عالمی سطح پر جاری یوکرائن اور اب غزہ کے انسانی المیے میں یہ خبر کیا اہمیت رکھتی ہے کہ نیوزی لینڈ میں ہونے والے عام انتخابات میں حکومتی پارٹی ہار گئی ہے۔اس ہار کی ایک بڑی وجہ مہنگائی بتائی گئی ہے۔مجھے کچھ حیرانی ہوئی کہ نیوزی لینڈ جیسا ملک بھی مہنگائی کا شکار ہے اور لوگوں کو وہاں مہنگائی ایسے کاٹتی ہے جیسے ہمارے عام لوگوں کا حال اس وقت بہت برا ہے۔
ایک دفعہ میں نے اپنے مرحوم دوست ڈاکٹر ظفرالطاف سے پوچھا کہ آپ نے ساری دنیا گھومی ہے‘آپ کو اگر پاکستان کے علاوہ کسی ملک میں رہنے کا موقع ملے تو کہاں پسند کریں گے؟ بولے : ویسے تو اپنا جینا مرنا پاکستان میں ہی ہے لیکن اگر کسی ملک نے متاثر کیا ہے‘اپنے سسٹم ‘ سوشل ویلفیئر اور دیگر سہولتوں کی وجہ سے تو وہ نیوزی لینڈ ہے۔ وہ بڑی دیر تک مجھے نیوزی لینڈ کے گورننس اور دیگر سسٹم کے بارے بتاتے رہے کہ نہ صرف وہ ملک خوبصورت ہے بلکہ وہاں جو نظام بنایا گیا ہے اس کا کسی اور ملک سے کوئی مقابلہ نہیں ۔نیوزی لینڈ میں کچھ عرصہ پہلے تک مہنگائی کی شرح ساڑھے چھ فیصد بتائی گئی تھی جو اَب کم ہو کر چھ فیصد تک آگئی ہے‘ لیکن ووٹرز کو لگا ہے کہ یہ مہنگائی ان کے بس سے باہر ہے‘ لہٰذا انہوں نے حکومتی پارٹی کو شکست دی ہے کیونکہ اپوزیشن پارٹی انہیں جو مراعات دینے کا وعدہ کررہی تھی وہ انہیں زیادہ پرکشش لگ رہی تھیں۔
اگرچہ دنیا بھر میں بجٹ بناتے وقت پچھلے بجٹ پر دس فیصد اضافہ رکھا جاتا ہے کہ اس ایک سال میں ہر چیز کی قیمت بڑھتی رہتی ہے۔ یہ بات یقینا حیران کن ہوگی کہ نیوزی لینڈ‘ جہاں ہمارے بیوروکریٹ تک چپکے سے شہریت لیتے رہتے ہیں‘ وہاں لوگ مہنگائی کی وجہ سے حکومتی پارٹی کو شکست دے دیں گے۔یہ بات طے ہے کہ لوگ نہ صرف کوالٹی لائف چاہتے ہیں بلکہ سستی چاہتے ہیں۔ ہم سب اپنی لائف کو بہتر کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بہتری کے پراسس میں جو قیمت درکار ہے ہم وہ نہیں دینا چاہتے۔ ہمیں دنیا کی سب سہولتیں چائیں۔ اگر مفت مل جائیں تو کیا ہی بات ہے اور اگر مفت نہیں مل رہیں تو چلو بس چند روپوں سے ہی کام چل جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر سہولت مہنگی لگتی ہے ‘لیکن وہ سہولت ہم ہر قیمت پر چاہتے ہیں۔
