئی ؟…(11)

چینی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسر کچھ دیر تک اپنی کمپنی کے بارے بریفنگ دیتے رہے۔وزیراعظم نواز شریف کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور واٹر اینڈ پاور کے وزیر خواجہ آصف سمیت دیگر وزرابھی اس بریفنگ میں موجود تھے۔ کمرے میں پن ڈراپ خاموشی تھی۔
خیر وزیراعظم نواز شریف نے چینی کمپنی کو انگریزی میں وہی پاکستان چین دوستی کے حوالے سے روایتی جملہ سنانا چاہا کہ شہد سے زیادہ میٹھی‘ ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے زیادہ گہری تو وہ حسب ِمعمول اٹک گئے۔ شہباز شریف جو اِن مواقع پر اُن کے قریب موجود ہوتے ہیں انہوں نے فورا ًجملہ پورا اور درست بول کر بڑے بھائی کو سرگوشی کی۔یہ بات میں نے لندن میں بھی محسوس کی تھی کہ نواز شریف بعض دفعہ گفتگو کرتے کرتے رک جاتے‘ کوئی فقرہ یا جملہ بھول جاتے تو مدد کے لیے ادھر اُدھر دیکھتے‘اس موقع پر لندن میں ہمیشہ شہباز شریف اور پرویز رشید لقمہ دیتے اور میاں صاحب آگے چل پڑتے تھے۔ یہ سلسلہ شاید اب تک بھی چلتا ہے کہ میاں نواز شریف صاحب کو سنجیدہ گفتگو کرنے کے لیے شہباز شریف یا پرویز رشید کی موجودگی درکار ہوتی ہے جو اِن مواقع پر نہ صرف بات کو سنبھال لیتے ہیں بلکہ رکتے رکتے میاں صاحب کو بھی چلا دیتے ہیں۔ اب چین میں بھی شہباز شریف یہی کام کر رہے تھے کہ وہ اپنے بھائی کیساتھ جُڑ کر بیٹھے تھے کہ کہیں وہ پھر کسی بات پر اٹک نہ جائیں۔ اور میاں صاحب اٹکے اور شہباز شریف فورا ًمدد کو آئے۔ شاید شہباز شریف کسی بھی ملک جاتے وقت کچھ باتوں کو ہوم ورک کی طرح تیار کر کے جاتے ہیں۔ اب بھلا کس کو خیال تھا کہ نواز شریف صاحب پاک چین دوستی پر وہ جملہ سنانے کی کوشش کریں گے جو انہیں پورا یاد نہیں۔خیر بات آگے بڑھی۔ کمپنی کے سی ای او نے جہاں بہت کچھ بتایا وہیں دو باتیں آج دس برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود میرے ذہن میں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی اکلوتی کمپنی چین میں 22 کروڑ لوگوں کو بجلی فراہم کررہی ہے یا اس کے بائیس کروڑ کنکشن/کنزیومرز ہیں۔ مطلب اس وقت پاکستان کی آبادی سے زیادہ کنزیومرز کو تو وہ اکیلی فرم بجلی فراہم کر رہی تھی جبکہ اتنی آبادی کو پاکستان میں بجلی فراہم کرنے کے لیے تین چار ڈیمزاور پچاس سے زائد پاور پلانٹس کے علاوہ نیوکلیئر پلانٹس بھی بجلی پیدا کررہے ہیں اور پھر بھی پوری نہیں ہو رہی ۔ اگرچہ پاور پلانٹس کی کیپسٹی زیادہ ہے جس کیلئے انہیں باقاعدہ ڈالروں میں طے شدہ ریٹ کے حساب سے ادائیگی کی جارہی ہے۔یوں وہ پلانٹس گھر بیٹھے مہنگی بجلی پیدا کر کے ڈالروں میں مال بنا رہے ہیں۔
یہ بات ہم سب لوگوں کیلئے حیران کن ہے کہ دنیا میں ایسی بجلی کمپنی بھی پائی جاتی ہے جو اکیلے پاکستان کی آبادی کے برابر لوگوں کو بجلی فراہم کررہی ہے اور لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوتی تھی۔اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف کو ایک اچھا سوال یاد آیا جو انہوں نے پوچھا اور اس کا جواب ہم لوگوں کو مزید متاثر کر گیا۔ اگر مرعوب ہونے میں کوئی کسر رہ گئی تھی تو اس سوال کے جواب نے پوری کر دی۔نواز شریف نے جب سنا کہ وہ پاور کمپنی بائیس کروڑ لوگوں کو بجلی فراہم کررہی ہے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی کمپنی کے لائن لاسز کتنے فیصد ہیں ؟نواز شریف کے اس سوال کی بنیاد پاکستان میں غیرمعمولی لائن لاسز تھے۔ ان لائن لاسز میں بجلی چوری سے لے کر بوسیدہ ٹرانسمیشن سسٹم میں ضائع ہونے والی بجلی کے علاوہ وہ بل بھی شامل ہیں جو ادا نہیں کئے جاتے۔ پاکستان میں بلوچستان اور خیبر پختو نخوا کے علاوہ پنجاب کے کچھ علاقوں میں بجلی کے بل نہ دینے کی روایت ہے۔ اگرچہ سرکاری طور پر لائن لاسز پندرہ سے بیس فیصد تک تسلیم کے جاتے ہیں لیکن نان آفیشل اندازے کے مطابق یہ لاسز تیس سے چالیس فیصد کے درمیان ہیں۔ ایک فیصد لائن لاس کا مطلب ہے 27 ارب کی بجلی چوری یا ضائع ہوگئی۔ ان لائن لاسز کا خسارہ بھی بجلی کے بلوں میں ان لوگوں سے وصول کیا جاتا ہے جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں‘ جس کہ وجہ سے ان لوگوں کے بلوں میں کسی ماہ اچانک بہت اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ بلبلا اٹھتے ہیں۔
