آج کل وہی پرانا کھیل شروع ہوگیا ہے کہ پارٹیاں اپنا سیاسی منشور اپنے اپنے بہترین دماغوں سے لکھوا رہی ہیں۔ جہانگیر ترین کی پارٹی سب سے پہلے اس میدان میں اُتری ہے اور اپنا پارٹی منشو ر دیا ہے۔ عوامی جلسے بھی شروع کر رکھے ہیں جن میں عوام کی اب تک مناسب تعداد نظر آرہی ہے۔ باقی باتیں بعد میں لیکن جہانگیر ترین نے ایک بات بڑی اہم کی ہے جو شاید نچلے طبقے کے ووٹر کو ان کی طرف لانے میں اہم ثابت ہوگی۔ ان کی پارٹی کاکہنا ہے کہ وہ مزدور کی کم از کم تنخواہ پچاس ہزار کر دیں گے جو اس وقت بتیس ہزار ہے۔ یقینا یہ بہت بڑا وعدہ ہے۔ اس پر ہمارے دوست انجم کاظمی نے اپنی فیس بک پر پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے خوبصورت جملہ لکھا کہ جہانگیر ترین اگر اپنی پارٹی کے منشور پر عمل درآمد کرانے میں سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے انہیں اپنی شوگر ملز کے علاوہ اپنے فارم ہاؤسز کے ملازمین کی تنخواہ پچاس ہزار کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ اپنے رشتہ داروں کی ملتان میں ملوں کے ورکرز کی تنخواہ بھی بڑھوانی چاہئے۔ اس طرح ان کی پارٹی کے دیگر بڑے بڑے بلڈرز اور ہاؤسنگ سوسائٹی مالکان کو بھی یہی اعلان کرنا چاہئے تاکہ سب کو پتہ چلے کہ یہ نئی پارٹی کے لوگ کتنے سنجیدہ ہیں اور اگر انہیں حکومت مل گئی تو یہ اپنے وعدے پورے کریں گے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہورہا تھا جس میں شوگر ملز مالکان کی طرف سے کسانوں کو گنے کی ادائیگیاں نہ کرنے کا معاملہ زیر بحث تھا۔ شوگر ملز مالکان نے روایت بنا لی تھی کہ کئی کئی سال تک کاشتکار رُلتے رہ جاتے تھے‘ سڑکوں پر ہنگامے ہوتے‘ ملوں کے باہر مظاہرے ہوتے تو پھر حکومت جاگتی اور جب مل مالکان پر دبائو پڑتا تو مالکان حکومت کو کہتے کہ ہمارے گوداموں میں سرپلس شوگر پڑی ہے ‘آپ ہمیں ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دیں۔ جونہی حکومت تیار ہوتی تو ساتھ ہی وہ کہتے کہ ہمیں اربوں روپوں کی سبسڈی بھی دیں۔ یوں سبسڈی لے کر جونہی وہ چینی باہر بھیجنا شروع کرتے ساتھ ہی چینی کی لوکل مارکیٹ میں شارٹیج کر دیتے جس سے چینی کی قیمت آسمان کو چھو جاتی اور دو ماہ میں اربوں روپے عوام کی جیب سے نکال لیتے۔ یہی کچھ اگر آپ کو یاد ہو 2019ء میں ہوا جب عمران خان دور میں اسد عمر نے رزاق دائود کے کہنے پر چینی باہر بھیجنے کی منظوری دی‘ جس پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے وزیزخزانہ ہاشم بخت کو کہا کہ چار ارب روپے ان مل مالکان کو دے دیں۔ہاشم بخت نے اپنے بھائی کی رحیم یار خان مل کو فوراً پچاس کروڑ روپے سبسڈی دے دی۔ اس مل میں گجرات کے چوہدریوں کا بھی حصہ تھا۔ جہانگیر ترین اور ان کے ملتان کے ماموں اور دیگر کی ملوں کو بھی سبسڈی دی گئی جو بعد میں ایک بڑے سکینڈل کا سبب بنی اور ترین صاحب پر مقدمات بھی ہوئے۔
خیر بات ہورہی تھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کی جس میں اُس وقت کے سیکرٹری زراعت اسماعیل قریشی موجود تھے۔ کمیٹی ممبران نے پوچھا‘ کوئی ایسی شوگر مل بھی ہے جس کے مالک کے خلاف کسانوں کو کوئی شکایت نہیں اور انہیں وقت پر ادائیگی ہوتی ہے؟ اس پر اسماعیل قریشی صاحب نے جواب دیا کہ جہانگیر ترین کی شوگر مل ان دو تین ملوں میں شامل ہے جو کسانوں کا پیسہ کبھی نہیں دباتے۔ فوری طور پر گنے کی ادائیگی ہوتی ہے اور کسان جہانگیر ترین سے خوش ہیں۔ اس اجلاس میں‘ میں خود موجود تھا جس میں یہ بات اسماعیل قریشی صاحب نے کی تھی۔ اس بات کو دس پندرہ برس ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد بھی ان برسوں میں کبھی نہ سنا کہ جہانگیر ترین کے خلاف کسانوں کو ادائیگیاں نہ ہونے پر کوئی مسئلہ ہوا۔ اگرچہ دیگر ملز مالکان حکومت سے اربوں روپے سبسڈی کے نام پر بھی لے لیتے لیکن انہوں نے کسانوں کو ذلیل کرنے کا رویہ بھی جاری رکھا۔ اس لیے ترین صاحب کی ساکھ تو مارکیٹ میں موجود ہے کہ وہ کسانوں اور مزدورں کا استحصال نہیں کرتے‘ اس لیے اگر وہ یہ وعدہ کررہے ہیں کہ پچاس ہزار روپے کم از کم تنخواہ کر دیں گے تو میں یقین کرنے کو تیار ہوں۔ میں نے کچھ عرصہ ان کے سرائیکی چینل میں پروگرام بھی کیا۔ وہاں بھی ملازمین کو تنخواہوں یا دیگر ایشوز کا کبھی سامنا نہیں ہوا۔ ان کی ڈیلنگ بہت اچھی رہی‘ لیکن بات وہی انجم کاظمی والی کہ پہلے انہیں اپنے فیکٹری ورکرز اور فارم ہاؤسز کے ملازمین پر اپنا یہ اعلان لاگو کرنا چاہیے۔
انہیں حکومت میں آنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ اگرچہ بہت سے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی اپنی جیب سے پیسہ نہیں دینا چاہتا اور ہر کوئی حکومت میں آکر حکومتی وسائل سے ہی لوگوں کی مدد کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ اس لیے ترین صاحب اور علیم خان صاحب بھی حکومت ملنے پر ہی یہ کام کرسکتے ہیں‘ لیکن اس وقت علیم خان اور جہانگیر ترین کو کچھ نیا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ انہیں ووٹر سیریس لیں۔ ووٹر بھی بہت سیانے ہوچکے ہیں اور سب سیاسی لیڈروں کے ہاتھوں لٹ بھی چکے اور بیوقوف بھی بن چکے ہیں۔ وہ اتنی آسانی سے کسی کے جال میں نہیں آئیں گے خصوصا ًجب ترین اور علیم کی پارٹی پر یہ چھاپ لگ چکی ہے کہ وہ طاقتور لوگوں کی پارٹی ہے اور انکے سر پر بڑوں کا ہاتھ ہے۔
دوسری طرف عمران خان کی مقبولیت بھی پنجاب میں بہت ہے‘ لہٰذا ان کے امیدواروں کے سامنے ترین اور علیم کی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ لینے کے لیے خاصی محنت کرنا ہوگی۔ اگرچہ میری اسحاق خاکوانی صاحب سے ایک ٹی وی شو میں بات ہورہی تھی کہ ان حالات میں ان کی پارٹی امیدواروں کو کون ووٹ دے گا؟وہ کہنے لگے: آپ لوگ بھول رہے ہیں کہ ہمارے زیادہ تر امیدوار وہ ہیں جو الیکٹ ایبل کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ان کے اپنے بھی بہت ووٹ ہیں۔ وہ الیکشن لڑنے اور جیتنے کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں‘ لہٰذا بالکل ہمیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم فارغ ہیں یا ہمارے امیدوار فارغ ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ الیکشن ڈے پر سرپرائز دے سکتے ہیں۔ اسحاق خاکوانی خود بھی اپنے آبائی حلقے وہاڑی سے الیکشن لڑیں گے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے تو علاقے میں کبھی تھانہ ‘ کچہری کی سیاست نہیں کی‘ کسی کے ساتھ بدمعاشی نہیں کرتے۔ لوگ تو اُس کا ساتھ یا ووٹ دیتے ہیں جو انہیں دبا کر رکھے اور ہر روز کسی نہ کسی پر پرچہ کراتا رہے۔ وہ بولے: جس مہربان نے ووٹ دینا ہے وہ اس کے بغیر بھی دے سکتا ہے۔ یہ کام میں نے نہ کبھی کیا تھا نہ کروں گا‘ چاہے ہار ہی کیوں نہ جائوں۔
یاد آیا کہ ایک دفعہ امریکہ میں ڈیلیور ریاست میں ایک بڑے سپر سٹور پر ڈاکٹر احتشام قریشی مجھے لے گئے جس کے مالک کا تعلق وہاڑی سے تھا۔ ان کا نام مقصود آرائیں تھا۔ میں نے پوچھا :آپ لوگ وہاڑی میں کس سیاستدان کو پسند کرتے ہیں۔ کہنے لگے: اسحاق خاکوانی کو‘جنہوں نے تھانہ کچہری کی سیاست کبھی نہیں کی ‘نہ کسی کے ساتھ زیادتی کی۔ مجھے پاکستان سے دور امریکہ میں مقصود آرائیں کی یہ بات سن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ابھی بھی کچھ لوگ موجود ہیں جو کسی سیاستدان کی ان باتوں کو پسند کرتے ہیں۔ خیراس فلاسفی کا اسحاق خاکوانی کو فائدہ نہ ہوا کہ وہ 2018ء کا الیکشن ہار گئے تھے۔ عوام تھانہ کچہری اور ذاتی کام چاہتے ہیں۔ جہاں سیاستدانوں میں خرابی ہے وہیں عوام کا بھی سدھرنے کا کوئی موڈ نہیں۔
آخری بات وہی کہ اگر ترین اور علیم خان چاہتے ہیں کہ عوام اور میڈیا انہیں سیریس لیں تو وہ ابھی سے انجم کاظمی والے مشورے پر عمل کریں اور اپنے اداروں اور شوگر ملز میں ورکرز کی کم از کم تنخواہ پچاس ہزار کریں۔ورنہ یہ بھی ایک سیاسی نعرہ ہوگا جسے کوئی سیریس نہیں لے گا۔