اللہ بھلا کرے ہمارے سیاسی لیڈروں کا جنہوں نے ہمیں کبھی بور نہیں ہونے دیا۔ آپ پاکستانی عوام اور میڈیا کو چھوڑیں‘ عالمی سطح پر جتنی کتابیں پاکستان پر لکھی گئی ہیں‘ شاید دنیا کے کسی اور ملک پر نہ لکھی گئی ہوں۔ آپ لندن یا نیویارک کے کسی بڑے بک سٹور میں داخل ہوں‘ آپ کو پاکستان پر درجنوں بیسٹ سیلر کتب ملیں گی۔ دنیا بھر کے صحافی پاکستان میں چند برس گزارتے ہیں اور واپس جا کر پاکستان بارے ایسی گرم اور مسالے دار کتابیں لکھتے ہیں کہ وہ برسوں بکتی رہتی ہیں۔ اکثر غیرملکی صحافی کہتے تھے کہ پاکستانی شاید دنیا کی وہ واحد قوم ہے جس کا بچہ بچہ سیاسی ہے اور سیاست پر گفتگو کرنا پسند کرتا ہے بلکہ روزانہ ایک دوسرے سے سیاستدانوں کے نام پر پھڈا ڈال کر بیٹھا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کے پاس لکھنے کیلئے بہت مواد ہوتا ہے۔ جو بڑے بڑے ادارے اور لوگ پاکستان میں میٹر کرتے ہیں‘ وہ ان غیرملکی صحافیوں کے ساتھ کھل کر بات بھی کرتے ہیں‘ انہیں سب معلومات دیتے ہیں‘ لیکن پاکستانی صحافیوں کو نہ رسائی دی جاتی ہے نہ ان کے ساتھ اندرونی خبریں شیئر ہوتی ہیں۔ آپ تصور کریں کہ اس ملک میں ہر وقت ایسا تماشا لگا رہتا ہے کہ دنیا بھر کے صحافی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔
ٹی وی چینلز عام ہونے کے بعد تو روزانہ کی بنیاد پر کوئی خبر یا سکینڈل درکار ہوتا تھا اور یوں خبریں یا سکینڈل بریک کرنے کی ایک ایسی دوڑ لگی جو تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ شروع میں تو ان خبروں کا لوگوں اور حکمرانوں پر کچھ نہ کچھ اثر ہوتا تھا لیکن جوں جوں چینلز اور خبروں کی تعداد بڑھتی گئی توں توں یہ خبریں اپنا اثر کھوتی گئیں۔ اب کوئی خبر ایسی نہ تھی جو لوگوں کے دل و دماغ پر زیادہ دیر تک اثر رکھتی۔ صبح کی خبر دوپہر تک بھلا دی جاتی تو دوپہر والی کسی کو شام تک یاد نہ رہتی اور شام کی خبر کا کسی کو صبح تک پتا نہ ہوتا تھا کہ وہ کہاں گئی۔ اس دھما چوکڑی کا زیادہ فائدہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ہوا جن کے بارے بریک کیے گئے سب سکینڈل کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ہی ختم ہوتے گئے۔
پھر بڑے چور اور چھوٹے چور کے درمیان مقابلہ شروع ہو گیا اور عوام خود بخود اس رنگ میں ڈھلتے گئے کہ اگر میرا لیڈر چور ہے تو تمہارا کون سا سادھ ہے۔ لیڈر کرپشن کر رہے تھے اور عوام ان کا دفاع۔ ایسے عوام دنیا میں کہاں ملیں گے جو لیڈروں سے حساب کتاب یا ان سے ان کی حرکتوں یا فیصلوں کی جواب دہی کرنے کے بجائے الٹا ان کا دفاع کرنے لگ جاتے ہیں۔ اب پی ٹی آئی کے حامیوں کو بڑی فکر ہے کہ خاور مانیکا کے انٹرویو کے بعد شاید عمران خان کی مقبولیت میں کوئی کمی ہو جائے گی یا شاید ان کا امیج خراب ہو گا۔ مجھے اس بات پر واقعی بہت ہنسی آتی ہے کیونکہ اس ملک میں کب‘ کس لیڈر کا امیج خراب نہیں ہوا ہے۔ امیج خراب ہونے کے بعد ہی نواز شریف چوتھی دفعہ وزیراعظم بننے والے ہیں‘ زرداری صاحب ساٹھ ملین ڈالرز منی لانڈرنگ الزام کے بعد بھی صدرِ پاکستان بن گئے تھے‘ عمران خان بھی بہت سارے سکینڈلز اور خبروں کے بعد بھی ملک کے وزیراعظم بن گئے اور خاور مانیکا کے انٹرویو کے بعد وہ مزید پاپولر ہوں گے۔
ٹویٹر پر جب یہ بحث و مباحثہ بڑھا اور خان صاحب کے حامیوں نے خان صاحب کے اپنے یا ان کے ترجمانوں کے جواب کا انتظار کیے بغیر خود ہی اس صورتحال کے جواز تلاش کرنا شروع کر دیے تو میں نے بھی اس ایشو پر ٹویٹ کر دیا کہ خاور مانیکا کے انکشافات سے خان کے حامیوں کو اگر یہ لگ رہا ہے کہ ان کے محبوب لیڈر کو بہت بڑا سیاسی یا ذاتی نقصان ہو جائے گا تو وہ تسلی رکھیں‘ ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ خان کی مقبولیت بڑھے گی۔ اس ملک میں ذاتی کردار‘ اخلاقیات‘ کرپٹ لیڈر یا کرپشن کے ایشوز پر عوام ووٹ ڈالتے ہیں نہ انہیں ان سکینڈلز سے کوئی فرق پڑتا ہے اُلٹا وہ چسکے لیتے ہیں۔ اگر فرق پڑتا ہوتا تو عمران خان پہلے تو وزیراعظم نہ بنتے یا آج ان تمام باتوں کے باوجود اتنے مقبول نہ ہوتے اور نواز شریف چوتھی دفعہ وزیراعظم نہ بن رہے ہوتے۔ زرداری صاحب ساٹھ ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کے باوجود صدرِ مملکت بن گئے۔ اس قوم کو لیڈروں کی مالی کرپشن یا اخلاقی کردار جیسی معمولی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو اتنی سخی قوم ہے کہ جن پر اخلاقی یا مالی الزامات لگ رہے ہوں‘ یہ ان سیاسی لیڈروں سے سخت سوال پوچھنے یا ان کے جواب کا انتظار کیے بغیر الٹا خود ہی سے ان کا دفاع شروع کر دیتی ہے۔ یہ قوم اپنے لیڈروں کے دفاع میں ایسی وضاحتیں گھڑ لیتی ہے جس کا اس لیڈر کو خود بھی علم نہیں ہوتا۔ یقینا وہ سیاسی لیڈر یہ وضاحتیں سن اور پڑھ کر قہقہے لگاتا ہوگا۔ یہ لکڑ ہضم پتھر ہضم والی قوم ہے۔ بہت بڑا جگر اور دل ہے اس قوم کا۔ بس لٹیرا اپنی پسند کا ہو۔ اس لیے ٹویٹر پر ایسے دھول نہ اڑائیں نہ خود کو تھکائیں۔ شاید ایک آدھ دن مزید یہ تماشا ہوگا‘پھر نیا مداری ہوگا اور نئے تماشائی۔ شغلی لیڈر اور شغلی عوام۔ وہ گانا یاد آگیا کہ ''مجھے مست ماحول میں جینے دے‘‘۔
دوسری طرف آپ ذرا خاور مانیکا کا ظرف ملاحظہ فرمائیں ۔ میں ایک آسٹرولوجر کا انٹرویو سن رہا تھا کہ بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا ان کے پاس عمران خان کا زائچہ بنوانے آئے تھے اور ان کا زور اس سوال پر تھا کہ وہ وزیراعظم بنیں گے یا نہیں۔ اس نے اپنے حساب کتاب سے انہیں بتایا تھا کہ وہ وزیراعظم بنیں گے‘ جس کے بعد اسی زائچہ کی بنیاد پر بشریٰ بی بی نے عمران خان کو یہ بتایا کہ ان کے موکلین انہیں یہ بتا رہے ہیں کہ وہ وزیراعظم بنیں گے لیکن انہیں اس خاندان میں شادی کرنا پڑے گی۔ باقی جو کچھ ہوا اس میں خاور مانیکا باقاعدہ پارٹنر ہے اور آج وہ محض یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے کسی بات کا علم نہ تھا یا وہ مظلوم تھا۔ عمران خان جب وزیراعظم بنے تو یہی خاور مانیکا اور اس کا خاندان ہی پنجاب چلا رہا تھا۔ خاور مانیکا کے بیٹے کو ملنے والے بڑے بڑے کنٹریکٹس کی باتیں سامنے آرہی تھیں۔ خاور مانیکا تو اتنا پاورفل ہو چکا تھا کہ ایک دفعہ اس کو پٹرولنگ پولیس نے ایک ناکے پر روکا تو اس کے مسلح گارڈز نے ان پر بندوقیں تان لیں۔ اس پر باقاعدہ ڈی پی او اور آر پی آو شارق کمال کی لاہور میں پیشی کرائی گئی۔ شارق کمال کی انکوائری وزیراعلیٰ ہاؤس میں عثمان بزدار کی موجودگی میں احسن جمیل گجر نے کی اور شارق کمال کو رگڑا لگایا جسے یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ انکوائری کروانے کے بجائے اٹھ کر وہاں سے چلا ہی جاتا۔وہی افسر پھر خاور مانیکا کے ڈیرے پر اسے منانے جاتا ہے تاکہ اپنی نوکری بچا سکے۔
یہ سب کام خاور مانیکا کرا رہا تھا۔ جب ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل سے مانیکا خاندان ناراض ہوا تو یہ فیصلہ ہوا کہ اسے پنجاب سے لے کر وفاق تک کسی جگہ دوبارہ پوسٹنگ نہیں ملے گی۔ جب سابق ڈی جی آیف ائی اے بشیر میمن نے رضوان گوندل کو ایف آئی اے میں پوسٹنگ دی تو یہی مانیکا ان سے لڑنے ان کے دفتر پہنچ گیا کہ اسے کیسے وہاں لگایا گیا۔ بشیر میمن کے دفتر سے وہ سیدھا وزیراعظم ہاؤس گیا اور بالآخر رضوان گوندل کو ایف آئی اے سے بھی ہٹوا دیا۔ عمران خان‘ بشریٰ بی بی اور بزدار کے اقتدار کے سارے مزے لوٹنے کے بعد آج خاور مانیکا مظلوم بن گیا ہے۔ خواجہ آصف کا وہی جملہ یاد آتا ہے جو انہوں نے تحریک انصاف کے ایم این ایز کو اسمبلیوں سے دھرنے کے دنوں میں استعفیٰ دینے کے بعد واپس آنے پر کہا تھا کہ کچھ شرم ہوتی ہے‘ کچھ حیا ہوتی ہے‘ کچھ گریس ہوتی ہے۔
عمران خان اور خاور مانیکا جو ایک دوسرے کا دفاع کرتے تھے‘ اور ایک دوسرے کو فرشتہ ثابت کرتے تھے‘ وہ اب ایک دوسرے کو طعنے دینے تک کے بھی قابل نہیں رہے۔