ایک طرف چھ فیصد مہنگائی پر حکومت الیکشن ہار جاتی ہے تو پھر پاکستان کے بارے کیا خیال ہے جہاں مہنگائی تاریخ کی بدترین سطح پر ہے۔ پچھلے دنوں سینیٹ کی فنانس کمیٹی میں ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت صاحب نے بتایا تھا کہ اس وقت مہنگائی کی شرح تیس فیصد سے بڑھ چکی ہے۔اس لیول کی مہنگائی پاکستان میں پہلے کبھی نہیں سُنی گئی۔ ان حالات نے پاکستان کی مڈل اور تنخواہ دار کلاس کو بھی غربت میں دھکیل دیا ہے۔ پچھلے دنوں ایک اور خبر میں بتایا گیا تھا کہ ایک کروڑ لوگ غریبوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ حکمرانوں کا کام ہے کہ غریبوں کو بہتر معاشی مواقع دے کر غربت سے نکالیں جیسے چینی قیادت نے کیا۔ ادھر ہمارے ہاں پاکستان میں ایک کروڑ لوگ مزید غریب ہوگئے۔ اسی فنانس کمیٹی اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ ڈالر کی قیمت ایک روپیہ بڑھنے سے بجلی اٹھارہ ارب روپے مہنگی ہوجاتی ہے اور پچھلے ایک سال میں ڈالر کی قدر میں ایک سو روپیہ اضافہ ہوا، یوں 1800 ارب روپے بجلی مہنگی ہوگئی‘ جو پاکستانی عوام سے وصول کی گئی یا کی جائے گی۔
پاکستانی حکمرانوں نے سب سے بڑا ظلم جنوری‘ فروری 2022ء میں کیا جب شوکت ترین نے آئی ایم ایف ڈیل کو جان بوجھ کر خراب کیا اور آئی ایم ایف اس ڈیل سے نکل گیا جس سے روپیہ گرنا شروع ہوا جو عمران خان سے لے کر شہباز شریف تک کوئی نہ روک سکا۔ شوکت ترین نے آئی ایم ایف ڈیل جان بوجھ کر خراب کی کیونکہ وزیراعظم عمران خان کو لگا کہ تحریک عدم اعتماد آرہی ہے‘ لہٰذا آنے والی پی ڈی ایم حکومت کے لیے ایسا جال بچھا کر جائیں یا بقول شیخ رشید کے ایسی بارودی سرنگیں معاشی نظام میں فٹ کر کے جائیں کہ اگلی حکومت گھٹنوں پر جھکے بلکہ ان کے ساتھ عوام بھی لیٹ جائیں۔ وہی کچھ ہوا‘ آئی ایم ایف ڈیل ختم ہوتے ہی عمران خان کے ہوتے ہوئے ڈالر 165‘170 سے 188 تک گیااور شہباز شریف اسے 282 پر چھوڑ گئے۔ شوکت ترین نے بعد میں وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کے دور میں آئی ایم ایف سے دوبارہ ڈیل کو ناکام بنانے کی کوشش کی جب ان کی فون کالز ریکارڈ کی گئیں جو پنجاب کے وزیرخزانہ محسن لغاری اور خیبرپختوانخوا کے تیمور سلیم جھگڑا کو کی گئی تھیں۔وہ ان دونوں کو بتا رہے تھے کہ خطوط لکھنے ہیں ‘ عمران خان کو ہٹانے کی سزا ان سب کو دلوانی ہے اور آئی ایم ایف کی ڈیل دوبارہ نہیں ہونے دینی تاکہ اکانومی کہیں سنبھل نہ جائے۔ شوکت ترین شکر کریں وہ روس‘ شمالی کوریا‘ ایران یا چین میں نہیں تھے ورنہ بات صرف ان کے خلاف ایف آئی آر تک نہ رکتی۔ شوکت ترین کے خلاف ایف آئی آر درج تو ہوئی لیکن پھر سب بڑے لوگوں نے مل کر شوکت ترین کو بچا لیا جو ریاست پاکستان کو ڈبونے کی سازش کرتے پکڑے گئے تھے۔ وہی بات کہ بڑے لوگ ایک دوسرے کو بچا لیتے ہیں جیسے شوکت ترین کو خاموشی سے بچا لیا گیا اور پھر کبھی نہ سنا کہ اس ایف آئی آر کا کیا بنا۔ نو مئی کے بعد تحریک انصاف کا کوئی ورکر جھنڈا اٹھائے کہیں نظر آیا تو وہ ایسا غائب ہوا کہ دوبارہ نظر نہیں آیا لیکن یہ سلوک بڑے آدمی شوکت ترین کے ساتھ نہیں ہوا۔
سازشیں یہاں تک نہ رکیں بلکہ مفتاح اسماعیل کے وزیرخزانہ بننے کے بعد وہ آئی ایم ایف ڈیل کے قریب پہنچ چکے تھے لیکن انہیں اسحاق ڈار نے لندن بیٹھ کر نواز شریف کے کان بھر کر ہٹوا دیا۔ اس وقت ستمبر میں ڈیل سائن ہوجاتی تو ڈالر دو سو بیس تیس روپے تک رُک جاتا‘ لیکن وہی کام اسحاق ڈار نے کیا جو اُن کے پیٹی بھائی شوکت ترین نے چند ماہ پہلے کیا تھا۔ مفتاح کو ہٹا کر آتے ہی آئی ایم ایف کو تڑیاں لگائیں اور ستمبر میں معاہدے پر دستخط نہیں ہونے دیے ‘ الٹا ایسے ایسے بیانات دیے جیسے پاکستان آئی ایم ایف سے نہیں آئی ایم ایف پاکستان سے قرضہ مانگ رہا تھا۔ ڈار نے چھ ماہ تک یہ کھیل جاری رکھا اور آخر اس وقت ڈیل سائن کی جب ڈالر ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ پہلے عمران خان اور شوکت ترین کی اَنا کی قیمت پاکستانی عوام اور اکانومی نے چکائی تو اَب نواز شریف‘ شہباز شریف اور اسحاق ڈار کی اَنا نے تباہی مچا دی اور ڈالر کو تین سو روپے کے قریب چھوڑ کر پتلی گلی سے لندن نکل گئے کہ اب سنبھالو اپنا وطن دوستو۔یہ دو حکمرانوں‘ عمران خان اور نواز شریف کی انائوں کی جنگ تھی جو ان دونوں نے شاید جیت لی ہو لیکن پاکستانی عوام برُی طرح ہار گئے۔ غربت اور مہنگائی نے سب کو برباد کر دیا۔ عمران خان بھی برداشت نہ کرسکے کہ کیا ہوا اگر وہ وزیراعظم نہیں رہیں گے‘ شاید وہ دوبارہ بن جائیں لہٰذا ملک کے وسیع مفاد میں آئی ایم ایف ڈیل نہیں توڑنی‘ لیکن انہوں نے اپنی اَنا کو اوپر رکھا‘ریاست اور عوامی مفادات کو پیچھے کیا۔ یہی کام نواز شریف‘ شہباز شریف اور زرداری نے کیا کہ وہ عمران خان کو اپنے پانچ سال پورے کرنے دیتے تاکہ عوام ان کی ''قابلیت‘‘ اور ''ذہانت‘‘ کے مظاہروں سے اچھی طرح لطف اندوز ہوتے۔ لیکن زرداری‘ نواز شریف اور شہباز شریف پر بھی ذاتی مفادات حاوی ہوئے کہ اپنے کرپشن مقدمات ختم کرائیں گے‘ دوبارہ وزیرخزانہ اور وزیراعظم بنیں گے۔ خان ہو یا شریف دونوں نے ذاتی مفادات کو سامنے رکھا اور دونوں نے ملکی معیشت تباہ کی۔اب وہی نواز شریف پاکستان لوٹ رہے ہیں کہ چوتھی دفعہ وزیراعظم بننا ہے۔ حیران ہوتا ہوں کہ جب ان کے بھائی وزیراعظم شہباز شریف سولہ ماہ حکومت کے بعد 30 فیصد مہنگائی چھوڑ کر گئے تو وہ کیسے الیکشن جیتیں گے‘ جب نیوزی لینڈ جیسے خوشحال ملک میں حکومتی جماعت صرف چھ فیصد مہنگائی پر الیکشن ہار گئی ہے؟