ماضی میں جب بھی کسی وزیراعظم کو واپڈا افسران بریفنگ دیتے تھے تو وہ لائن لاسز بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تاکہ اپنی نااہلی اس میں چھپا سکیں۔ شاید نواز شریف کے ذہن میں بھی وہی باتیں تھیں لہٰذا انہوں نے اچھا سوال پوچھا کہ آپ اگر اتنے بڑے پیمانے پر بجلی فراہم کررہے ہیں تو یقینا آپ کے ہاں بھی بجلی چوری ہوتی ہوگی‘ کنڈے ڈالے جاتے ہوں گے یا بجلی کے بلوں کی ادائیگی نہیں کی جاتی ہوگی اور اگر کوئی بل لینے جاتا ہوگا تو وہ لوگ آگے سے اسلحہ نکال کر ریکوری ٹیم پر حملہ آور ہو جاتے ہوں گے؟پاکستان میں تو یہ عام سی بات ہے۔ بلکہ کچھ دن پہلے فیڈرل سیکرٹری راشد لنگڑیال نے جب صحافیوں کو بجلی کے بلوں پر بریفنگ دی تو انہوں نے کہا کہ لاہور میں ایک ایسا علاقہ ہے جہاں اگر واپڈا والے بل لینے جائیں تو ان گھروں کے مرد تو چپکے سے باہر نکل جاتے ہیں جبکہ گھریلو خواتین اپنے گھریلو برتن اٹھا کر واپڈا ٹیموں پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بتائیں آپ ایسی خواتین سے کیسے بل ریکور کراسکتے ہیں جہاں کی خواتین تشدد میں بہت تیز ہیں۔ اس طرح کا سلوک خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں بھی واپڈا ٹیموں ساتھ کیا جاتا ہے۔اس مد میں تقریباً پانچ چھ سو ارب روپے کی ریکوری نہیں ہوپارہی یا چوری ہورہی ہے جو بجلی استعمال کرنے والے لوگوں سے ریکور ہورہی ہے۔ ہر بل میں وہ پیسے ڈالے جارہے ہیں جو بجلی چوری‘ کنڈا سسٹم یا بل نہ دینے کی وجہ سے پورے کرنے تھے۔اب ہم سب کی نظریں کمپنی کے سی ای او پر تھیں۔ ہم سب کا خیال تھا کہ چین کتنی ہی ترقی کر جائے اب اتنی بھی نہیں کی ہوگی‘ کم از کم دس فیصد تو ضرور ہی لائن لاسز ہوں گے۔ اگر چوری نہ بھی ہورہی ہو اور لوگ پورے بل دے رہے ہوں پھر بھی ٹرانسمیشن میں تو یقینا بجلی ضائع ہورہی ہوگی۔ہم سب کی نظریں کمپنی کے سی ای او پر تھیں کہ وہ اب کیا کہتا ہے۔اس کمپنی کے سی ای او کے چہرے پر نواز شریف کا سوال سن کر مسکراہٹ ابھری۔ وہ بولا: سر ہماری کمپنی کے لائن لاسسز زیرو ہیں۔ ہم سب کو لگا کہ ہمیں سننے میں غلطی لگی ہے۔انہوں نے کوئی فگر بتایا تھا جو ہم نہیں سن سکے۔ پاکستانی وفد کے چہروں پر پھیلی حیرت کو انجوائے کرتے ہوئے کمپنی کے سی ای او نے دوبارہ اونچی آواز میں کہا: سر ہماری کمپنی کے لائن لاسز بالکل زیرو ہیں۔ بجلی چوری ہوتی ہے‘ نہ سسٹم میں ضائع ہوتی ہے اور نہ لوگ بل دینے سے انکار کرتے ہیں۔کافی دیر ہم سب لوگ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ اس کمپنی نے ایسا سسٹم بنا لیاہے جہاں بجلی کا ایک یونٹ بھی ضائع نہیں ہورہا۔ جتنی بجلی وہ اپنے پاور پلانٹس سے بنارہی تھی وہ پورے فول پروف سسٹم سے گزر کر سو فیصد کنزیومرز تک پہنچ رہی تھی اور ان سے وہی بل لیا جارہا تھا جتنے یونٹ وہ خرچ کررہے تھے۔ اسے پاکستان کی طرح اپنے محکمے کی نالائقی‘ نااہلی یا کرپشن کا خمیازہ نہیں بھگتنا پڑ رہا تھا۔ہم سب ہونقوں کی طرح اُس چینی کمپنی کے عہدیداروں کو دیکھ رہے تھے۔ ہمیں لگا کہ ہم چین میں نہیں کسی اور گولے پر لینڈ کرگئے ہیں جہاں انہونی ہونا کوئی بڑی بات نہیں ۔ کم از کم اس پورے سرکاری وفد کو توقع نہ تھی کہ اس کمپنی کا نقصان زیرو ہوگا۔ اتنے بڑے پیمانے پر سسٹم کو وہ کس خوبصورتی سے چلا رہے تھے۔ یقینا ہزاروں لوگ اس کام میں مصروف ہوں گے لیکن کہیں کچھ غلط نہیں ہورہا تھا۔اب نواز شریف اور شہباز شریف کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کے بعد وہ کیا بات کریں۔ کیا سوال کریں۔
میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ میں اگر اس اگلی کرسی پر بیٹھا ہوتا تو اس کمپنی کے عہدیداروں سے اگلا کیا سوال کرتا۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں